بشریٰ نواز۔۔۔۔۔۔۔۔
اسے اس کا لونی میں آئے کچھ ہی مہینے ہوئے تھے، قریب کی سب ہی ہمسائیوں سے ملاقات ہوچکی تھی۔ غزالہ کو سب لوگ بہت پسند آئے، خاص طور پر صائمہ آپا جو پوری کالونی کے لیے آپا تھیں مہربان شفیق جو ہر کسی کی مدد کے لیے ہر وقت تیار، کوئی مشورہ، کوئی پریشانی، وہ منٹوں میں حل کردیتی تھیں۔ غزالہ کے دل میں ان کی محبت اور احترام کی وجہ ان کا ہر ماہ اپنے گھر درس قرآن کا اہتمام کرنا تھا۔
آج بھی آپا کے گھر درس تھا جب سے درس سنا، دل بےچین تھا، اسے کسی پل چین نہیں آ رہا تھا، بے چینی سے جمال کا انتظار کررہی تھی۔ آج کے درس میں حقوق العباد پر روشنی ڈالی گی۔
جس نے کسی کا حق مارا تو آخرت میں حساب ہونا ہی ہے، غاصب کو دنیا میں بھی بھگتنا ہوگا اور آخرت میں بھی ۔ اللہ کی پکڑ بہت مضبوط ہے، اللہ سے ڈریں، بہتر یہی ہے کہ جیتے جی دوسروں کا حق لوٹا دیا جاۓ۔
“جمال! مجھے بہت ڈر لگ رہا ہے، آپ اپنے بھائی کا حق اسے لوٹا دیں، میں نے کل درس میں سناہے ،کہیں اس کا وبال ہمارے گھر، ہمارے بچوں پر نہ پڑجاۓ”۔
“عجیب، احمق عورت ہو! کتنی بار کہا، منع کیا ہے کہ ایسی محفلوں میں نہ جایا کرو۔ جب بھی جاتی ہو میرا دماغ خراب کردیتی ہو” وہ بڑبڑاتا ہوا نہانے چلا گیا۔
بات کچھ ایسی تھی کہ جمال نے چھوٹے بھائی کمال کےاعتماد کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے مشترکہ کاروبار میں لاکھوں کی ہیرا پھیری کی۔ اس وقت تو غزالہ بھی شوہرکا حوصلہ بڑھاتی رہی، اس جھگڑے کا نتیجہ علیحدگی کی صورت میں نکلا ۔ اب جو نیا گھرلیا، اسی علاقےمیں درس کا اہتمام ہوتا تھا۔ غزالہ کی باتیں سن کے وہ گھبرایا تو گاڑی لے کے باہر نکل آیا، کانوں میں ایک جملہ گونج رہا تھا کہ کہیں اس دھوکے کا وبال ہمارے گھر یا بچوں پر نہ پڑجاۓ۔ ایک بار دل نے کہا بھی کہ بھائی کو اس کا حق واپس کردو،ایک لمحے کو اسے خیال آیا بھی کہ بیوی کی بات مان لی جائے۔ اپنی آخرت سنوار لی جائے لیکن زبانی حساب نے جھٹ بتادیا کہ بہت کم بچے گا۔
سامنے سے اتے فقیر کو دیکھ کر جمال نے گاڑی روکی، پانچ سو کا نوٹ دیا اور خود کو ہلکا پھلکا محسوس کرنے لگا۔
جمال۔ نے سناتھا پرندوں کو دانہ ڈالنے کا بہت ثواب ہے، پرندے بہت دعائیں دیتے ہیں۔ ہر ماہ وہ دو ڈھائی ہزار کا دانہ لاتا، آج بھی جب وہ دانہ لے کے واپس آ رہا تھا تو اس نے دیکھا کمال کے دروازے پر کچھ لوگ کھڑے تھے، محکمہ بجلی کے اہلکار بل کی عدم ادائیگی پر کنکشن کاٹنے آئے تھے اور وہ بیچارہ دو روز کی مہلت کے لیے منت سماجت کررہا تھا۔ جمال نے ایک نظر کمال پر ڈالی اور گاڑی آگے بڑھالی۔
۔۔۔۔۔۔
آج کل طارق کی بیٹی کی شادی کی تیاریاں پورے زور شور سے جاری تھیں، یہاں ایک ہزار مہمانوں کا انتظام ہورہا تھا،شہر کے بہترین ڈیزاینر نے کئی لاکھ کا لہنگا تیار کیا تھا اور مشہور پارلر سے دلہن کی تیاری کی بکنگ بھی تھی۔ یہ شہر بھر کی ایک بڑی شادی تھی۔ اور دور ایک معمو لی سے گھر میں طارق کا بھائی گردے کی تکلیف سے نڈ ھال، بےبسی سے کسی معجزے کا انتظار کررہا تھا۔ ڈاکٹر نے جلدازجلد آپریشن کے لیے کہا ہے اور اس بات کا طارق کو بھی علم ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔
پچھلے سال بارشوں کی وجہ سے اکرم کے گھر کی چھت ٹپکنے لگی۔ گھر کا سارا سامان گیلاہوگیا، بیوی کے کہنے پر بھائی کی فیکٹری گیا، ساری بات سننے کے بعد بھائی جی بولے: “یار! ابھی تو بچوں کو مری لے کے جا رہا ہوں، کچھ نہیں کرسکتا۔
نجانے احساس کہاں چلا گیا، لگتا ہے کہ اب دل کی جگہ پتھروں نے لے لی ہے۔ کچھ لوگ صلہ رحمی کرنا جانتے ہی نہیں۔