(ضیاء چترالی )
اسرائیل کا ’مسعاف منصوبہ‘ نو مننتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے دوسرے لفافے میں رکھ کر پیش کر دیا جس میں غزہ کو فلسطینیوں سے مکمل طور پر صاف کر کے یہ علاقہ بھی اسرائیل میں شامل کیا جائے گا۔ ٹرمپ نے کہا ہے کہ وہ مصر اور اردن سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ غزہ کے فلسطینیوں کو پناہ دیں تاکہ مشرق وسطیٰ میں امن قائم ہو سکے۔ اس منصوبے کی حمایت اور اس پر عمل درآمد کی دعوت اسرائیلی وزیر برائے قومی سلامتی ایتمار بن گویر اور وزیر خزانہ بتسلئيل سموٹریچ نے دی۔ ٹرمپ نے غزہ کو ’تباہ حال جگہ‘ قرار دیا، ان کا کہنا ہے کہ انھوں نے اس معاملے پر اردن کے بادشاہ عبد اللہ دوم سے بات کی ہے اور مصر کے صدر عبد الفتاح السیسی سے بھی بات کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
ٹرمپ نے صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے کہا ’میں چاہوں گا کہ مصر اور اردن لوگوں کو پناہ دیں۔ ہم 1.5 ملین( پندرہ لاکھ) افراد کی بات کر رہے ہیں تاکہ پورے علاقے کو صاف کیا جا سکے۔ جیسا کہ آپ جانتے ہیں، صدیوں سے اس علاقے میں بہت سے تنازعات ہوئے ہیں۔ مجھے نہیں پتا، لیکن کچھ نہ کچھ تو ہونا چاہیے۔‘
ایک سوال کے جواب میں ٹرمپ نے کہا ’ غزہ کے مکینوں کو وہاں سے منتقل کرنا عارضی بھی ہو سکتا ہے اور طویل مدتی بھی۔ کیونکہ یہ جگہ واقعی تباہ ہو چکی ہے، یہاں ہر چیز ملیامیٹ ہے اور لوگ وہاں مر رہے ہیں۔ اس لیے، میں کوشش کرتا ہوں کہ کئی عرب ممالک سے رابطہ کیا جائے اور وہاں ایک نئی جگہ پر رہائش فراہم کی جائے، جہاں وہ امن کے ساتھ رہ سکیں۔‘
یہ بھی پڑھیے
حماس نے 4فوجی خواتین کو کہاں رکھا ہوا تھا؟
یرغمالیوں کے لیے تحائف سے بھرے بیگز، حماس نے دنیا کو کیا پیغام دیا؟
حماس اسرائیل معاہدہ نافذ، تین اسرائیلی قیدی خواتین کی رہائی
اسرائیل پہلی بار جنگ ہار گیا، ٹائمز آف اسرائیل کی رپورٹ
نئی ٹرمپ انتظامیہ نے اسرائیل کو ’مستقل حمایت‘ فراہم کرنے کا عہد کیا ہے، حالانکہ مشرق وسطیٰ میں اپنی پالیسی کی تفصیلات فراہم نہیں کیں۔ ٹرمپ نے یہ بھی تصدیق کی کہ اس نے امریکی وزارت دفاع (پینٹاگون) کو اسرائیل کے لیے دو ہزار پاؤنڈ وزنی بموں کی کھیپ جاری کرنے کا حکم دیا ہے، جسے سابق صدر جو بائیڈن نے منجمد کر دیا تھا۔ ٹرمپ نے کہا ’اسرائیل نے اس کی مکمل قیمت ادا کر دی تھی اور وہ اس کا طویل عرصے سے انتظار کر رہا تھا۔‘
واضح رہے کہ انتخابی مہم کے دوران، ٹرمپ نے کہا تھا کہ غزہ ’موناكو سے بھی بہتر بن سکتا ہے‘ اگر ’صحیح طریقے سے تعمیر کیا جائے۔‘
ٹرمپ کے داماد جیرڈ کشنر نے پچھلے فروری میں تجویز دی تھی کہ اسرائیل غزہ سے شہریوں کو نکال لے تاکہ سمندر کے کنارے پر سیاحتی منصوبے شروع کیے جا سکیں۔ سابق اسرائیلی انتہاپسند وزیر ایتمار بن گویئر اپنے اس موقف کو چھپاتے بھی نہیں ہیں اور وہ غزہ سے فلسطینی عوام کو اجتماعی طور پر نکالنے کے خیال کی بھرپور حمایت کرتے ہیں۔ اسی لیے ٹرمپ کے بیان سے ان کے دل کی مراد بر آئی ہے۔
ایتمار نے ٹرمپ کے غزہ کو ’صاف‘ کرنے کے منصوبے کی تعریف کی اور کہا ’میں صدر ٹرمپ کو غزہ کے مکینوں کو اردن اور مصر منتقل کرنے کی ان کی پہل پر مبارکباد پیش کرتا ہوں۔‘ انھوں نے مزید کہا کہ نیتن یاہو سے یہ درخواست ہے کہ وہ رضا کارانہ ہجرت کی حوصلہ افزائی کریں۔‘
انھوں نے یہ بھی کہا کہ ’جب دنیا کی سب سے بڑی طاقت کا صدر فلسطینیوں کے لیے رضا کارانہ ہجرت کی بات کرتا ہے تو ہماری حکومت کے لیے حکمت کا یہی راستہ ہے کہ اس کی حوصلہ افزائی کرے اور اس پر عمل درآمد کرے۔‘
دوسری طرف، اسرائیلی وزیر خزانہ بتسلئيل سموٹریچ نے کہا ’غزہ کے مکینوں کو نئی زندگی شروع کرنے کے لیے دوسرے مقامات پر مدد فراہم کرنے کا خیال ایک شاندار خیال ہے‘۔ انھوں نے کہا کہ وہ نتن یاہو اور کابینہ کے ساتھ مل کر اس خیال کو عملی شکل دینے کے لیے کام کریں گے تاکہ غزہ کی آبادی کو ہمسائیہ ممالک میں منتقل کیا جا سکے۔
فلسطین کے سب سے بڑے مزاحمتی گروہ حماس نے ڈونلڈ ٹرمپ کے منصوبے پر ردعمل ظاہر کیا ہے۔
حماس کے مرکزی رہنما ابو زہری نے امریکی صدر ٹرمپ کو مشورے کے انداز میں کہا ہے ’ اہل غزہ نے تباہی کا سامنا اس لیے کیا کہ اپنی سرزمین نہ چھوڑیں، لہٰذا بائیڈن کے آموزدہ منصوبوں پر وقت ضائع کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔‘
حماس کے پولیٹیکل بیورو کے رکن باسم نعیم نے غیرملکی خبر رساں ادارے ’ اے ایف پی‘ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’ فلسطینیوں نے اس سے پہلے بھی کئی دہائیوں کے دوران نقل مکانی اور متبادل آبائی علاقوں میں آبادکاری کے ہر منصوبے کو ناکام بنایا ہے، ہمارے لوگ اب بھی اس منصوبے کو ناکام بنا دیں گے۔‘
غزہ میں فلسطینی عوام کی تعداد 2.4 ملین ہے، جنہیں 7 اکتوبر 2023 سے اسرائیلی قابض افواج کے ہاتھوں شروع ہونے والی نسل کشی کے دوران کئی بار نقل مکانی کرنا پڑی۔ امریکی حمایت کے ساتھ، اسرائیل نے 7 اکتوبر 2023 سے 19 جنوری 2025 کے درمیان غزہ میں نسل کشی کی، جس کے نتیجے میں 158,000 سے زائد فلسطینی شہید اور زخمی ہوئے، جن میں زیادہ تر بچے اور خواتین شامل ہیں اور 14,000 سے زائد افراد لاپتہ ہیں، یہ عالمی سطح پر ہونے والی بدترین انسانی بحرانوں میں سے ایک ہے۔
تبصرہ کریں