ایک نعمت جس کی طرف ہم دھیان نہیں دیتے

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

ابومحمد مصعب۔۔۔۔۔۔۔۔
بر دبئی میں ایک چینی نوجوان، ’شازو‘ اپنے ہم وطن کے پاس ملازم تھا۔ بڑا خوش اطوار، ہنس مکھ اور محنتی۔ پچھلے دنوں اچانک ڈیوٹی سے غائب ہوگیا تو میں نے دکان کے مالک سے پوچھا کہ شازو کہاں چلا گیا؟

اس نے بتایا کہ وہ شادی کرنے کے لیے یہاں سے نوکری چھوڑ کر مستقلاََ وطن چلا گیا ہے۔ کل جب میں نے اس سے پوچھا کہ کیا شازو کی شادی ہوگئی؟ کہنے لگا: نہیں، شادی اس کے لیے آسان نہیں ہے، ابھی تو وہ لڑکی ڈھونڈنے میں لگا ہوا ہے۔ میں نے پوچھا، کیوں؟ کہنے لگا اس کی عمر اٹھائیس برس ہو چکی ہے، اس لیے تھوڑا مشکل ہے۔ میں نے کہا، لڑکوں کے لیے اٹھائیس برس تو کوئی بڑی عمر نہیں۔ ہاں چین میں لڑکی کے لیے واقعی یہ ایک بڑی عمر ہے۔

کہنے لگا کہ مسئلہ یہ ہے کہ سنہ ستر کے دہائی سے ہماری سرکار نے جو ’’ایک بچہ‘‘ والی پالیسی رکھی تھی اس کی وجہ سے ملک کی آبادی میں جنس کے حوالہ سے عدم توازن واقع ہو چکا ہے۔ عورتوں کی قلت ہے اور مرد زیادہ ہیں۔ پھر بتانے لگا، اس کی وجہ یہ بھی ہے کہ حکومت کی ’ایک بچہ‘ پالیسی کی وجہ سے خواتین کیا کرتی تھیں کہ ڈاکٹر کے پاس جا کر چیک اپ کرواتی تھیں اگر پتہ چلا کہ رحم میں لڑکی ہے تو انجیکشن کے ذریعہ اسے ضائع کر دیا جاتا تھا۔ کیوں کہ جب ایک ہی بچے کی اجازت ہو تو ہر ایک کو لڑکا ہی چاہیے ہوتا تھا۔ مگر اب، نئے قانون کے مطابق، دو بچوں کی اجازت مل چکی ہے۔

میں نے اس سے پوچھا، مگر اس پابندی کے دوران تمہارے دو بچے کس طرح ہوئے، جیسا کہ تم نے پہلے بتایا تھا کہ تمہیں ایک بیٹا اور بیٹی ہے؟ تو کہنے لگا کہ دوسرے بچے کی پیدائش کے بعد میں نے بھاری جرمانہ بھرا تھا۔ یوں سمجھ لو کہ میں نے اس زمانہ میں اپنی ڈھائی سال کی تنخواہ، جرمانہ کے طور پر ادا کی تھی۔

فطرت کے کاموں میں دخل اندازی سے چینی معاشرہ اس وقت نہ صرف جنسی عدم توازن کا شکار ہے بلکہ کئی دیگر چیلنجز سے بھی دوچار ہے۔ وہاں کروڑوں معمر شہری ایسے ہیں جو تنہا رہنے پر مجبور ہیں۔ نہ اولاد قریب ہے نہ پوتے پوتیاں یا نواسے نواسیاں۔ گھروں کا ماحول قبر کا سا منظر پیش کرتا ہے۔

یہ مسئلہ دیہات میں زیادہ سنگین ہے، کیوں کہ ان کی واحد اولاد، بیٹا یا بیٹی، ان کو چھوڑ کر، معاش کے سلسلے میں شہروں کی طرف جا چکی ہے۔ والدین میں سے کسی ایک کی موت کے بعد، ماں یا باپ کے پاس گھر پر اکیلے رہنے کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ ان کی نگاہیں یا تو گھر کی دیواروں اور چھتوں کو گھورتی رہتی ہیں یا پھر دروازے پر ٹکی ہوتی ہیں کہ کب ان کا اکلوتا بیٹا یا بیٹی گھر واپس آتے ہیں۔

میں سوچ رہا تھا کہ ہم اس معاملہ میں کتنے خوش قسمت ہیں۔ بیٹے، بیٹیاں اور ان کے بعد ان کی اولادیں۔ سمجھیں کہ ہر وقت گھروں پر رونق لگی رہتی ہے۔ مگر نعمتوں کی فراوانی کی وجہ سے ہمارا دھیان شاید اس نعمت کی طرف نہیں جاتا کہ ہم اللہ کا شکر اد کریں۔


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں