نیٹّا اہیتوف ممتاز اسرائیلی اخبار ’ دی ہارتز‘ سے وابستہ ہیں۔ وہ اس اخبار کے میگزین سیکشن کی سینیئر ایڈیٹر ہیں۔ انہوں نے حال ہی میں اخبار میں ایک تجزیہ لکھا۔ جس میں ممتاز فرانسیسی مورخ اور ماہر امور مشرق وسطیٰ جان پیئر فلیو (جنہوں نے کئی ماہ غزہ میں گزارے ہیں)کے حوالے سے غزہ میں تباہی کی تصویر دنیا کو دکھانے کی کوشش کی۔ وہ لکھتی ہیں:

غزہ میں تباہی کی تصویر
غزہ کی پٹی میں داخل ہونے کے بعد، جب جان پیئر فلیو، ممتاز فرانسیسی مورخ اور ماہر امور مشرق وسطیٰ، نے پہلی بار وہاں کے حالات کا جائزہ لیا تو انہیں ایک بہت بڑا دھچکا لگا۔ وہ وہ جگہیں، جو انہیں اپنی کئی سابقہ سفروں میں مانوس لگتی تھیں، اب بالکل بدل چکی تھیں۔ ان کے لیے یہ منظر بے حد حیران کن تھا۔ سڑکیں، گلیاں، عمارتیں، پورے شہر – سب کچھ ملبے کا ڈھیر بن چکا تھا۔
یہ بھی پڑھیے
غزہ پر کنٹرول، کیا اسرائیل ہمیشہ کے لیے جال میں پھنسنے جا رہا ہے؟ اسرائیلی اخبار کا تجزیہ
امریکا اور اسرائیل جنگی مقاصد حاصل کرنے میں ناکام رہے، تجزیہ کار
نیتن یاہو کے پاس جنگ بندی کے سوا کوئی چارہ نہ تھا: اسرائیلی تجزیہ کار
یہ تباہی اتنی وسیع اور غیر معمولی تھی کہ جان پیئر فلیو کے لیے سب کچھ اجنبی اور غیر واضح محسوس ہوا۔ وہ ان علاقوں کو پہچاننے سے بالکل قاصر تھے جہاں وہ پہلے کبھی آتے جاتے تھے۔ اس تباہی کا منظر انسان کے اندر کی گہرائیوں کو چھو جاتا ہے۔ ایک وقت تھا جب یہ علاقے آباد، متحرک اور زندگی سے بھرپور تھے، لیکن اب وہاں ملبہ ہی ملبہ تھا۔
ایک مکمل تباہی کا منظر
فلیو کا یہ بیان اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ غزہ میں جو کچھ ہوا، وہ صرف ایک جنگ یا فوجی حملے کا نتیجہ نہیں ہے، بلکہ یہ ایک مکمل انسانی المیہ ہے جس نے علاقے کی بنیادی جڑوں کو چھین لیا۔ وہ جغرافیائی، ثقافتی اور سماجی منظرنامے جو ایک بار غزہ کی پہچان تھے، اب وہاں کا کوئی نشان باقی نہیں رہا۔ یہاں تک کہ جان پیئر فلیو جیسے ماہر بھی اس منظر کو دیکھ کر مکمل طور پر چونک گئے تھے۔
اسرائیل کی صحافیوں پر پابندیاں
اس تباہی کے منظر کو دیکھنے کے بعد جان پیئر فلیو نے کہا کہ اب انہیں اس بات کا پورا احساس ہو رہا ہے کہ اسرائیل نے صحافیوں کو غزہ میں جانے سے کیوں روک رکھا ہے۔ اسرائیل کی جانب سے صحافیوں کی غزہ تک رسائی محدود کرنے کے پیچھے ایک بڑی حکمت عملی چھپی ہوئی ہے: وہ نہیں چاہتے کہ دنیا اس تباہی کو اپنی آنکھوں سے دیکھے۔ اگر دنیا غزہ میں ہونے والی انسانی تباہی کو دیکھے گی تو یہ عالمی رائے عامہ میں ایک بہت بڑا اثر ڈالے گی اور اسرائیل پر مزید دباؤ پڑے گا۔
ایک خطے کی شناخت کا خاتمہ
غزہ کی تباہی صرف اس کی عمارتوں اور انفراسٹرکچر کا خاتمہ نہیں بلکہ اس خطے کی ثقافتی اور سماجی شناخت کا بھی خاتمہ ہے۔ وہ علاقے جہاں کبھی لوگ مل کر رہتے تھے، تجارتی سرگرمیاں ہوتی تھیں، اب وہ سب ملبے میں تبدیل ہو چکے ہیں۔ یہ تباہی محض جغرافیائی سطح پر نہیں، بلکہ ایک پورے معاشرے کی زندگی کو متاثر کرتی ہے۔
بین الاقوامی برادری کا کردار
اسرائیل کی جانب سے میڈیا تک رسائی کو محدود کرنے کا مطلب یہ ہے کہ غزہ کی عوام کی کہانی زیادہ تر دنیا تک نہیں پہنچ پاتی۔ عالمی میڈیا کی نظر سے یہ تباہی غائب رہ جاتی ہے، اور صرف وہی خبریں سامنے آتی ہیں جو اسرائیل کے موقف سے ہم آہنگ ہوں۔ اس طرح عالمی سطح پر اس انسانی بحران کی سنگینی کو کم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
انسانی نقصان اور عالمی ردعمل
فلیو کی رپورٹ اور اس جیسے دوسرے صحافیوں کی کوششیں اس بات کی غمازی کرتی ہیں کہ غزہ میں جو کچھ ہو رہا ہے، وہ صرف ایک سیاسی یا فوجی مسئلہ نہیں ہے، بلکہ یہ ایک انسانی بحران ہے جس کا اثر لاکھوں افراد کی زندگیوں پر پڑ رہا ہے۔ غزہ کے شہریوں کی دردناک صورتحال اور ان کی زندگیوں کی تباہی عالمی برادری کے لیے ایک سنگین چیلنج ہے۔
تاہم، عالمی سطح پر اس بحران کی حقیقت کو سامنے لانا اور صحافت کی آزادی کو یقینی بنانا بہت ضروری ہے۔ اگر صحافی غزہ کے اندر رپورٹ نہیں کر سکتے، تو یہ ان لاکھوں افراد کے لیے انصاف کی راہ میں رکاوٹ بن جاتی ہے، جو عالمی توجہ اور مدد کے مستحق ہیں۔
یہ پورا منظر نہ صرف غزہ کی تباہی کی تصویر پیش کرتا ہے، بلکہ اس بات کو بھی واضح کرتا ہے کہ کیوں اسرائیل نے صحافیوں کو اس خطے میں داخل ہونے سے روک رکھا ہے۔ عالمی برادری کو اس انسانی بحران کی سنگینی کو سمجھنا اور اس کے حل کے لیے اقدامات اٹھانا انتہائی ضروری ہے، تاکہ غزہ کے عوام کے حقوق کا دفاع کیا جا سکے اور ان کی آواز دنیا تک پہنچ سکے۔
تبصرہ کریں