کیش اینڈ کیری کلچر پاکستانی معاشرے پر کیا اثرات مرتب کررہا ہے؟

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

چودھری افضل حسین، پنجاب کیش اینڈ کیری کے منیجنگ ڈائریکٹر ہیں، گزشتہ دنوں ان سے پاکستان میں بڑھتے ہوئے کیش اینڈ کیری کلچر کے بارے میں مختصر سی گفتگو ہوئی، جس میں ان سے پوچھا کہ اس کلچر کے معاشرے اور چھوٹے ری ٹیلرز پر کیا اثرات مرتب ہورہے ہیں اور آنے والے دس، پندرہ برسوں کے دوران میں پاکستان میں ری ٹیل بزنس کا کیا منظرنامہ ہوگا، جواب میں انھوں نے جو کچھ کہا، نذرقارئین ہے:
یقیناً ہمارے ہاں سُپراسٹورز کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے، سبب یہ ہے کہ جب آپ ریٹیل شاپ میں جاتے ہیں تو وہاں آپ کو ہر چیز ریٹیل پرائس ہی میں ملتی ہے، اسے خریدتے ہوئے آپ مطمئن نہیں ہوتے، ممکن ہے کہ وہ آپ کی استطاعت میں نہ ہو یا آپ اس کے معیار کو پہچاننے میں مشکل پیش آئے، وہاں آپ دکان دار کے رحم وکرم پر ہوتے ہیں، بہت تنگ ماحول ہوتا ہے۔ اگرآپ کو تیس چیزیں لینا ہوتی ہیں تو چھے دکانوں پر جانا ہوتا ہے، اس لیے چاہے آپ گاڑی میں ہوں یا پیدل، خریداری میں مشکل پیش آتی ہے۔ سپرمارکیٹس میں فیملی انٹرٹینمنٹ ملتی ہے، یہاں ریٹس ہول سیل والے ہوتے ہیں حتیٰ کہ ایک چیز کی قیمت بھی ہول سیل والی ہی وصول کی جاتی ہے۔
پوری فیملی کی شاپنگ ایک ہی چھت تلے ہوجاتی ہے، یہاں کوالٹی بھی ملتی ہے اور ورائٹی بھی، یہ سہولتیں ایک چھوٹی دکان میں نہیں ملتیں۔ سپراسٹورز میں فروخت ہونے والی ہر چیز کی قیمت ہول سیل میں ہوتی ہے۔ آپ ریٹیل شاپ میں دس ہزار روپے کی شاپنگ کرتے ہیں، سپرمارکیٹ میں آنے کی صورت میں وہی سامان ایک ہزار سے پندرہ سو روپے کی بچت کے ساتھ خریدا جاسکتا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ پاکستان میں سپرمارکیٹوں کے کلچر کے بڑے مثبت اثرات مُرتب ہوئے ہیں، جدید ریٹیلنگ کرنے والے لوگ دبئی اور برطانیہ سے آئے ہیں، وہ اپنے ساتھ ہی یہ جدید سسٹم لے کر آئے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ پاکستانی بزنس اور معیشت میں ترقی کا ایک باب ہے۔
سپراسٹورکلچر کے نتیجے میں حرص اور لالچ پیدا ہونے والی بات درست نہیں ہے۔ ہر فرد کا ایک بجٹ ہوتا ہے، اگر آپ ماہانہ اپنے گھر کی گروسری کے لیے کسی سپرمارکیٹ میں جاتے ہیں، آپ دس ہزار روپے لے کر جاتے ہیں، اس دوران آپ کو کوئی ایسی چیز نظر آتی ہے جو آپ کے ذہن کے کسی کونے میں موجود ہے لیکن فہرست میں شامل نہیں تھی، تو آپ اسے شوق سے خرید لیتے ہیں، ایسا نہیں ہے کہ آپ ایسا کرکے فضول خرچی کررہے ہیں۔ اگر کوئی پانچ ہزار روپے کا سامان لینے آیا تھا لیکن وہ بیس ہزار کا سامان لے کرجارہا ہے، تو وہ اپنی ضرورت پوری کرنے کے لیے ایسا کررہا ہے، یقیناً فضول خرچ لوگ بھی ہوں گے، لیکن ان کی شرح پانچ فی صد تک ہوتی ہے۔
ہماری سپرمارکیٹ ایک برانچ سے شروع ہوئی۔ یہ ایک تغیر ہے، تغیر ہی زندگی ہے، ایک پرانا سسٹم ختم ہوجاتا ہے، پھر اس کی جگہ پر آپ کو ایک نیا سسٹم قائم کرنا پڑتا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ سپرمارکیٹوں کے کھلنے سے ہول سیل کی دکانوں پر فرق پڑے گا، لیکن گلی محلے کے ریٹیلرز پر نہیں۔ جس کلچر کی آپ بات کررہے ہیں، یہ کیش اینڈ کیری کلچر ہے۔ آپ کے پاس پیسے ہوں گے تو یہاں آپ آئیں گے اور سامان لے کر جائیں گے، اگر آپ نے گلی محلے کی دکان پر ادھار لگایاہوا ہے، وہاں مہینے بعد ادائیگی کرتے ہیں، تو پھر جو بھی ریٹ ہو آپ کو گلی محلے ہی کے اسٹور سے سامان خریدنا ہے۔ چھوٹی چیزوں بریڈ، دودھ وغیرہ کے لیے تو آپ کو گلی محلے کی دکان پر ہی جانا ہوتا ہے۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ اگلے دس سے پندرہ برسوں کے دوران میں یہ کیش اینڈ کیری کلچر اس پوزیشن پر آجائے گا کہ وہ عام علاقوں میں بھی چھوٹی ریٹیل شاپس کھول لے گا۔ جس کی دیکھادیکھی آج کی ریٹیل شاپس کی شکل بھی تبدیل ہوجائے گی۔


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں