ھنادی ایمان۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لکھنا چاہئیے لیکن ابھی تک نہیں لکھا، سوچا کہ نہ لکھوں،آخرکیسے لکھ سکتے ہیں؟؟
کچھ باتیں صرف انسانی احساس کے دائرے میں آتی ہیں، اُن پر قلم اُٹھانا ذرا مشکل ہوتا ہے۔ ہر احساس کو الفاظ نہیں دئیے جا سکتے ، جانے مُدعا پڑھنے والےتک پہنچے یا نہ پہنچے؟
بہرحال میرا وہاں جانا ضروری تھا دعوت نامہ بہت اچانک آیا تھا لیکن تعلق بہت قریبی تھا، وہ بہت شارٹ نوٹِس پر بُلا رہی تھی۔ موقع بھی خوشی کا تھا۔ بس کچھ لمحوں کے لئےامی کی طرف دیکھا، دن بھر کی لگی بندھی روٹین سے کافی بور ہوئی لگ رہی تھیں۔
“امی چلیں میرے ساتھ !! “میں نے کہا اور امی تیار۔۔۔
باہر تو رات ہو چکی تھی اس لیے امی کو ساتھ لینا ضروری سمجھا۔ ابھی یہ طے کرنا باقی تھا کہ جانے کا ذریعہ کیا ہو لہٰذا کال کی کہ ابھی گاڑی نہیں ہے،اس لئے گاڑی بھی دو۔ کچھ تیاری اور کچھ دیر کا انتظار ، اورپھر گاڑی آ گئی چونکہ ڈرائیور اُن کے گھر کا فرد تھا، نہایت مودب ، تمیزدار ، مہزب ، شائستہ۔۔
بس بھئی! کچھ باتیں کیں، دل خوش ہو گیا، اچھی رائڈ تھی ۔ فنکشن بھی خوش اسلوبی سے اٹینڈ ہو گیا۔ لیٹ ہونے کے امکان پر یہ طے پایا کہ میں اپنے گھر سے کسی کو زحمت نہ دوں، اتنے زیادہ لوگ ہیں، واپسی پر بھی کچھ نہ کچھ انتظام ہو ہی جائے گا۔ واپسی پر سب مصروف تھے ، گھر والے بھی اور رات کافی گہری ہو چکی تھی لہٰذا طے یہ پایا کہ اوبر کرا لی جائے۔
“میرا ایپ نہیں چلتا تُم بلا لو ۔۔” حسب معمول ایک دو باتیں سُن لیں کہ ‘تم نے تو فون برائے نام رکھاہوا ہے لہٰذا میں اپنے فون سے ہی اوبر کرا لیتی ہوں ۔ بہرحال اوبر والا جلد آ گیا، زیادہ دیر نہیں لگی ۔ میں اور امی اُس اوبر میں بیٹھ گئے، دیکھا نہیں کون چلارہا نہ نظر آیا۔ گاڑی بالکل نئی ، آرام دہ اور اچھی حالت میں تھی۔ سفر اچھا کٹ گیا۔ یوں ہم گھرپہنچ گئے۔
روشنیاں سڑک پہ بھی تھیں اور گھر کی بھی، سڑک بہت دیر تک خاموش نہیں رہتی، پھر بھی کافی خاموشی تھی لیکن درختوں کے درمیان لائٹ کم آ رہی تھی۔ اب دو مسئلے تھے امی کو اٹھانا ،اُن کے دونوں ہاتھ پکڑ کے چلانا، دروازہ بھی خود ہی کھولنا تھا۔ ڈرائیور بھی میرے ساتھ ہی گاڑی سے اُتر آیا تھا ۔
میرا خیال تھا کہ امی کو گیٹ سے اندر کرکے، ہاتھ خالی کر کے آرام سے اسے ادائیگی کردوں گی۔۔ کندھے پہ بیگ لٹکائے اور امی کو سنبھالتے سنبھالتے دروازے کے قریب پہنچے۔ ڈرائیور امی کے پیچھے چلنے لگا لیکن دروازے میں چابی لگاتے ہوئے اچانک یوں لگا جیسے ڈرائیور میرے بہت زیادہ قریب آ گیا ہے، کچھ تناؤ کا شکار ہے یا کوئی پریشانی ہے ۔۔
اُس کے چہرے کی طرف دیکھا تو نہایت کرخت تاثرات تھے، آنکھوں سے مجرمانہ دہشت اور غصے کی شدت واضح ہو رہی تھی، شکل بھی کافی خوفناک دکھائی دے رہی تھی۔ چھٹی حِس نے خبردار کیا کہ دروازہ کھلتے ہی یہ شخص ہمارے ساتھ گھر کے اندر داخل ہو گا ۔۔ اور اس سے آگے ذہن کام کرنے سے جواب دے گیا۔۔
بس یہی دو تین لمحے تھے رونگٹے کھڑے ہو گئے، سر سے پائوں تک جھرجھری سی دوڑ گئی۔ اگر میں بیٹھنے سے پہلے ایسا مکروہ چہرہ دیکھ لیتی تو یقیناً اس کے ساتھ ہر گز نہ بیٹھتی۔ پھر میرے غصے اور غضب کی لہر نے اُس خوف پر قابو پایا،اور زور دار آواز اور متکبرانہ لہجے سے پوچھنا پڑا:
“ہاں؟ تمہیں کیا چاہئے؟” پھر کچھ توقف اور کچھ فاصلہ کر کے،چہرے کا تناؤ کم کرکے اُس نے اپنی رقم بتائی ۔ اسی دوران والدہ سے کہا کہ آپ گیٹ پکڑ کے کھڑی ہوں، ذرا! اس کو پیسے دیدوں، گیٹ کھولنے کو بچے اوپر سے اتر رہے ہوں گے”۔
فٹا فٹ خلاف معمول دو دو ، چار چار باربیل بجا دی۔ پیسے پکڑائے اور وہ ڈاکو نما ڈرائیور اپنی گاڑی کی طرف پلٹ گیا۔ پھر چابی ڈھونڈی، گیٹ کھولا، امی کے سامنے ہو کے اُن کے دونوں ہاتھ پکڑے۔ اُنھیں اندر داخل کیا اور گیٹ زور سے بند کردیا،یہی سوچتے ہوئے باقی فاصلہ طے کیا کہ امی کو پتا توکچھ نہیں چلا لیکن لگا کہ والدہ جیسی رحمت ہی کے سبب آج بچت ہوئی ہے ۔ ماں تو وہ ہستی ہے جو موسیٰ کی پشت پر کھڑی بھی ، خدا کے سامنے سفارشی ہوتی ہے۔
معذور والدہ کو چلانا مجھے اتنا مشکل کبھی نہیں لگا جتنا ان چند لمحوں میں محسوس ہوا۔ نہ اُن سے ہاتھ چُھڑا پارہی تھی ، نہ کہیں بٹھانے میںکامیاب ہو رہی تھی ، نہ کسی ہاتھ سے دروازہ کھول سکتی تھی ، نہ بیگ کھول پا رہی تھی۔ اس قدر نازک صورتحال میں کچھ بھی ہو سکتا تھا کوئی بھی حادثہ،کوئی المیہ لیکن
وہ علیم و خبیر اور حفیظ جو ہے۔ اُسی کی مدد آتی ہے جب اتی ہے۔ اُس نے حواس قائم کرادئیے، بجائے کانپنے اور ہکلانے کے، رب نے ہی میرے دماغ میں غصہ اور غضب بھی اپنی مدد کے طور پہ اُتار دیا۔ یہ حوصلے اور مضبوطی کی علامت تھی ۔۔ اور رعب جو وہ دشمن کے دلوں پر طاری ہوتا ہے، اُسی نے وہ رعب طاری کیا اور بلا کو دور کیا۔
اللہ کی مدد صرف گاڑی اور پیسہ ہی نہیں ہوتی وہ ایسے انداز میں آپ کی مدد کرتاہے کہ آپ کے وہم وگمان میں بھی نہیں ہوسکتی ۔ وہ ہمارے حواس خصوصاً “چھٹی حس” یا معمولی خیال کے ذریعے بھی راہنمائی فراہم کرتاہے، فوری، ہنگامی کام اور ردعمل دینے والےاعصاب بھی اُس کی مدد کاکام کرتے ہیں، جن کی طرف ہمارا خیال بھی نہیں جاتا اور اس پر ہم کبھی اللہ کا شکر ادا نہیں کرتے۔
گھر میں داخل ہوئے تو غور کیا گھر پہ تو کوئی تھا ہی نہیں، بیل کس کے لئے بجارہے تھے؟ میراخیال ہے کہ وہ منہ سے بالکل انجانے میں نکلے ہوئے جملے کام کر گئے کہ” آتے ہوں گے گیٹ کھولنے کے لئے”۔
حالانکہ گھر پہ تو کوئی بھی نہیں تھا۔ صرف اللہ ہی کی ذات تھی ۔۔!!
اس لمحے میںنے ایک بار پھر تہیہ کیا کہ اپنی زندگی کے فیصلے خود ہی کرنے چاہئیں، میں نے کبھی “اوبر” یا ایسی کوئی دوسری سواری نہیں لی نہ آئندہ لینے کا ارادہ ہے ۔ دوست نے منگوا دی آئندہ اُس کو بھی منع کروں گی۔
روایتی طریقہ ہی ٹھیک ہے کہ رکشہ/ ٹیکسی کا ڈرائیور جاننے والا ہو اور اس کا نمبر بھی موجود ہو۔ جب کوئی خاص ضرورت ہو، اُسی کو بُلا لیاجائے ۔ بجائے مختلف اور انجان لوگوں کے ساتھ سفر کرنے کے۔