زاہد نثار…………
کچھ انوکھا کیجیے اور وزیراعظم سے ملیے۔
جی ہاں! یہ ممکن ہے۔ ہمارے ہاں اب لے دے کہ ایک سوشل میڈیا ہی ہے جو غریبوں کی آواز اور امیروں کا لائوڈ اسپیکر ہے۔ رہے ہمارے عوامی نمائندے وہ تو کب کے اپنی ذمہ داریاں نبھا چکے۔ یقین نہ آئے تو کسی بھی نمائندے کی سن لیں یا سن گُن لیں۔ ماضی قریب میں ٹی وی چینلز کی اجارہ داری بلکہ حکومت میں شراکت داری نے عجب ماحول بنایا ہوا تھا۔ یہ تو شکر ہوا کہ سوشل میڈیا کی آمد اور عام آدمی کی اس تک بھرپور رسائی نے اب اپنی بات کو بڑوں تک پہنچانا کچھ آسان کردیا، بلکہ ان سے ملنے کو بھی آسان کردیا۔
دنیا بھر میں یہ ٹرینڈ بھی تو عام ہوتا جارہا ہے کہ کچھ انوکھا کیجیے اور وائرل ہوجائیے۔ راتوں رات شہرت کی بلندیوں پر چڑھ کر سیلیبریٹیز سے ہاتھ ملائیے۔ ہمارے ہاں بھی اب لوگوں کو وائرل ہونے کا اور مشہور ہونے کا چسکا پڑگیا ہے۔ اس لیے لوگ کچھ نہ کچھ کرنے کا سوچتے رہتے ہیں۔ جیسا کہ اب لوگوں کو وزیراعظم سے ملنے کا شوق چَرایا ہوا ہے، اور یہ حقیقت بھی ہے کہ ہمارے وزیراعظم سے ملنا اب بہت آسان ہے۔ بس کچھ انوکھا کیجیے۔
آپ کیا انوکھا کر سکتے ہیں؟ انوکھا کیجیے کچھ۔ کیا ہوسکتا ہے؟ نانگا پربت پر سائیکل کے ذریعے چڑھ جائیے! مشکل ہے؟ چلیں پھر بلین ٹریز پروگرام کے تحت لگائے گئے درخت گن سکتے ہیں؟ اچھا چلیں! یہ بھی مشکل ہے تو کیا کر سکتے ہیں؟ پاکستانی حکومت نے جو بلٹ ٹرین لانچ کی ہے اس کے ڈرائیور بن جائیں۔ اب اگر آپ نے منہ کو ”او“ کی شکل دے کر اور آنکھیں پھاڑ کر یہ سوال داغنے کی کوشش کی کہ بلٹ ٹرین تو لانچ ہی نہیں ہوئی؟ تو آپ کو شاید شیخ رشید کی شیخیوں پر کوئی اعتبار نہیں، اور ان پر اعتبار نہ کرنے والوں پر وزیراعظم بھی اعتبار نہیں کرتے۔
یعنی پکی بات ہے یہ چانس بھی آپ گنوا چکے۔ کوئی بات نہیں، ڈونالڈ ٹرمپ کا ٹوئیٹر اکائونٹ ہیک کر سکتے ہیں؟ یہ بھی مشکل ہے کیا؟ چلیں کوئی بات نہیں بہت چانسسز ہیں ہمارے ملک میں وزیراعظم تک پہنچنے کے۔ افغانستان کی ٹیم کو پشاور میں ون ڈے میچ کھیلنے پر راضی کر سکتے ہیں؟ یہ بھی نہیں؟ ڈالر کو نیچے لانا تو مشکل نہیں ہوگا؟ یہ بھی مشکل ہے تو بھی بہت کچھ ہے بقول شاعر
ترے سامنے آسماں اور بھی ہیں
پتنگ کی ڈور سے گردن کٹنے والے اپنے ہی بچے کے ساتھ مسکراتے ہوئے سیلفی لے کر وزیراعلیٰ پنجاب کو متاثر کرسکتے ہیں؟ نہیں تو یہ جان لیجیے کہ وزیراعلیٰ پنجاب سے وزیراعظم پاکستان بہت متاثر ہیں۔ آپ انہیں متاثر کرنے والوں میں شامل نہیں ہونا چاہتے تو اس کا سیدھا سیدھا مطلب آپ اس قیمتی چانس کو گنوا رہے ہیں۔
چلیں کچھ اور تجاویز دیتے ہیں۔
تھر میں بھوک سے مرتے بچوں کے منہ میں نوالہ ڈالنے کی تصویر سوشل میڈیا پر ڈال دیں۔ یہ اسٹنٹ بھی ہوچکا؟ چلیں اندرون سندھ گلتی سڑتی سرکاری گوداموں میں پڑی گندم کے ساتھ ہی کوئی اسٹنٹ کھیل لیں۔ شاید آپ درست سمت سوچ رہے ہیں۔ چلیں پھر اپنے گھر کے قریب ہی کسی طیبہ، رضیہ کنزہ یا پھر عظمٰی پر گھریلو تشدد کے بارے میں کوئی ویڈیو اپ لوڈ کر دیں کسی نومولود کی گٹر سے نکالی لاش پر کھڑے ہوکر آبادی کنٹرول کرنے کے فضائل پر ماہرانہ اور اینکرانہ رائے دیں۔
مگر شاید یہ بھی وزیراعظم تک پہنچنے کے لیے کارگر نہ ہو کیونکہ یہ تو عام سا کام ہوگا اور عام خبر یا عام کام کبھی ایسا کارنامہ نہیں بن سکتا جو وزیراعظم تک پہنچنے کے لیے کسی صورت معاون ثابت ہو۔ کرپشن بھی گھسا پٹا سا موضوع ہوگا اگر اس پر کچھ انوکھا کیا جائے حالانکہ اسی کی بدولت ہمارے وزیراعظم نے پورے ملک کی توجہ کھینچ لی تھی اور وہ وزیراعظم بن گئے۔ لہٰذا یہ ان کا ذاتی کارنامہ ہے اور ظاہر ہے آپ وزیراعظم تو بننے سے رہے کجا یہ کہ وزیراعظم سے ملنے والے بن جائیں. اور کرپشن ہے کہاں؟
ارے ہاں ایک عرب شہزادے پاکستان تشریف لارہے ہیں۔ ان کے سامنے کسی عرب صحافی کا روپ دھار کر آجائیں۔ یقین جانیں شہزادہ آپ سے لپٹ جائے گا اور وزیراعظم کو مجبوراً آپ سے ہاتھ ملانا پڑے گا۔ البتہ یہ کچھ زیادہ ہی مشکل ہے اس میں جان جانے کا بھی خدشہ ہے۔ ڈیم فنڈ کے لیے بھی کچھ انوکھا کرنے سے شاید وزیراعظم آپ کو اپروچ کرلیں۔ مثلاً ڈیم کی کھائی میں بذریعہ پیراشوٹ یا پیرا گلائیڈر اترنے کی ویڈیو وائرل کریں لیکن شاید یہ بھی بے سود ہو کیونکہ جن کو دکھانا مقصود تھا اب تو وہ چلے گئے، اب جاں نثار بننے پر شاید اتنی توجہ نہ مل سکے۔
آنے والی فلم لیجنڈ آف مولاجٹ کا نوری نت بن جاتے تب بھی آپ وزیراعظم کے ساتھ سیلفی بنا سکتے تھے اور ٹوئیٹر پر بطور پروفائل فوٹو شئیر کر سکتے تھے مگر وہ چانس بھی آپ گنوا چکے ہیں۔ اس کے علاوہ کیا ہو سکتا ہے؟ اگر آپ کراچی میں رہتے ہیں اور آپ کا تیس سالہ پرانا گھریا دکان ناجائز تجاوزات میں شمار ہوگئی ہے تو یہ بھی آپ کو وزیراعظم سے ملانے کا ایک عمدہ ترین ذریعہ ہے۔ اپنے مکان یا دکان کے ملبے پر بیٹھ کر خوشگوار موڈ میں ایک چھوٹی سی ویڈیو بنا کر سوشل میڈیا کی نذر کریں جس میں آپ تجاوزات کے گرانے کے حکومتی اقدامات کو سراہتے نظر آئیں۔
ویڈیو میں اگر آپ تجاوزات کے خلاف آپریشن پر واویلا کرنے والے لوگوں پر طنز کریں یا ان کو ملامت کریں تو یقین کیجیے آپ کی ویڈیو وزیراعظم تک پہنچی ہی پہنچی۔ پھر آپ کو وزیراعظم سے ملنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ جلتے انگاروں پر چلتے پھرتے کوئی ایسی ویڈیو بھی بن سکتی ہے جس میں آپ موجودہ مہنگائی پر عوام کو صبر کرنے کی تلقین کرتے نظر آئیں۔ بلوچستان سے کراچی آتی کسی بس کے جلے ڈھانچے پر بیٹھ کر ایرانی تیل کے فوائد پر لیکچر جھاڑنا بھی ایک ذریعہ بن سکتا ہے۔ اپنی روزی کمانے کے واحد ذریعے مثلاً رکشہ وغیرہ کو آگ لگا کر پٹرول کی بڑھتی قیمتوں پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کوئی چھوٹی سی ویڈیو بھی کارگر ثابت ہو سکتی ہے۔
جنوبی پنجاب میں ایک آئی ٹی یونیورسٹی ہے KFUET اگر آپ اس تعلیمی لحاظ اور سرکاری عدم توجہی سے بدقسمت علاقے رحیم یار خان کے ایک طالب علم ہیں تو اس کے منجمد فنڈز کی بحالی کے لیے آپ یونیورسٹی کے آئی ٹی شعبے میں مرغی انڈا فارمنگ پر عمل پیرا ہوکر یونیورسٹی میں ہی اپنے تیار کردہ سافٹ وئیر سے مرغیاں چوزے ڈاو¿ن لوڈ کریں اور اس ورچوئل فارمنگ کارنامے کی بنیاد پر آپ نہ صرف یونیورسٹی کے تمام فنڈز بحال بحال کروا سکتے ہیں بلکہ اس کی بنیاد پر وزیراعظم سے ملنا نہایت آسان ہو سکتا ہے۔
آپ کسان ہیں تو یوریا کی بڑھتی قیمتوں اور آلو کی گرتی قیمتوں پر قہقہے لگاتے بھنگڑا ڈالتے اپنی ویڈیو وائرل کروانے کی ضرورت ہے۔
اور بھی بہت کچھ سوچ سکتے ہیں۔ یاد رہے کہ ہمارے وزیراعظم کی میڈیا ٹیم پٹے ہوئے موضوعات کو بنیاد بنا کر کسی اسٹنٹ کو قبول نہیں کرتی لہذا وزیراعظم سے ملاقات، سیلفی، اور شاباش کے لیے انوکھا کام اور طریقہ اختیار کرنا بہت ضروری ہے۔ ایک تحریف شدہ شعر کے مطابق:
آدمی آدمی سے ملتا ہے
پر ”پی ایم“ کم کسی سے ملتا ہے
کیوںکہ وزیراعظم صاحب سے بہت سے لوگ ملنے کے لیے بے تاب رہتے ہیں اور غیراعلانیہ ایسا حکم بصورتِ شعر زیرلب رہتا ہے:
آگیا ہو نہ کوئی بھیس بدل کر دیکھو
دو قدم سائے کے ہم راہ بھی چل کر دیکھو
اور نہیں تو پولیو ورکر عرفان سے ہی کچھ سیکھ لیں۔ وزیراعظم صاحب ملیں نہ ملیں ثواب تو ملے گا ہی۔
2 پر “وزیراعظم سے ملنا ہے؟” جوابات
Excellent Writing Brother.
انتہائی بہترین تحریر ہے، زاہد نثار صاحب کا اچھوتا انداز، اور معاشرے میں پیدا ہونے والی خرابیوں کو ہلکے پھلکے مزاحیہ انداز میں ایک ہی پیرائے میں سمو دینا انہی کا خاصہ ہے