جن

جنّوں سے آمنا سامنا: 2 حیرت انگیز واقعات

·

لاہور کی صبح اس وقت ذرا سست مخلوق معلوم ہوتی ہے۔ فجر کی اذان ختم ہوتے ہی شہر اب بھی اونگھ رہا ہوتا ہے اور میں حسبِ عادت واک کے لیے نکل پڑتا ہوں۔

گلشنِ اقبال پارک کے دروازے اس پہر بند ہوتے ہیں، سو میں مجبوراً پارک کے گرد چکر لگاتا ہوں۔ یہ چکر نسبتاً لمبا ہے اور ساتھ ہی اپنے ساتھ ایک ایسی خاموشی اور وحشت بھی رکھتا ہے جیسے پرانی حویلیوں کے کمروں میں پھیلی دھول۔

اب ذرا دیکھیے: پارک کے آخری کنارے پر پہنچیں تو ایک طرف بدبو دار نالہ ہے جو اپنی مخصوص خوشبو کے ساتھ بہتا ہے اور دوسری طرف شاہراہِ عام۔ نالے کے اُس پار پارک کا دس فٹ اونچا جنگلا ہے جس پر درختوں کے سائے اور کھمبوں کی مدھم روشنی کچھ ایسے الجھتی ہے جیسے روشنی خود بھی ڈر گئی ہو۔

ایسے میں میری نگاہ ایک عجیب و غریب مخلوق پر جا ٹھہرتی ہے۔ جناب، قد کم از کم سات آٹھ فٹ، جسم مردانہ مگر بالکل ننگا، سر پر پگڑی نما بالوں کا گھنا گچھا اور کمر کے بیچ سے نکلتی ہوئی ایک موٹی سی چوٹی جو گھٹنوں تک جا پہنچتی تھی۔ وہ جنگلے سے ایسے چپکا کھڑا تھا جیسے برسوں سے اس کا سایہ وہیں جمی ہو۔

میں بے ساختہ بڑبڑایا:

’یہ کون ننگا تڑنگا کھڑا ہے؟‘

پہلے خیال آیا فقیر ہوگا، لیکن بھائی! فقیر اگر ہے بھی تو اس وقت جنگلے سے کیوں لپٹا ہوا ہے؟ اگلے لمحے خیال آیا عورت نہ ہو، لیکن تنگ  سرین  اور لمبی ٹانگیں فوراً اس خیال کے دشمن ہو گئے۔

وہ مجھے یوں لگ رہا تھا جیسے ہڈی چبا رہا ہو۔ آواز صاف سنائی دے رہی تھی۔ میں آگے بڑھ گیا لیکن ذکر کے دانے اور زور سے چلنے لگے۔ اور دل یہی کہتا رہا کہ یہ کوئی فقیر یا عورت نہیں، یہ تو وہی مخلوق ہے جسے لوگ ’جن‘ کہتے ہیں۔

پھر مجھے پرانا واقعہ یاد آیا۔ اسی راستے پر، نالے کے پل کے قریب، سفید کرتے پاجامے میں ایک بڈھا کھڑا دکھائی دیا تھا۔ آج یقین سا ہو گیا کہ وہ بھی انسان نہیں تھا بلکہ یہی مخلوق کبھی بھیس بدل کر اور کبھی اصل روپ میں سامنے آ جاتی ہے۔

نتیجہ یہ نکلا کہ میں نے فیصلہ کیا: اب واک اسی وقت کروں گا جب فجر ختم ہونے کو ہو۔ آخر کار انسان ہوں، اتنی ہمت کہاں کہ جنّوں کے ساتھ واک کی شراکت داری بھی نبھاؤں۔

لاہور کی ایک اور صبح۔ مؤذنوں کی آوازیں فضا میں گونج رہی تھیں اور میں حسبِ عادت واک کے لیے نکلا۔ پارک بند تھا، تو پھر وہی پرانا راستہ—پارک کے گردا گرد کا چالیس منٹ کا چکر۔

جب میں اسکولوں والی سڑک پر پہنچا تو ایک بہت بڑا درخت سامنے آیا۔ یہ وہی درخت ہے جس کے نیچے سے گزرتے ہوئے رونگٹے خود بخود کھڑے ہو جاتے تھے۔ کبھی لگتا جیسے کوئی اندھیرے میں ’ہوں‘ کر دے گا، کبھی جیسے کتا بھونک اٹھے گا۔

یہی وہ جگہ ہے جہاں میں نے پہلی بار اُس جن کو انسانی شکل میں دیکھا تھا۔ سردیوں کی صبح تھی اور بہت شدید دھند تھی۔ وہ اسکول کے گیٹ کے سامنے کھڑا تھا۔ ایک دن میں جب قریب پہنچا تو وہ گیٹ کی طرف منہ کیے کھڑا تھا۔ اچانک—بغیر جسم گھمائے—اس نے اپنی گردن بالکل کھلونے کی طرح ۱۸۰ ڈگری پر گھما لی اور بڑی بڑی آنکھوں سے مجھے گھورنے لگا۔

ایسے جیسے کہہ رہا ہو:

‘ہاں بھئی! اب بتا، ڈرا کہ نہیں؟’

میرا شک یقین میں بدل گیا۔ یہ انسان نہیں۔ اور جیسے ہی پلک جھپکی، وہ غائب۔ مگر ساتھ ہی میرے آس پاس خشک پتوں کے گرنے کی آوازیں۔ میں بڑبڑایا:

’او بھئی، یہ کیا کر رہا ہے تو؟‘

مگر حیرت یہ کہ زمین پر کوئی پتے گرے ہی نہیں تھے۔ آواز یوں لگ رہی تھی جیسے کوئی میرے قریب سے گزرتا ہوا ان پتوں کو اوپر لے جا رہا ہو۔ تب سمجھ آیا کہ اس جن کا بسیرا اسی درخت میں ہے۔

اس دن کے بعد وہ مجھے دوبارہ نظر نہ آیا۔ لیکن ہر بار اس درخت کے نیچے سے گزرتے ہوئے میرے رونگٹے ایسے کھڑے ہو جاتے جیسے وہ جن مجھے اپنی موجودگی یاد دلا رہا ہو۔ آخر کار میں نے فیصلہ کیا کہ اب راستہ بدل دوں۔

دلچسپ بات یہ کہ جب سے راستہ بدلا ہے، رونگٹے بھی مطمئن ہیں۔ گویا کہ وہ بھی کہہ رہے ہوں:

’شکر ہے بھائی! جان چھوٹی۔‘

یوں میرے واک کے دن ایک عجیب تجربے میں بدل گئے۔ کبھی نالے والے جن کے ساتھ آنکھ مچولی، کبھی درخت والے جن کی سرگوشیاں۔ لاہور کے گلشنِ اقبال پارک کے درخت اب مجھے سبز سائے سے زیادہ بھیدوں کی الماری لگتے  ہیں۔

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں

ایک تبصرہ برائے “جنّوں سے آمنا سامنا: 2 حیرت انگیز واقعات”

  1. جاوید اصغر Avatar
    جاوید اصغر

    دلچسپ ۔۔ منفرد تجربہ۔۔

جاوید اصغر کو جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے