مدثر محمودسالار۔۔۔۔۔۔۔
روز مرہ زندگی میں ہمیں بیماری ، حادثات کی وجہ سے ہسپتالوں سے واسطہ پڑتا رہتا ہے۔ تقریبا ہر شخص کا تجربہ ایک جیسا ہی ہوتا ہے مگر ہم پاکستان میں جب ڈاکٹروں اور ہسپتالوں کے ماحول سے تنگ آتے ہیں تو پہلی بات یہی کرتے ہیں کہ یورپ امریکہ طبی سہولیات کے حوالے سے بہت بہتر ہیں۔ یہ مغالطہ اصل میں فلمیں دیکھ دیکھ کر اور مغربی ممالک میں رہنے والے پاکستانیوں کے افسانے سن کر زیادہ معتبر ہوجاتا ہے۔
آئیں میں آپ کو ذاتی تجربہ بتاتا ہوں اس کی روشنی میں آپ سمجھ جائیں گے کہ امریکہ میں طبی سہولیات کتنی شاندار اور آسانی سے میسر ہیں۔
ہسپتال میں ہی جاب ہونے کی وجہ سے روزانہ ڈاکٹروں اور انتظامیہ کا رویہ تو دیکھتا رہتا ہوں مگر پھر بھی چند ایک خوش فہمیوں میں مبتلا تھا ،مگر بطور مریض جب مجھے ہسپتال کی خدمات حاصل کرنا پڑیں تو ڈاکٹروں کا رویہ دیکھ کر مکمل طور پر ان خوش فہمیوں سے نکل آیا ہوں۔
ہسپتال پاکستان کے ہوں یا امریکہ کے، ان میں خدمات انجام دینے والی زیادہ تر ڈاکٹر نما مخلوق کا تعلق زمین سے نہیں بلکہ کسی اور ہی سیارے سے ہوتا ہے۔ گوکہ اچھے اور انسانیت کا درد رکھنے والے ڈاکٹرز بھی پائے جاتے ہیں مگر میں عام ڈاکٹروں کی بات کررہا ہوں اور یہ عام ہوتے ہیں کیونکہ جسے خلق خدا پر رحم نہ آئے وہ عام ہی ہوتا ہے کبھی خاص ہوہی نہیں سکتا۔
چند ماہ پہلے کا واقعہ ہے انگلی پر گہرا زخم لگ گیا، ابتدائی پٹی کروانے کے بعد ہسپتال کے شعبہ ہنگامی طبی نگہداشت جانا پڑا۔
اصل کہانی تب شروع ہوتی ہے جب میں اس ہنگامی طبی نگہداشت کے شعبہ میں داخل ہوا۔ نام پتہ پوچھنے کے مراحل سے گزار کر ایک کمرے میں لے جاکر بیٹھا دیا گیا۔ سب سے پہلے ایک نرس آئی اور بلڈ پریشر چیک کیا۔ وہ چلی گئی تو ایک اور موصوفہ آکر مختلف ٹیسٹ وغیرہ کروانے کی ترغیب دینے لگی۔
جتنے زیادہ ٹیسٹ اتنا بڑامیڈیکل بل اور میں ہر ٹیسٹ کے جواب میں انکار کیے جارہا۔
یہ موصوفہ گئیں تو ایک اور بی بی آدھمکیں میں سمجھا ڈاکٹر کی آمد کے طبل بجانے آئیں۔
محترمہ کا سوال تھا آپ کو کتنی درد ہورہی ہے؟؟ میں غصہ کو قابو کرنے کی کوشش کررہا تھا کیونکہ بیس منٹ مجھے اس کمرے میں ہوگئے تھے اور کوئی زخم کی دیکھ بھال اور صفائی کے لیے نہیں آیا اور ہر ایک آکر فضول سوالات کررہا۔ میں نے کہا بہت درد ہے،
نرس بولی نہیں آپ وضاحت کریں کہ اگر درد کو ایک نمبر سے دس نمبر تک تقسیم کیا جائے تو آپ کو کتنے نمبر کا درد ہے؟؟
دل تو کررہا تھا اٹھ کر ہسپتال سے نکل جاؤں مگر تکلیف کی وجہ سے مجبور تھا۔
بہرحال اسے کہا کہ یہ نمبر والے ڈرامے مجھے معلوم نہیں، بس اتنا سمجھ لو کہ ایسے انگلی پر زخم لگنے پر ہسپتال جانا ہماری شانِ مردانگی کے خلاف ہے۔ مگر مجھے اندازہ ہے کہ زخم بہت گہرا ہے اور درد کی شدت سے مجبور ہوکر یہاں آیا ہوں۔
اچھا تو کیا آپ کو نو نمبر کا درد ہے یا پورا دس نمبر لکھ دوں ؟؟
میرا جواب سن کر فورا کھسک گئی میں نے کہا دس نہیں بیس سے زیادہ ہے۔
اس کے دس منٹ بعد ڈاکٹر صاحب تشریف لائے،
آکر انگلی کا زخم دیکھا دو چار لمحے سوچتے رہے پھر بولے یہ زخم تو بہت گہرا ہے اس پہ ٹانکیں لگانے پڑیں گے۔
میں نے کہا جی! مجھے پہلے ہی اندازہ ہے کہ مسئلہ سنگین ہے۔
ڈاکٹر پھر کمرے سے نکل گئے اور پندرہ منٹ بعد واپس آئے اور اپنا سامان کا بکس میرے سامنے میز پر رکھ کر دوبارہ کمرے سے نکل گئے۔
ڈاکٹر کی آمدورفت دیکھ کر میں سوچے جارہا تھا کہ یہ ہنگامی طبی امداد ہے تو عام مریض تو بستر پر مر کے ہی یہاں سے چھٹکارا پاتا ہوگا۔
ڈاکٹر صاحب اب بیس منٹ بعد واپس آئے تو مجھے یہی لگا کہ جناب زیادہ سے زیادہ تیس سیکنڈ رکیں گے اور پھر یہ جا وہ جا۔
ڈاکٹر صاحب نے غالبا اپنا ذلالت پروگرام کا کوٹہ پورا کرلیا تھا اس لیے انہوں نے رک جانا ہی مناسب سمجھا۔
اس دوران درد کی شدت سے میں بے حال تھا اور ضبط کی ہر منزل طے کیے جارہا تھا۔
ڈاکٹر صاحب نے زخم کو باہر سے صاف کیا اور پھر پیمانہ لے کر ناپنے بیٹھ گئے ، میں ہکا بکا ان کا منہ دیکھ رہا کہ یہ تیل کا کنواں تو نہیں نکل آیا جس کی گہرائی ناپی جارہی۔
دو بار زخم کی پیمائش کی اور کاغذ پر لکھ لی۔۔ اب یہ تو کوئی میرے جیسا قسمت کا مارا زخمی ہی بتا سکتا ہے کہ ڈاکٹر کی ان حرکات کا مجھ پر کیا اثر ہورہا تھا۔
خدا خدا کر کے انہوں نے ٹانکے لگائے اور ٹانکے لگاکر ایک بار پھر پیمائش کی۔ اب یہ ٹائم پاس تھا یا میڈیکل کی کوئی احمقانہ کاغذی کاروائی تھی اس بارے میں ہم نہیں جانتے۔
اوہ یہ تو بتانا یاد نہیں رہا کہ ڈاکٹر صاحب سے پہلے ایک محترمہ نے آکر پندرہ منٹ ہمارا انٹرویو کیا کہ کام کیا کرتے ہو اور انکم کتنی ہے اور گھر اپنا ہے یا کرائے کا۔ یہ سوالات کرنے کا مقصد یہ تھا کہ معلوم ہوسکے کہ موٹی مچھلی ہاتھ لگی ہے یا پھوٹی کوڑی بھی نہیں ملے گی۔
اب ڈاکٹر صاحب اپنی تاریخی اور تفصیلی سرجری سے فارغ ہوکر ہدایات دے کر دوبارہ آنے کا پیام دیتے ہوئے پھر کھسک گئے۔ میں انتظار میں تھا کہ اب گھر جاؤں مگر وہی منکرنکیر بنی ہوئی محترمہ پھر آدھمکیں اور ڈس چارج کرنے کے کاغذات تیار کرتے ہوئے پوچھنے لگی کہ بل آپ کے گھر کے ایڈریس پر بھیجا جائے یا آپ کے ڈائریکٹر کو۔
میں اپنی تکلیف کو نظر انداز کرتے ہوئے ان کی حماقت پر اندر ہی اندر قہقہے لگارہا تھا۔ ان کو خوشی یہ تھی کہ دو گھنٹے کے قریب ہسپتال کی خدمات حاصل کرنے پر مجھے بھاری بھرکم بل ادا کرنا پڑے گا اور میں اس لیے خوش تھا کہ یہ مجھے اتنی دیر سے ذلیل کررہے تھے تاکہ بل کا حجم بڑھتا جائے مگر ان کو پھوٹی کوڑی بھی نصیب نہیں ہونی۔
بہرحال چار دن بعد ٹانکیں کھلوانے گیا تو پھر باقاعدہ وہی ڈرامہ کیا گیا اور ساتھ ہی مجھے ہسپتال میں ایڈمٹ کرلیا۔ یہ بات مجھے پہلے تو سمجھ ہی نہیں آئی کہ ایڈمٹ کیوں کیا؟ پھر ایک گھنٹہ بعد اندازا ہوا کہ اچھا تو یہ بھی اب بل میں جائے گا۔ مختصراً یہ کہ ٹانکیں کھلوا کر میں گھر آگیا اور ساتھ ہی اگلے ہفتے مجھے تین ہزار ڈالر کا بل بھیج دیا گیا۔ بل میں ساری خدمات گنوائی گئیں تھیں جو مجھے ان کی طرف سے ملیں تھیں۔
وہ بل میں نے ہسپتال میں اپنے شعبہ کی سربراہ کو دے دیا کہ آپ جانیں اور بل لینے والے جانیں۔
پھر ایک بل دو ہزار ڈالر کا بھیجا گیا کہ آپ جب ٹانکیں کھلوانے آئے تو یہ یہ خدمات دی گئیں اور ان کا خرچہ دو ہزار ڈالر ہے۔
وہ بل بھی جاکر اپنی سربراہ شعبہ کو دے دیا۔
تیسری بار پھر بل بھیجا گیا تو میں برہم ہوگیا اور جاکر ہسپتال انتظامیہ سے بات کی کہ آپ اچھی طرح جانتے ہیں کہ ہسپتال میں کام کرنے والوں کا علاج بلا معاوضہ کیا جاتا ہے تو پھر مجھے بار بار بل کیوں بھیجا جارہا۔
اس سارے قضیہ سے یہ واضح ہوگیا کہ ڈاکڑز اور ہسپتال انتظامیہ ہر ممکن طریقے سے آپ کا اخراجات کا بل بڑھانے کی کوشش کرتی ہے۔ کسی کو آپ کی تکلیف یا مسئلے سے کوئی سروکار نہیں۔
ہسپتال دراصل امریکہ کا ایک کامیاب ترین کاروباری شعبہ ہے۔ کاروبار کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔
انسانیت یا درد و الم سے ان سرمایہ کاروں کا کوئی لینا دینا نہیں۔
3 پر “امریکی ہسپتال کیسے ہوتے ہیں، جان کر آپکی آنکھیںکھلی کی کھلی رہ جائیں گی” جوابات
بہترین تحریر. چشم کشا، افسوسناک
آپکی تکلیف کا افسوس ھے لیکن تحریر دلچسپ ھے خاص کر اس طرح کی فقرہ سازی،
“ڈاکٹر صاحب نے غالبا اپنا ذلالت پروگرام کا کوٹہ پورا کرلیا تھا اس لیے انہوں نے رک جانا ہی مناسب سمجھا۔”
لیکن سچ تو یہ ھے کہ کینیڈا میں بھی ایسا ہی ھوتاھے یعنی بہت لمبا انتظار پھر علاج، لیکن فرق یہ ھے کہ بل عوام کو نہیں آتا حکومت کو جاتا ھے ۔کیونکہ عوام بہت ہائی ٹیکس پے کرتے ہیں۔ آپ کی تحریر سچی اور دلچسپ ھے۔
شکریہ زبیدہ صاحبہ
تحریر پسند کرنے کا شکریہ
ویسے ٹیکس تو نیویارک سٹیٹ میں بھی بہت زیادہ ہے۔