کینیا کی عسکریت "پسند” بیٹیاں کس حال میں جی رہی ہیں؟

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

عبیداللہ عابد۔۔۔۔۔۔۔۔
کینیا میں نوجوانوں کو درپیش بے روزگاری ایک ایسا بم ہے جو مسلسل ٹِک ٹِک کررہا ہے اور کسی بھی لمحے پھٹ سکتا ہے۔ یاد رہے کہ اس ملک کی تین تہائی آبادی کی عمر تیس برس سے کم ہے اور بے روزگاری کی شرح11فیصد۔

یونیسف کے مطابق یہاں کی46 فیصد آبادی خط غربت سے نیچے زندگی بسر کر رہی ہے یعنی وہ بمشکل ماہانہ آٹھ ہزار روپے پاکستانی کے برابرکماتی ہے۔ یہاں کے لوگوں کو علاج معالجہ کی ضرورت پوری ہو جائے، تعلیم حاصل کرنے کا موقع مل جائے، پینے کا صاف پانی میسر آ جائے اورسینی ٹیشن کی سہولت نصیب ہو تو وہ اسے عیاشی سمجھتے ہیں۔ صحت کی صورت حال یہ ہے کہ ہر ایک ہزار بچوں میں سے74بچے پانچ برس سے کم عمر ہی میں جاں بحق ہو جاتے ہیں۔ یہاں ہرسال 18.5فیصد لوگ اسہال جیسے امراض میں مبتلا ہوکر مرجاتے ہیں، 15.56 فیصد ایڈز، 8.62 فیصد سانس لینے کی نالی، خوراک کی نالی اور پھیپھڑوں کے انفیکشنز اور3.69 فیصد تپ دق کا شکار ہوکر مرتے ہیں۔

کینیا کے دیگر شہروں اور علاقوں کا عالم کیا ہوگا، اس کے بارے میں سوچنے سے پہلے دارالحکومت ’نیروبی‘ کا احوال جان لیجئے جہاں بعض علاقوں میں انسانی زندگی انسانوں کی زندگی کہلانے کے لائق نہیں، آج سے ہزاروں سال پہلے کا انسان بھی اس سے اچھی اور صاف زندگی بسر کرتا تھا۔ مثلاً اس کے بعض علاقے ٹوٹی پھوٹی چادروں سے بنے ہوئے چھوٹے چھوٹے گھروں پر مشتمل ہوتے ہیں، جہاں آبادی کے عین درمیان میں بل کھاتی ہوئی ریلوے لائن کوڑے کے ڈھیروں کے درمیان میں پھنسی ہوئی نظرآتی ہے جبکہ اس کے دونوں اطراف میںچھوٹی بڑی دکانوں کا طویل بازار۔ اس کیچڑ سے بھرے بازار کی ہر دکان پھٹے ہوئے کپڑوں، چادروں، پلاسٹک کی شیٹوں اور لوہے کی چادروں سے بنی ہوتی ہیں۔ اس سب ٹوٹے پھوٹے کے درمیان میں کینیا کے عام لوگ زندگی بسر کرتے ہیں۔

جب کسی معاشرے میں غربت اور بے روزگاری کا کینیا جیسا عالم ہو تو وہاں نوجوان مثبت کی بجائے منفیت کی طرف جلد مائل ہوتے ہیں۔ صومالیہ کی عسکریت پسند تنظیم ’الشباب‘ نے اس صورت حال سے فائدہ اٹھایا،گزشتہ ایک عشرہ کے دوران میں ہزاروں غریب اور بے گھر نوجوانوں کو اپنے ہاں بھرتی کر لیا۔ یہ خواتین ہی تھیں جو چکّی کے دو پاٹوں کے درمیان پستی رہیں، انھیں بھی بے روزگاری نے سب سے زیادہ متاثرکیا۔ ’الشباب‘ کے لئے خواتین کی بھرتی زیادہ سودمند ثابت ہوئی کیونکہ سیکورٹی فورسز اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کی توجہ خواتین کی طرف کم ہی جاتی ہے۔ ایک ریڈیو پروگرام کے ڈی جے ’رابرٹ روبو اوشولا‘ کے مطابق خواتین کو انٹیلی جنس کے لئے، معلومات اکٹھی کرنے کے لئے بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ رابرٹ عسکریت کی راہ ترک کرکے واپس آنے والوں کو اچھی زندگی کی شاہراہ پر گامزن کرنے کے لئے شبانہ روز جدوجہد کر رہا ہے۔ اس کا بھی یہی خیال ہے کہ سب سے زیادہ غریب اور بے گھر نوجوان ہی ’الشباب‘ میں بھرتی ہو رہے ہیں۔

’الشباب‘ صومالیہ میں قائم ہونے والا ایک عسکری گروہ ہے۔کینیا کی دفاعی فوج نے سن 2011ء میں صومالیہ میں آپریشنز کرنا شروع کئے تاکہ ’الشباب‘ کے سرحد پار حملے روکے جائیں۔ ’الشباب‘ 2006ء میں قائم ہوئی۔2014ء میں الشباب کے جنگجوؤں کی تعداد چارہزار سے چھ ہزار تھی لیکن 2017ء میں ان کی تعداد سات سے نوہزار تک بتائی گئی۔ اس کے زیادہ تر لوگ سلفی العقیدہ ہوتے ہیں۔ اسی اعتبار سے بعض مبصرین اس کے ڈانڈے سعودی عرب سے ملاتے ہیں۔ بعض مبصرین کے مطابق اریٹیریا خطے میں طاقت کا توازن اپنے حق میں کرنے کے لئے الشباب کو اسلحہ اور عسکری تربیت کی سہولیات فراہم کرتا ہے۔ ا قوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق اریٹیریا کی حکومت ایک طویل عرصہ تک ’الشباب‘ کے لوگوں کو 80 ہزار ڈالرز ماہانہ کے برابر رقم فراہم کرتی رہی۔ یہ رقم کینیا کے دارالحکومت نیروبی میں قائم اریٹیرین سفارت خانے کے ذریعے تقسیم ہوتی رہی۔ کینیا کے سرکاری حکام الزام عائد کرتے ہیں کہ الشباب کو مالی وسائل فراہم کرنے والوں میں یمن، شام، ایران اور قطر کی حکومتیں بھی شامل ہیں۔ اگریہ سب الزامات سچ تسلیم کر لئے جائیں تو اس حقیقت کو جھٹلانا ممکن نہیں کہ انھوں نے اس علاقے کی غربت سے فائدہ اٹھایا۔

ایک عرصہ تک ’الشباب‘ کے ساتھ سرگرم رہنے والی خاتون ’فاطمہ‘ کہتی ہیں: ’’اگر میں بے روزگار نہ ہوتی، پُرسکون زندگی بسرکر رہی ہوتی، میری میز پر کھانے کا سامان موجود ہوتا، میری بنیادی ضروریات پوری ہوتیں تو میں کیوں الشباب میں بھرتی ہونے کا سوچتی!‘‘ فاطمہ کا شمار کینیا کی اُن پہلی خواتین میں ہوتا ہے جو ’الشباب‘ میں بھرتی ہوئیں۔ وہ بتاتی ہیں: ’’میں سترہ برس کی تھی جب میں اس فرد سے ملی جو بعدازاں میرا شوہر بنا۔ میں جانتی تھی کہ وہ مجھ سے شادی کرنا چاہتا ہے۔ اس نے وعدہ کیا کہ وہ مجھے ایک بارپھر سکول میں پڑھنے کا موقع دے گا۔ میں نہیں جانتی تھی کہ وہ کیا کرتا ہے۔ بعدازاں جب مجھے معلوم ہوا کہ وہ ’الشباب‘ کا جنگجو ہے تو میں سمجھی کہ میری زندگی تباہ ہوگئی۔ اگرچہ اس کا جھوٹ مجھ پر کھل چکا تھا لیکن اب میں واپس نہیں جا سکتی تھی۔ میرے پاس کہیں اورجانے کا کوئی موقع نہیں تھا چنانچہ میں نے اس کے ساتھ ہی رہنے کا فیصلہ کرلیا۔ میں نے اس کے ساتھ تین برس گزارے،کم ازکم یہاں مجھے کھانا مل جاتا تھا، وہ اپنی یہ ذمہ داری پوری کرتا تھا‘‘۔

’میں وہاں تین برس رہی۔کم ازکم مجھے وہاں کھانے کو کچھ مل جاتا تھا، وہ کھانا فراہم کرتے تھے۔ پھر مجھے لیڈر بننے کا موقع دیاگیا۔ وہ مجھے اہل سمجھتے تھے۔ خواتین بالخصوص صومالی خواتین کو سزا دینے کا معاملہ ہوتا تو انھیں میرے حوالے کیا جاتا۔ ان میں سے بعض خواتین کھانا پکانے یا پھر مردوں کے ساتھ رہنے سے انکار کر دیتی تھیں۔ ہم اُن کی بعض مردوں کے ساتھ شادی کردیتے تھے، اگر وہ ان کے ساتھ تعلق قائم کرنے سے انکار کرتیں تو قتل کر دی جاتی تھیں‘۔

فاطمہ نے بتایا کہ میں بھی مخصوص علاقے میں جاتی، حالات کا جائزہ لیتی اور معلومات اکٹھی کرتی تھی، مثلاً وہاں پولیس افسران کی کتنی تعداد موجود ہے یا وہاں سیکورٹی کتنی سخت ہے۔ میں کینیا واپسی پر کیوں مجبور ہوئی؟ یہ ایک حملہ تھا جس کی منصوبہ بندی ہوئی تھی، اس میں خودکش بمباروں کو استعمال کیا جانا تھا۔ میں وہاں اپنے شوہر کے مرتے ہوئے دیکھنا نہیں چاہتی تھی۔ جہاں حملہ کیا جانا تھا، جب میں نے وہ جگہ دیکھی تو وہاں بچوں کی بڑی تعداد موجود تھی اور ان کی مائیں بھی تھیں۔ میرے لئے ناممکن تھا کہ میں ایسی جگہ پر حملہ کرنے میں شریک ہوتی چنانچہ میں نے فرار ہونے کا ارادہ کرلیا۔

فاطمہ کہتی ہے: ’ایک روز میرا شوہر صومالیہ ہی میں لڑائی کے دوران لاپتہ ہوگیا، ممکن ہے کہ وہ کینیائی فوج کے ہاتھوں مارا گیا ہو، بہرحال وہ کبھی واپس نہ آیا۔ پھر وہاں مردوں نے میری بے حرمتی شروع کردی۔ میں کبھی ایک کے ہاں ہوتی، کبھی دوسرے کے ہاں۔ پھر میں تھک گئی اور مجھیاپنی ماں، اپنے گھر اور اپنے بہن بھائی یاد آنے لگے۔ چنانچہ میں نے لڑائی کے دن کا انتظارشروع کردیا۔ ہم نے ایک فوجی کیمپ پر حملہ کیا، لڑائی شروع ہوچکی تھی۔ میں نے اپنی گن تھامی، میں نے کچھ گولیاں اور چھوٹے بم اپنے ساتھ لئے۔ میں نے جنگل کی طرف بڑھنا شروع کردیا۔ ایک نوجوان نے میرے پیچھے چلنا شروع کردیا۔ پھر اس نے مجھے پکار کر پوچھا کہ تم فرارہو رہی ہو؟ میں نے اسے گولیوں سے چھلنی کیا اور وہاں چھوڑ کر آگے نکل کھڑی ہوئی اورکینیا واپس پہنچ کر دم لیا۔ یاد رہے کہ فاطمہ کا شمار کینیا کی ان پہلی خواتین میں ہوتا ہے جنھوں نے ’الشباب‘ سے وابستگی اختیار کی، یہ 2006ء کی بات ہے جب یہ عسکری گروہ قائم ہوا تھا۔

فاطمہ کینیا واپس آکر متعدد این جی اوز کے ساتھ کمیونٹی موبلائزر کے طور پر کام کرنے لگی، وہ دو بچوں کی پرورش کر رہی ہے جن کے والدین انھیں چھوڑ کر’الشباب‘ سے وابستہ ہوچکے ہیں۔ والدین کی غیرموجودگی میں بچوں نے سکول جانا چھوڑدیا، اب انھیں صرف ایک وقت کھانے کو کچھ ملتا تھا، فرش پر سوتے تھے اور بڑوں کی طرح کام پر جاتے تھے تاکہ وہ اپنے کھانے پینے کا خود انتظام کرسکیں۔ پھر جب فاطمہ ان کے ساتھ رہنے لگی تو ان کی زندگی میں تبدیلی آئی۔ انھوں نے فاطمہ کو ماں کی حیثیت دی، انھوں نے سکول بھی جانا شروع کردیا، میں بعض اوقات سوچتی ہوں کہ اگر میں یہاں نہ ہوتی، ان کی پرورش کا ذمہ نہ اٹھاتی، کون ان بچوں کو سنبھالتا۔ مجھے محسوس ہوتا ہے کہ خدا نے مجھے جینے کا دوسرا موقع فراہم کیا ہے، چنانچہ مجھے اب وقت ضائع نہیں کرنا چاہئے اور یہ کام جاری رکھنا چاہئے۔ فاطمہ جب واپس آئی تو اسے مختلف خواتین نے مشورہ دیا کہ نیشنل کاؤنٹر ٹیررازم سنٹر میں جاؤ، انھیں اپنی کہانی سناؤ اور رجسٹریشن کراؤ۔ انھوں نے کہا کہ وہاں کونسلنگ سیشنز کراؤ۔ دوسری طرف فاطمہ اپنا میڈیکل چیک اپ کے لئے ایک ہسپتال میں پہنچی تو اسے پتہ چلا کہ اُسے ایچ آئی وی کا انفیکشن ہوچکا ہے۔

اب ایک دوسری خاتون ’ہدایہ سعید‘ کی کہانی بھی پڑھ لیجئے، اس کے چہرے پر نظر پڑتی ہے تو یوں لگتا ہے کہ وہ زندگی میں کبھی مسکرائی ہی نہیں۔ وہ بتاتی ہے:

’’یہ ہفتہ کا دن تھا جب میں نے آخری بار اپنے بچے کو دیکھا، وہ شام کو گھر واپس نہ پہنچا، پھر اتوار گزرگیا اور پیر بھی، میں اسے ڈھونڈتی پھر رہی تھی، اس کی عمر چودہ برس تھی، میں اسے تلاش نہ کرسکی۔ دو برس بعد اس کی فون کالز آنا شروع ہوگئیں، وہ صومالیہ میں تھا۔ یوں ہم باہم رابطے میں رہے۔ میں نے اُس سے کہا کہ اگر تمھیں وہاں کوئی مسئلہ ہے تو واپس آجاؤ۔ ہم تمھیں واپس لانے کے لئے پیسے کا انتظام کرلیں گے۔ اس نے مجھے کہا کہ اگر وہ گھر واپس آیا تو وہ مرجائے گا‘‘۔

دراصل واپس آنے والے ’الشباب‘ کے انتقام کا نشانہ بن جاتے ہیں۔ اگر وہ ’الشباب‘ سے بچ جائیں توکینیا کے ’اینٹی ٹیرر پولیس یونٹ‘ کے ہاتھوں مارے جاتے ہیں۔ پھرہدایہ کو 26 دسمبر 2014ء کو ایک نامعلوم فون کال موصول ہوئی، جس میں مجھے بتایاگیا کہ تمھارا بیٹا مارا گیا ہے، وہ موغادیشو میں ہیلن بیس کیمپ (صومالیہ) حملے میں ایک روز پہلے مارا گیا ہے۔ وہ خودکش بمبار کے طور پر اس حملے میں شریک تھا۔

ہدایہ کہتی ہے: ’’جب میں نے اپنے بیٹے کی ہلاکت کی خبر سنی تو دوماہ تک کچھ کھا پی نہ سکی۔ پھر میرا ایک ادارے کے ساتھ رابطہ ہوا، انھوں نے مجھے اپنے دل کا بوجھ ہلکا کرنے کا طریقہ سکھایا، کوئی بھی چیزآپ کو غمگین کر رہی ہو، اسے ایک کاغذ پر لکھو اور پھر اسے جلادو۔ اس تدبیر نے میری مدد کی اور مجھے قوت بخشی۔ علاقے میں میرا بیٹا پہلا لڑکا تھا جو لاپتہ ہوا، اب ہرکوئی مجھے بُرا سمجھتا تھا، مجھے کوئی عام انسان سمجھنے کو تیار نہیں تھا پھر جو کچھ میرے گھر میں ہوا، ایسا ہی ایک دوسرے گھر میں ہوا، پھر تیسرے گھر میں ہوا، پھر بہت سے گھروں کے پیارے مارے گئے‘‘۔ ان کے گھر والوں کو ہدایہ جیسی ہی صورت حال کا سامنا کرنا پڑا۔ اب کینیا میں ایسے بہت سے گھرانے ہیں جن کے بچے لاپتہ ہیں۔ جب مجھے احساس ہوا کہ یہ المیہ ہرگھرانے کو متاثر کر رہی ہے تو میں نے ایسی ماؤں کو جمع کیا، پھر ہم نے میٹنگز شروع کر دیں، ایک دوسرے کا دکھ سنا اور ایشوز پر گفتگو شروع کردی‘‘۔

اب ہدایہ ’انیشی ایٹو فار پریونشن اینڈ کاؤنٹرنگ وائلنٹ ایکسٹریم ازم ‘ کے ساتھ مل کر کام کر رہی ہے، یہ خالصتاً مقامی تنظیمیں ہیں، جو معاشرے میں شعور پیدا کر رہی ہیں کہ’’ایمان داری، محبت اور سچ کے حق میں، ناانصافی، جھوٹ اور لالچ کے خلاف آواز بلند کرنے سے خوفزدہ نہ ہوں‘‘ اور یہ کہ ’’انصاف یکطرفہ نہیں، دوطرفہ ہونا چاہئے۔‘‘ ہدایہ کہتی ہیں کہ ہم نے اس گروپ کے ساتھ تعاون شروع کیا۔ حکومت بہت زیادہ بدعنوان ہے، اگر وہ نوجوانوں کو روزگار فراہم کرے ، کوئی بھی اپنے گھروں کو چھوڑ کر نہ جائے۔ غربت، حکومت اس کی ذمہ دار ہے۔ جب تک وہ ہمارے ساتھ مل کر کام نہیں کرے گی، وہ اس مسئلہ پر قابو پانے میں کامیاب نہیں ہوسکے گی۔ حکومت جو رقوم این جی اوز کو انتہا پسندی اور تشدد سے نمٹنے کے لئے دیتی ہے، وہ رقوم ہم خواتین کو فراہم کرے جو گراس روٹ لیول پر کام کررہی ہیں۔ سبب یہ ہے کہ ہم ہی اس مسئلے سے مکمل طور پر باخبر ہیں، ہمیں معلوم ہے کہ اس کی جڑیں کہاں کہاں موجود ہیں، ہمیں یہ بھی معلوم ہے کہ اسے ختم کیسے کرنا ہے۔ یہ مسئلہ بڑے ہوٹلوں میں بڑی بڑی رقوم خرچ کرنے سے حل نہیں ہوگا بلکہ نچلی سطح پر خرچ کرنے سے ہوگا جہاں یہ مسئلہ بھڑکتی آگ کی صورت میں موجود ہے۔

ہدایہ کہتی ہے کہ جب کوئی عسکریت کی راہ چھوڑ کر واپس آئے تو اسے زندگی گزارنے کا دوسرا موقع ملنا چاہئے۔ جب سے پولیس نے واپس آنے والوں کو قتل، اغوا کرنا اور انھیں صفحہ ہستی سے مٹانا شروع کیا ہے، یہ مسئلہ مزید گھمبیر ہوچکا ہے۔ حالانکہ واپس آنے والوں سے کہنا چاہئے کہ خبردار! جو دوبارہ یہ راستہ اختیار کیا ، انھیں تبدیل ہونے کے لئے وقت دینا چاہئے۔ ایک ماںکا کہنا تھا کہ بچے تبدیل ہو جاتے ہیں۔ میرے بچے کو گرفتارکیاگیا، پھر رہاکردیا گیا صرف اس لئے کہ اسے گولی مار کر ہلاک کر دیا جائے۔ اسے تبدیل ہونے کا موقع نہیں دیاگیا۔ ممکن ہے کہ آپ کو موقع دیاجائے لیکن تحفظ کی کوئی ضمانت نہیں ملتی ۔ مثلاً ٹیکسی ڈرائیورعلی بھی صومالیہ میں رہا لیکن جب وہ سب کچھ چھوڑچھاڑ کر واپس آیا تو وہ گھر سے باہر نہیں بیٹھ سکتا تھا کہ نجانے کب اسے کمر یا کنپٹی پر گولی مار دی جائے۔

تیسری کہانی آمنہ کی ہے، وہ بھی ’الشباب‘ کے ساتھ وابستہ رہی۔ وہ بتاتی ہے: ’’میرے والدین کا انتقال ہوا تو میری شادی ہوگئی، پہلے میرے دوجڑواں بچے ہوئے، اس کے بعد ایک اور بچہ ہوا تو زندگی مشکل ہوگئی۔ میرا شوہر بے روزگار تھا، اس کے پاس کوئی کام نہیں تھا۔ مجھے خبر ہی نہ ہوئی کہ وہ کب ’الشباب‘ سے منسلک ہوا۔ بعدازاں اس نے مجھے بھی بلالیا۔ میں وہاں کیوں گئی؟ سبب صرف ایک تھا کہ میں اپنے شوہر سے محبت کرتی تھی۔ اس نے مجھے تنظیم کے مقاصد کے بارے میں آگاہ کیا، اس کے الفاظ میرے اندر اترتے چلے گئے، اب میں بھی اپنے مذہب کے لئے کچھ کرنا چاہتی تھی تاہم اس کے باوجود یہاں کے حالات مجھے اچھے نہیں لگ رہے تھے۔ بچوں کو اپنی ماں کے ساتھ ہونا چاہئے تھا، وہ میرے پاس نہیں تھے۔ میں 2016ء کا سارا سال صومالیہ میں رہی۔ میں جب بھی بچوں سے بات کرتی تھی تو وہ رونا شروع کردیتے تھے۔ یہ چیزمجھے بہت افسوسناک لگتی تھی۔ چنانچہ اب میں نے اپنی ساس کے ذریعے ہی بچوں سے بات کرنا شروع کر دی۔

آمنہ نے بتایا کہ وہ فرار ہونے میں کیسے کامیاب ہوئی؟ ’’کیمپ کے کمانڈر نے مجھے کہا کہ اگرتم واپس گھر جانا چاہتی ہو تو اس کے لئے میرے پاس رہنا ہوگا۔ وہ مجھ سے ’’معاشقہ‘‘ چاہتا تھا۔ اب میرے پاس کوئی دوسرا آپشن نہیں تھا۔ میں اس کے پاس دو دن تک رہی، پھر اُس نے مجھے رہاکر دیا۔ حالانکہ زنا الشباب کے قوانین کے مطابق سخت سزا والا جرم ہے۔ میں اپنے شوہر کو پہلے ہی بتا چکی تھی کہ میں ایسا کرنے والی ہوں، اسے صورت حال کو سمجھنا چاہئے اور بھڑکنا نہیں چاہئے کیونکہ میں یہ کام اپنے بچوں کی خاطر کروں گی۔کم ازکم اس طرح انھیں (بچوں کو) والدین میں سے کوئی ایک تو مل جائے گا۔ جب میں واپس آئی تو سب سے پہلے اپنے بچوں کے پاس پہنچی‘‘۔

ایک کہانی محمد کی بھی ہے، وہ بھی الشباب میں سرگرم رہا لیکن اب عسکریت کی راہ چھوڑ کر واپس آ چکا ہے۔ وہ بتاتا ہے: ’’میں اُن اولین لوگوں میں سے ہوں جو اِس عسکری گروہ سے الگ ہوئے چنانچہ تنظیم مجھ پر زیادہ ذمہ داری عائد کرتی تھی، میں تخریبی ذہن کا نہیں تھا لیکن مسئلہ بے روزگاری ہے۔ یہ مسئلہ اب بھی ہے۔ اب روزگار تلاش کرنا بہت کٹھن کام ہے۔ جب لوگوں کو معلوم ہوتا ہے کہ آپ ’الشباب‘ میں رہے ہیں تو پھر وہ یہ بھی سوچتے ہیں کہ آپ کے ساتھ پولیس بھی ان کے دفترمیں آئے گی۔ اگر پولیس نہ آئی تو ’الشباب‘ والے ضرور آئیں گے‘‘۔ محمد کہتا ہے: ’’ضروری ہے کہ پولیس نوجوانوں کو ہراساں کرنے سے بازآ جائے۔ ایک طرف روزگار کے مواقع نہیں ہیں تو دوسری طرف مذکورہ بالا مسائل ہیں پھر لوگوں کے پاس عسکریت پسند گروہوں میں شامل ہونے کے علاوہ کوئی آپشن نہیں ہوتا۔ اگر میں صومالیہ جاؤں تو مجھے رہنے کے لئے کرایہ نہیں دینا پڑے گا، مجھے مفت میں کھانا ملے گا اور تربیت بھی ملے گی۔ ایسے میں لوگ سوچتے ہیں کہ صومالیہ ہی جانا چاہئے، پھر جب آپ وہاں مارے جاتے ہیں تو وہ آپ کو جنگل میں کہیں دفن کر دیتے ہیں، اسی لباس کے ساتھ جوآپ نے پہنا ہوتا ہے۔ وہ قبرکھودتے ہیں، آپ کو اس میں رکھتے ہیں ، یوں آپ کی کہانی ختم ہوجاتی ہے‘‘۔

گزشتہ چند برسوں سے حملوں میں دہشت گرد خواتین براہ راست ملوث ہونے لگیں۔ ’الشباب‘ ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت عورتوں کی بھرتی کرتی ہے کیونکہ خواتین پر کم ہی شک کیا جاتا ہے، برقعہ کی وجہ سے ان کی شناخت ظاہر نہیں ہوتی، یوں وہ بہ آسانی مرد حملہ آوروں تک اسلحہ پہنچا سکتی ہیں۔ جو خواتین پہلے گھروں میں کھانا پکاتی تھیں، بچوں کی پرورش کرتی تھیں، اب انھیں انٹیلی جنس، معلومات جمع کرنے اور جاسوسی کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔

’الشباب‘ مردوں، عورتوں کے علاوہ بچوں کو بھی جنگ کا ایندھن بنانے کے لئے بھرتی کر رہی ہے۔ ستمبر2017ء سے ’الشباب‘ نے مختلف علاقوں میں اعلان کیا کہ لوگ انھیں سینکڑوں کی تعداد میں بچے فراہم کریں جو تنظیم کے لئے لڑائی کا حصہ بنیں بصورت دیگر برے نتائج کا سامنا کرنا پڑے گا۔ یاد رہے کہ ان میں سے بعض بچوں کی عمر آٹھ سال بھی ہوتی ہے۔ ’ہیومن رائٹس واچ‘ کے مطابق ’’حالیہ مہینوں کے دوران میں سینکڑوں بچے ’الشباب‘ کی جبری بھرتی کا شکار ہوئے۔ تاہم ایسے بچے جو اپنے گھروں میں غربت اور افلاس مسلسل دیکھتے ہیں، گھر سے بے گھر ہوکر شب وروز گزارتے ہیں، وہ بھی ’الشباب‘ کے بھرتی کرنے والوں کے پاس پہنچ جاتے ہیں۔

صومالیہ سے واپس آنے والوں کو ایک طرف ’الشباب‘ کی طرف سے ’سزا‘ کا دھڑکا لگا رہتا ہے، دوسری طرف اینٹی ٹیرر پولیس یونٹ (اے ٹی پی یو) والے بھی انھیں ہراساں کرتے ہیں، وہ بعض لوگوں کو ماورائے عدالت قتل بھی کردیتے ہیں تاہم حکومت اس کی تردید کرتی ہے۔

حالیہ برسوں کے دوران میں کینیا میں ’الشباب‘ کا نظریہ پھیلانے میں خواتین کی بڑی تعداد نے سرگرم کردار اداکیا ہے جبکہ یہ خواتین ہی ہیں جنھوں نے پرتشدد انتہا پسندی کا مقابلہ کرنے، لوگوں کو اس سے بچانے کی مہمات میں اہم کردار اداکیا ہے۔ ان خواتین میں ہدایہ بھی شامل ہے، اس کا خیال ہے: ’’جب کوئی فرد عسکریت پسندی چھوڑ کر واپس آتا ہے تو اسے ایک موقع ملنا چاہئے اور مثبت زندگی گزارنے میں اس کی مدد کرنی چاہئے، کیونکہ جب سے پولیس نے انھیں قتل کرنے، انھیں اغوا کرنے اور ان کا صفایا کرنے کا سلسلہ شروع کیا ہے تو حالات زیادہ سنگین ہوچکے ہیں‘‘۔ وہ کہتی ہے کہ ہمیں اپنے اردگرد موجود مسلمانوں سے بات کرنی چاہئے، اپنے بچوں سے گفتگو کرنی چاہئے۔ اگر ہمارے بچے گھر چھوڑ بھی جائیں، تب بھی ہمیں اپنی ذمہ داری پوری کرنی چاہئے۔ ہم تبدیلی کی سفیر ہیں۔ ہمیں بچوں کو گھر چھوڑنے سے روکنا ہے اور انھیں تحفظ بھی فراہم کرنا ہے۔ ہدایہ کا کہنا ہے کہ کینیائی حکومت نے انتہا پسندی کو سنجیدگی سے لیا ہے، تاہم گراس روٹ لیول پر سابق جنگجوؤں کو اچھے شہری بنانے کے لئے اور مستقبل میں معاشرے کے لوگوں کو اس سے بچانے کے لئے مزید بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔

ہدایہ کہتی ہیں کہ حکومت این جی اوز کو انتہاپسندی اور تشدد سے نمٹنے کے لئے پیسہ فراہم کر رہی ہے حالانکہ اسے یہ پیسہ ہم جیسی خواتین کو دینا چاہئے جو گراس روٹ لیول پر کام کر رہی ہیںکیونکہ ہم اس ایشو کو زیادہ بہتر سمجھتی ہیں اور یہ بھی جانتی ہیں کہ اس کی جڑیں کہاں ہیں اور ہم یہ بھی بخوبی جانتی ہیں کہ ہمیں اسے کیسے ختم کرنا ہے۔ حکومت کو بڑے ہوٹلوں میں پروگرامات پرخرچ کرنے کی ضرورت نہیں ، وہ اس سے کم رقم ان جگہوں پر فراہم کرے جہاں یہ ایشو گرم ہے۔

کینیا میں عسکریت کی راہ سے واپس آنے والوں کو معاشرے کا مفیدکردار بنانے کی مہم تیزی سے پھیل رہی ہے۔ مثلاً ایک ریڈیو پروگرام کا آر جے’رابرٹ‘ ’روبو‘ اوچول‘ ایسے جنگجوؤں کی مالی مدد کرتا ہے جب عسکریت کی راہ ترک کرکے واپس کینیا آنا چاہتے ہیں، پھر انھیں پاؤں پر کھڑا اور ایک اچھی زندگی گزارنے میں مدد کرتا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ عسکریت کی راہ ترک کرنے والوں کو زیادہ بڑی مصیبت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ وہ متاثرہ ماؤں کے ساتھ مل کر ایسی سرگرمیاں ترتیب دے رہا ہے جو نوجوانوں کو مثبت راہوں کے مسافر بناتی ہیں۔ بعض نوجوان ایسے گیت لکھ رہے ہیں اور ایسی موسیقی ترتیب دے رہے ہیں جو ایک طرف حکومت کی توجہ اس کی ذمہ داریوں کی طرف مبذول کراتی ہے تو دوسری طرف تمام تر ناانصافیوں اور ظلم کا مقابلہ کرنے کا درس بھی دیتی ہے۔

ان گیتوں میں دہائی دی جاتی ہے کہ ’ہم ہرطرف گولیوں کی آوازیں سن رہے ہیں لیکن کسی کو فکر نہیں ہے۔جونوجوان خودکش بمبار ہے، وہ کم علم ہے، اس کی حالت ایسے ہے جیسے کوئی کوما میں ہو‘۔

مائیں گیت گاتی ہیں: ’ہمیں تنہا چھوڑ دو، مت قتل کرو، ہمارے بچوں کو مت قتل کرو، ہم ان کی تربیت کرنا چاہتے ہیں، ہم ان سے پیار کرنا چاہتے ہیں، ہم ان کی زندگی میں بہتری لانا چاہتے ہیں، آپ انھیں کیوں قتل کرنا چاہتے ہو؟

کینیا میں نوجوانوں کی بڑی تعداد اپنے انہی گیتوں، نظموں، روایتی رقص اور اپنی دیگر روایات کے ذریعے یہ پیغام عام کر رہی ہے، مائیں اس کام کو پسند کر رہی ہیں، اساتذہ بھی تعریف کر رہے ہیں، معاشرے کے ہر طبقے کی طرف سے ان نوجوانوں کو خوب پذیرائی مل رہی ہے تاہم ان نوجوانوں کو بہت زیادہ خطرات کا بھی سامنا ہے۔ مثلاً ایک نوجوان بلال نے گارسیہ حملے کے بعد147 کے عنوان سے ایک گیت لکھا اور گایا۔ یہ اُن 147 لوگوں کی یاد میں تھا جو اس خودکش حملے میں ہلاک ہوئے تھے۔ تاہم اب بلال یہ گیت لکھ اور گا کراپنی جان بچاتے پھرتا ہے، چھپتا پھرتا ہے، سوشل میڈیا پر پیغامات کے ذریعے، فون کالز کے ذریعے اسے جان سے ماردینے کی دھمکیاں ملیں، کہاگیا کہ تمہیں تو سزا ضرور ملے گی۔ یہ گیت گانے کے بعد اس نے مزید گلوکاری کا خیال ہی ترک کردیا۔ وہ اپنے گیت میں کہتا ہے:

ایک ہی راستہ، بس! ایک ہی راستہ

جب میں کسی چیز سے محروم ہوتا ہوں تو میں اس سے کہیں زیادہ حاصل کرلیتا ہوں

میرے کندھے پر موجود فرشتے مجھے آگے بڑھنے کا کہتے ہیں

ابا کہتے ہیں کہ کام کرو، برائی سے دور رہو۔

ابا کو معلوم ہے کہ میں خواب دیکھنے والا ہوں اور گلوکاری میری تمنا ہے۔

بعض لوگ کہتے ہیں کہ تم آگ سے کھیل رہے ہو لیکن میں پیچھے نہیں ہٹوں گا۔

میں اس میٹھی موسیقی کی آواز کو مزید اونچا کروں گا

میں اپنے لوگوں کے ساتھ کھڑا ہونے پر مشکل کا شکار ہوا

٭… فاطمہ اب دو کام کرتی ہے، ایک: ہئیرڈریسر کے طور پر کام کررہی ہے، دوسرا: موٹرسائیکل پر سواریوں کو ان کی منزل مقصود پر پہنچاتی ہے۔

ہدایہ امید کی روشنی معاشرے میں بانٹ رہی ہے، لوگوں کو عسکریت پسندی کی طرف جانے سے روک رہی ہے۔

آمنہ اپنے تین بچوں کے ساتھ زندگی بسر کر رہی ہے، نیشنل کاؤنٹر ٹیررازم سنٹر والے مسلسل اس کی نگرانی کر رہے ہیں، جب تک اس کی زندگی مکمل طور پر بحال نہیں ہوتی، وہ ان کی نگرانی میں رہے گی۔

اورمحمد بھی معاشرے میں لوگوں کا اعتماد حاصل کرنے کی کوشش کررہا ہے، وہ ایک ٹیکسی ڈرائیور کے طور پر کام کررہا ہے۔

لوگوں کو عسکریت سے محفوظ رکھنے کے لئے پورے ملک میں کوششیں ہو رہی ہیں، نوجوانوں کو فنون لطیفہ میں مشغول کرکے بہترین نتائج حاصل کئے جا رہے ہیں۔

عسکریت کو خیرباد کہہ کر واپس پلٹنے والی کینیا کی بیٹیوں کی کہانیاں دنیا کے دیگر معاشروں کو بہت سے اسباق فراہم کرتی ہیں، مثلاً نوجوانوں کو عسکریت کی طرف مجبور کرنے والے ان کے حکمران ہیں جو پوری قوم کے وسائل چوستے ہیں لیکن اپنی قوم کو بھوکا، ننگا اور گھر سے بے گھر ہونے پر مجبور کردیتے ہیں۔ جب اس قوم کے بیٹے کسی عسکریت پسند گروہ کے ہتھے چڑھتے ہیں، بعدازاں انھیں غلطی کا احساس ہوتا ہے، وہ واپس پلٹتے ہیں تو انھیں گولیوں سے بھون دیاجاتا ہے۔ شاید! ان حکمرانوں کو ڈر محسوس ہوتا ہے کہ اب یہ سابقہ عسکریت پسند یقیناً عسکریت پسند نہیں رہیں گے تاہم وہ قوم کے وسائل ہڑپ کرنے، نوجوانوں کو عسکریت کی طرف مجبور کرنے والے حکمرانوں کے خلاف سیاسی جدوجہد کرتے ہوئے برہنہ شمشیر ثابت ہوں گے۔


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں