تزئین حسن، صحافی، تجزیہ نگار، مصنف

میں نازیبا نعرے لگانے اور پلے کارڈزلہرانے والیوں کے ساتھ نہیں ہوں لیکن۔۔۔۔۔۔

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

تزئین حسن۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پچھلے سال سے کسی خواتین ڈے کی مارچ کو بہانہ بنا کر جن میں کچھ نازیبا پلے کارڈز کا ڈسپلے ہوا، قوم کو ٹرک کی بتی کے پیچھے لگا دیا گیا ہے- ہمارے فیس بکی دانشوران سے لیکر کالم نگاروں یہاں تک کے ڈرامہ لکھنے والوں تک کے پاس اس کے علاوہ کوئی اور موضوع نہیں رہ گیا- ہم سب جانتے ہیں کہ گنتی کی یہ چند عورتیں پاکستانی عورت کی نمائندگی نہیں کرتیں- عام پاکستانی اور مسلم معاشرے کی عورت جن مسائل کا شکار ہے اس کا منہ یہ نعرے سنا کر بند کیا جا رہا ہے- ویسے تو وہ بیچاری پہلے ہی کچھ نہیں بولتی لیکن اس سے آگے بڑھ کر میں یہ بھی دیکھ رہی ہوں کہ خواتین کے حقوق کی بحث کو ان گنتی کی چند خواتین اور ان کے نازیبا نعروں کا بہانہ بنا کرایک غلط سمت موڑ دیا گیا ہے،یہاں تک کے ان کے جائز حقوق کی بات کرنے کو بھی اس مارچ کی حمایت کا نام دیا جارہا ہے-

میرا تعلق ایک پڑھے لکھے متوسط پاکستانی گھرانے سے ہے- والدہ، والد، نانا، ماموں. پھپا، چچا، بڑے کزنز کے علاوہ شادی کے بعد میرے شریک حیات نے بھی میری تعلیم، ملازمت، سماجی خدمات، جہاد بالقلم کے لئے مجھے ہر طرح کے وسائل فراہم کئے ہیں اور میری ہر طرح سے حوصلہ افزائی کی ہے- دوسری طرف میری ماں نے مجھے اس بات کی بھی تربیت دی کہ گھر سب سے زیادہ اہم ہے، آئندہ نسلوں کی تربیت آفس میں کام کرنے اور پیسہ کمانے سے زیادہ اہم ہے-

میرا ان نعروں سے کوئی تعلق نہیں جو مذکورہ اور بہت زیادہ مذکورہ خواتین مارچ میں لگائے جارہے ہیں- پانچ سال سے مغرب میں قیام کے باعث ایک پر تجسس صحافی کی حیثیت سے میں مغربی عورت کے مسائل اور معاشرے میں اس کی حیثیت کو بھی بہت قریب سے دیکھ رہی ہوں-

لیکن خدا را اسکا مطلب یہ نہیں کہ آپ پاکستانی عورت کے مسائل کو ‘میرا جسم میری مرضی’ اور کھانا خود گرم کر لو’ کا بہانہ بنا کر نظر انداز کر دیں- ان کے جائز حقوق کو یہ کہہ کر نظر انداز کردیا جائے کہ انہیں تو سارے حقوق اسی دن مل گئے تھے جس دن سورۂ نساء نازل ہوئی- سورہ نساء ہی نہیں پورا قرآن خواتین کے حقوق کی بحث جگہ جگہ چھیڑتا ہے- قرآن کے مصنف کا لہجہ تو اپنی اس کمزور مخلوق کے لئے محبت سے لبریز ہے لیکن مسلم معاشروں میں اس صنف نازک کو جس حقارت سے دیکھا جاتا ہے اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا-

یہ بات میں اپنے ذاتی تجربے اور مشاہدے کی بنیاد پر کہہ رہی ہوں- ہم اپنی بیٹی کو تو پڑھانا چاہتے ہیں لیکن دوسرے کی بیٹی کی عزت کرنے اور اسے اس کے جائز حقوق دینے پر آمادہ نہیں- قرآن کے اصولوں کو ایک طرف رکھ کر ہم عائلی معاملات میں ہندو مت کی پیروی کو دین سمجھتے ہیں- معاشرے کے ہر طبقے میں عورت کے ساتھ تفریق رکھی جاتی ہے اور یہ معاشرے کا مزاج ہے جسے عورت خود بھی سپورٹ کرتی ہے- ان گنتی کی چند خواتین نے خواتین کے حقوق کی بات نہیں کی، اصل عورت کا منہ بھی بند کردیا ہے جو اپنے جائز حق کے لئے کچھ کہنا چاہتی ہے-

خدارا ! ان چند خواتین کو بہانہ بنا کر معاشرے کے مختلف طبقات کی عورت کے مسائل کو نظر انداز نہ کریں- اسے اس کی وہ حیثیت دینے کے لئے جدو جہد کریں جو اسے قرآن کے مصنف نے اور آقا صلیٰ الله علیہ وسلم نے دی ہے-

اور آخری بات یہ کہ گستاخی کے خاکوں اور فلموں کی طرح ان خواتین کے نعروں کی اشتہاری مہم چلانے کا ذریعہ نہیں بنیں-


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں