Talikng to Chairman Nab Javed Iqbal

چئیرمین نیب،جاوید چودھری ملاقات،جس نے ملکی سیاست میں تہلکہ مچادیا

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

معروف کالم نگار جاوید چودھری نے گزشتہ دنوں‌دو اقساط میں اپنے کالموں میں نیب کے چئیرمین جسٹس ر جاوید اقبال سے ایک ملاقات کا احوال لکھا، اس ملاقات میں ہونے والی گفتگو اس وقت پورے ملک میں‌زیربحث ہے۔ اپوزیشن جماعتیں‌اس گفتگو کے مندرجات کو اٹھائے ہوئے نیب پر چڑھ دوڑی ہیں، دوسری طرف نیب کے ترجمان نے کہا ہے کہ چئیرمین نیب نے کوئی انٹرویو نہیں‌دیا، تیسری طرف جاویدچودھری کہتے ہیں کہ وہ اپنے کالموں پر قائم ہیں۔

بعض حلقوں‌کا خیال ہے کہ یہ گفتگو پلانٹیڈ ہے جو چئیرمین نیب کو ہیروبنانے کی کوشش ہے تاہم فائلوں کی چوری سے متعلقہ گفتگو نے اس معاملے کو زیادہ سنگین بنادیاہے، ظاہر ہے کہ اب سوال اٹھیں گے کہ کس نے چوری کرائیں، چور ان فائلوں‌کے ساتھ کیا کریں گے؟

ذیل میں چئیرمین نیب جسٹس ر جاوید اقبال کی مکمل گفتگو دی جارہی ہے جو جاوید چودھری نے اپنے دوکالموں‌کی صورت میں پیش کی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میری چیئرمین نیب جسٹس جاوید اقبال سے پہلی ملاقات 2006ء میں ہوئی تھی۔ یہ اس وقت سپریم کورٹ کے سینئر جج تھے۔ میں جسٹس رانا بھگوان داس کے گھر جاتا رہتا تھا۔ یہ بھی وہاں آتے تھے اور یوں ان سے ملاقاتیں شروع ہو گئیں۔ یہ ریٹائرمنٹ کے بعد ایبٹ آباد کمیشن کے سربراہ بن گئے۔

مجھے ان دنوں اطلاع ملی وزیراعظم راجہ پرویز اشرف نے جسٹس جاوید اقبال کو 67 لاکھ روپے کا چیک بھجوایا لیکن جسٹس صاحب نے یہ لکھ کر یہ چیک واپس بھجوا دیا ’’ایبٹ آباد سانحے کی وجہ سے پورے ملک کا وقار خاک میں مل گیا‘ یہ میرے لیے قابل شرم ہے میں اس سانحے کی انکوائری کا معاوضہ لوں۔‘‘

میرے دل میں ان کا احترام بڑھ گیا۔ یہ بعد ازاں 8 اکتوبر2017ء کو چیئرمین نیب بن گئے۔ میری ان 19ماہ میں ان سے کئی مرتبہ ملاقات طے ہوئی لیکن کوئی نہ کوئی واقعہ ہو جاتا تھا اور یوں میٹنگ نہیں ہو پاتی تھی مگر بالآخر منگل 14 مئی 2019ء کو میری ان سے ملاقات ہو گئی۔

میں نیب ہیڈ کوارٹر میں ان کے آفس پہنچا تو یہ حسب معمول مطمئن بھی تھے اور ہائی اسپرٹ میں بھی۔

میں نے ان سے پوچھا ’’آپ کی پرانی ذمے داریاں مشکل تھیں یا یہ جاب؟‘‘

جسٹس جاوید اقبال نے جواب دیا:’’یہ زیادہ مشکل ہے کیونکہ اس میں ہر طرف سے دباؤ آتا ہے لیکن الحمد للہ میں سب کچھ برداشت کر جاتا ہوں۔ میری تین بیٹیاں ہیں۔ یہ اللہ کے کرم سے اپنے گھروں میں آباد ہیں۔ بیگم صاحبہ کے گھٹنوں کا آپریشن ہو چکا ہے۔ یہ سارا دن لیٹ کر ٹی وی دیکھتی ہیں اور مجھے سپریم کورٹ سے اتنی رقم اور پنشن مل جاتی ہے۔ جس سے میرا شاندار گزارہ ہو جاتا ہے۔ میری عمر 73 سال ہو چکی ہے۔ میں نے مزید کتنا عرصہ زندہ رہنا ہے چنانچہ کوئی ایشو نہیں‘‘

میں نے ان سے پوچھا ’’کیا آپ کو کوئی تھریٹ ہے؟‘‘

فوراً جواب دیا ’’بے شمار ہیں‘ہماری ایجنسیوں نے چند ماہ قبل دو لوگوں کی کال ٹریس کی‘ ایک بااثر شخص دوسرے بااثر شخص سے کہہ رہا تھا جسٹس کو پانچ ارب روپے کی پیشکش کر دو‘ دوسرے نے جواب دیا یہ پیسے لینے کے لیے تیار نہیں ہیں۔

پہلے نے کہا پھر اسے ڈرا دو‘ دوسرے نے جواب دیا‘ ہم نے اسے کئی بار ڈرایا‘ ہم نے اس کی گاڑی کا پیچھا بھی کیا‘ بم مارنے کی دھمکی بھی دی لیکن یہ نہیں ڈر رہا‘ پہلے نے کہا‘ اوکے پھر اسے اڑا دو‘‘

میں نے پوچھا ’’یہ کون لوگ تھے؟‘‘

جسٹس صاحب نے جواب دیا ’’یہ میں آپ کو چند ماہ بعد بتاؤں گا‘‘

میں نے اصرار کیا تو انھوں نے صرف اتنا بتایا ’’یہ لینڈ گریبرز اور سیاستدانوں کا مشترکہ منصوبہ تھا‘‘

میں نے عرض کیا ’’آپ کو پھر احتیاط کرنی چاہیے‘‘

جسٹس صاحب نے جواب دیا ’’میں نے احتیاط شروع کر دی لیکن احتیاط بے احتیاطی سے زیادہ خطرناک ثابت ہوئی‘ حکومت نے مجھے منسٹر کالونی میں گھر دے دیا لیکن یہ گھر بحریہ ٹاؤن میں میری ذاتی رہائش گاہ سے زیادہ خطرناک بن گیا۔

میں نے ابھی وہاں صرف دو کمرے ٹھیک کیے تھے اور اپنی چند فائلیں وہاں رکھی تھیں‘ میں لاہور گیا ہوا تھا‘ میری غیر موجودگی میں کسی نے گھر کی پچھلی کھڑکی کا جنگلہ اتارا‘ اندر داخل ہوا‘ تلاشی لی اور فائلیں چوری کر کے غائب ہو گیا‘‘

وہ رکے‘ میں نے پوچھا ’’اور یہ واقعہ منسٹر کالونی میں پیش آیا‘‘ وہ ہنس کر بولے ’’ہاں منسٹر کالونی کے بنگلہ نمبر 29 میں اور یہ پاکستان کی محفوظ ترین جگہ ہے اور پولیس فنگر پرنٹس کے باوجود مجرم تک نہیں پہنچ سکی‘‘

یہ میرے لیے وارننگ تھی چنانچہ میں اب اس گھر میں نہیں رہ رہا‘ میں سیکیورٹی کی وجہ سے کبھی اپنی بہن کے گھر رہتا ہوں‘ کبھی بیٹی کے گھر چلا جاتا ہوں اور کبھی اپنے کسی عزیز کی رہائش گاہ پر‘

میں نے کون سی رات کس گھر میں گزارنی ہے میں کسی کو نہیں بتاتا‘ میں احتیاطاً اپنا اسٹاف بھی ساتھ لے جاتا ہوں تا کہ ہم لوگ زیادہ ہوں اور اکٹھے ہوں‘‘

میں نے ان سے پوچھا ’’آپ کو کس سے خطرہ ہے‘‘ وہ بولے ’’میں نہیں جانتا لیکن مجھے محسوس ہوتا ہے میں اب سب کا ٹارگٹ ہوں۔ یہ تمام لوگ مجھے برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں‘‘

میں نے پوچھا ’’کیا موجودہ حکومت بھی آپ کے ساتھ خوش نہیں‘‘

یہ ہنس کر بولے ’’یہ بھی مجھ سے خوش نہیں ہیں‘ یہ بھی چاہتے ہیں عمران خان کا ہیلی کاپٹر کیس بند ہو جائے‘ بابراعوان کا ریفرنس‘ علیم خان اور فردوس عاشق اعوان کے خلاف تفتیش اور سب سے بڑھ کر پرویز خٹک کے خلاف مالم جبہ کی غیرقانونی لیز کی انکوائری رک جائے‘ پاکستان پیپلز پارٹی اور ن لیگ کی قیادت مجھے ویسے ہی اپنا دشمن نمبر ون سمجھتی ہے‘ لینڈ گریبرز بھی میرے خلاف ہیں اور ریاستی ادارے بھی خوش نہیں ہیں‘ یہ سب مل کر اب دباؤ بڑھانے کا کوئی آپشن نہیں چھوڑ رہے‘‘

میں نے پوچھا ’’مالم جبہ کا ریفرنس کب دائر ہو گا اور کیا پرویز خٹک بھی گرفتار ہوں گے‘‘۔

جسٹس جاوید اقبال نے پورے یقین کے ساتھ جواب دیا ’’یہ اب چند دن کی بات ہے‘ ریفرنس مکمل ہو چکا ہے‘ آپ بہت جلد پرویز خٹک کو بھی لاک اپ میں دیکھیں گے بس مجھے صرف ایک خطرہ ہے‘‘ وہ رکے اور ہنس کر بولے

’’میں صرف پرویز خٹک کی صحت سے ڈرتا ہوں‘ یہ اگر گرفتار ہو گئے اور انھیں اگر کچھ ہو گیا تو نیب مزید بدنام ہو جائے گا لیکن اس کے باوجود یہ ہو کر رہے گا‘ مالم جبہ کا ریفرنس تگڑا ہے‘ پرویز خٹک کو بھی اپنی کرپشن کا حساب دینا ہو گا‘‘۔

میں نے ان سے پوچھا ’’نیب نے صرف پنجاب کو فوکس کیوں کر رکھا ہے‘‘ وہ بولے ’’پنجاب بڑا صوبہ ہے‘ میاں برادران کسی نہ کسی شکل میں 30 سال پنجاب میں حکمران بھی رہے لہٰذا زیادہ تر میگا کیسز پنجاب میں ہوئے لیکن اس کا ہرگز ہرگز یہ مطلب نہیں ہم نے دوسرے صوبوں کو چھوڑ دیا‘

بلوچستان کے تین سابق چیف منسٹرز (ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ‘ نواب اسلم رئیسانی اور نواب ثناء اللہ زہری) انکوائریاں اور ریفرنس بھگت رہے ہیں۔

نواب اسلم رئیسانی کو نیب نے بلایا تو انھوں نے کہا آپ جانتے نہیں ہیں میں اپنے قبیلے کا سردار ہوں‘ میں نے اپنے افسر کے ذریعے پیغام پہنچایا وفاقی حکومت نے آپ کو 99 کروڑ روپے دیئے تھے‘ آپ نے یہ رقم چند لوگوں میں تقسیم کر دی‘ آپ کا پہلا چیک آپ کے بھائی کے اکاؤنٹ میں گیا تھا‘ آپ گرفتاری سے بچنا چاہتے ہیں تو آپ یہ رقم واپس کر دیں‘

نواب اسلم رئیسانی نے ہم سے تین ماہ کی مہلت مانگ لی‘ ہم نے دے دی‘ یہ اگر تین ماہ میں رقم واپس نہیں کرتے تو یہ بھی گرفتار ہوں گے‘ ہم نے سندھ میں بھی کسی کرپٹ کو نہیں چھوڑا‘ سندھ میں حکومت اور بیورو کریسی ہمارے ساتھ تعاون نہیں کر رہی تھی‘ سپریم کورٹ نے حکم دیا اور آصف علی زرداری اور فریال تالپور کے مقدمے راولپنڈی اور اسلام آباد شفٹ ہو گئے۔

یہ ضمانت پر ہیں‘ جس دن ضمانت منسوخ ہو گی یہ دونوں بھی گرفتار ہو جائیں گے‘ ریفرنس بہت پکے اور ٹھوس ہیں بس چند دن کی بات ہے‘‘

وہ رکے اور بولے ’’آصف علی زرداری جس دن انکوائری کے لیے پیش ہوئے تھے ان کی ٹانگیں اور ہاتھ لرز رہے تھے‘ انھوں نے گرین ٹی کا کپ مانگا‘ ہمارے افسر نے پیش کر دیا‘

آصف علی زرداری نے کپ اٹھایا لیکن کپ ان کے ہاتھ میں لرز رہا تھا‘ وہ اپنا دوسرا ہاتھ کپ کے نیچے رکھنے پر مجبور ہو گئے‘ وہ بڑی مشکل سے دونوں ہاتھوں کے ساتھ گرین ٹی کا کپ ختم کر پائے‘

شاید فریال تالپور کو خاتون ہونے کی وجہ سے رعایت مل جائے لیکن آصف علی زرداری نہیں بچ سکیں گے‘‘ وہ رکے اور بولے ’’میاں برادران کا ایشو بھی سیدھا اور سادا ہے۔

ہم نے میاں شہباز شریف کے داماد علی عمران کو بلا کر پوچھا صاف پانی کمپنی نے آپ کو 48 کروڑ روپے کی پے منٹ کیوں کی اور یہ آپ کے اکاؤنٹ میں جمع کیوں ہوئی؟ ہم نے کاغذات بھی اس کے سامنے رکھ دیئے‘ وہ بولا میں نے صاف پانی کمپنی کو اپنا پلازہ کرائے پر دیا تھا‘ یہ کرائے کی رقم تھی‘ ہم نے ان کو گھر جانے دیا‘

میں رات کو ٹیکسی لے کر علی عمران کے پلازے پر چلا گیا‘ وہ پلازہ ابھی زیر تعمیر تھا‘ پانچ منزلوں کی چھتوں کے کنکریٹ کو پانی دیا جا رہا تھا‘

ہم نے اگلے دن علی عمران کو دوبارہ بلا لیا‘ ہم نے اس سے پوچھا‘ آپ کا پلازہ ابھی زیر تعمیر ہے‘ یہ تین سال میں بھی مکمل نہیں ہو سکے گا لیکن آپ نے اس کا کرایہ وصول کر لیا‘ کیوں اور کیسے؟ علی عمران کے پاس کوئی جواب نہیں تھا‘ وہ گھر گیا اور اگلے دن دبئی بھاگ گیا۔

ہم نے سلمان شہباز کو بلا کر پوچھا‘ آپ کو اربوں روپے باہر سے کیوں آتے رہے‘ وہ بولے مجھے چند دن دے دیں میں اپنی فیملی اور اسٹاف سے پوچھ کر جواب جمع کرا دوں گا‘ ہم نے وقت دے دیا اور وہ بھی لندن بھاگ گئے‘

ہمارے پاس حمزہ شہباز شریف کے خلاف بھی تمام ثبوت موجود ہیں‘ حمزہ شہبازکا سوال نامہ میں نے خود اپنے ہاتھ سے ڈرافٹ کیا تھا‘ میں سیشن جج سے سپریم کورٹ کا سینئر جج رہا ہوں‘ میں نے عدالتی بیک گراؤنڈ کو سامنے رکھ کر سوال نامہ تیار کیا‘

یہ عدالتی آڑ کے پیچھے چھپ رہے تھے لیکن بینچ تبدیل ہو چکا ہے بس ان کی ضمانت منسوخ ہونے کی دیر ہے اور یہ بھی اندر ہوں گے‘ یہ بھی اگر ملک سے بھاگ نہ گئے تو!‘‘ میں نے ان سے پوچھا ’’

آپ کے بارے میں تاثر ہے آپ کی کلہاڑی صرف سویلین پر گرتی ہے‘‘ وہ تڑپ کر بولے ’’میں نے اپریل 2018ء میں جنرل جاوید اشرف کے خلاف رائل پام گالف کلب کا ریفرنس بنایا‘ کیا یہ سویلین ہیں‘ یہ آئی ایس آئی کے سابق ڈی جی ہیں۔

میرے ساتھیوں نے مجھے روکا لیکن میں نے ان سے کہا‘ ہم اگر انھیں چھوڑ دیتے ہیں تو پھر بیوروکریٹس اور سیاستدانوں کا کیا قصور ہے! ملیر ڈویلپمنٹ اتھارٹی میں بھی ریٹائرڈ فوجی افسروں کے نام آئے‘ ہم نے ان کے خلاف بھی انکوائری شروع کرا دی‘ یہ بھی حوالات میں جائیں گے‘

ڈی ایچ اے سٹی میں میرے اپنے 43 لاکھ روپے پھنس گئے تھے‘ یہ لوگ چیک لے کر میرے پاس آ گئے‘ میں نے ان سے کہا‘ آپ یہ چیک مجھے نہیں چیئرمین نیب کو دے رہے ہیں‘ میں نے چیک واپس کر دیا اور ان سے کہا‘ آپ پہلے دوسرے 1385 لوگوں کو پیسے واپس کریں‘ مجھے آخر میں چیک دیجیے گا‘ کیا یہ بھی سویلین ہیں؟

آپ اگلی بار آئیں گے تو میں نان سویلین ریفرنسز کی فہرست آپ کے سامنے رکھ دوں گا‘ ملک میں سب کا احتساب ہو رہا ہے‘ ہم نے کسی پارٹی اور کسی محکمے کو رعایت نہیں دی‘‘ میں نے ان سے پوچھا ’’کیا آپ کو خریدنے کی کوشش نہیں کی گئی تھی‘‘ وہ ہنس کر بولے ’’مجھے صدر پاکستان بنانے کی پیشکش تک ہوئی تھی‘‘ ۔

میرے لیے چیئرمین نیب جسٹس جاوید اقبال کا یہ انکشاف حیران کن تھا‘ وہ فرما رہے تھے ’’مجھے میرے ایک عزیز کے ذریعے پیشکش کی گئی آپ نیب سے استعفیٰ دے دیں‘ آپ کوسینیٹر بنا دیا جائے گا اور آپ پھر کچھ عرصے بعد صدر پاکستان بن جائیں گے‘‘

وہ خاموش ہو گئے‘ میں نے پوچھا ’’آپ کو یہ آفر کس نے دی اور کب دی‘‘ وہ مسکرا کر بولے ’’یہ میں آپ کو چند دن بعد بتاؤں گا‘‘۔

میں نے اصرار کیا تو ان کا جواب تھا ’’یہ پچھلی حکومت کے آخری فیز میں ہوئی تھی‘‘ میں نے پوچھا ’’کیا یہ واحد پیشکش تھی‘‘ بولے ’’نہیں‘ مجھے اس سے پہلے بھی ایک پیشکش ہوئی تھی‘ مجھے کہا گیا تھا آپ مستعفی ہو جائیں‘ آپ دنیا میں جہاں کہیں گے آپ کو وہاں سیٹ کر دیا جائے گا‘‘

میں نے پوچھا ’’لیکن آپ کے استعفے سے کسی کو کیا فائدہ ہوتا؟‘‘ وہ بولے ’’میں اگر مستعفی ہو جاتا تو چیئرمین نیب کی کرسی خالی ہو جاتی‘الیکشن سے پہلے پاکستان پیپلز پارٹی اور ن لیگ کے درمیان شدید اختلافات تھے۔

دونوں میں نئے چیئرمین کے لیے اتفاق رائے نہ ہوپاتا اور یوں آج کے بے شمارمجرموں کے خلاف انکوائریاں رک جاتیں‘‘ میں نے پوچھا ’’آپ کا کیا جواب تھا‘‘ وہ ہنس کر بولے ’’جواب واضح تھا‘ میاں نواز شریف اس وقت جیل میں ہیں اور میں آج بھی چیئرمین کی کرسی پر بیٹھا ہوں‘‘

میں نے عرض کیا ’’وفاقی وزراء بار بار این آر او کی بات کر رہے ہیں‘ کیا میاں برادران کی طرف سے این آر او یا رعایت کی درخواست کی گئی‘‘ وہ رکے‘ چند سیکنڈ سوچا اور پھر جواب دیا ’’میاں شہباز شریف کی طرف سے ایک پیشکش آئی تھی‘

یہ سیاست سے ریٹائر ہونے اور رقم واپس کرنے کے لیے تیار تھے لیکن ان کی تین شرطیں تھیں‘‘ یہ رکے اوربولے ’’یہ رقم خود واپس نہیں کرنا چاہتے تھے‘ ان کا کہنا تھا کوئی دوسرا ملک پاکستان کے خزانے میں رقم جمع کرا دے گا‘ دوسرا انھیں کلین چٹ دے دی جائے اور تیسرا حمزہ شہباز کو پنجاب کا وزیراعلیٰ بنا دیا جائے‘‘

وہ رکے اور بولے ’’میاں شہباز شریف نے اس سلسلے میں نیلسن منڈیلا اور ٹروتھ اینڈ ری کنسی لیشن کمیشن کی مثال دی تھی لیکن میرا جواب تھا جنوبی افریقہ کے ٹروتھ اینڈ ری کنسی لیشن کمیشن کی چار شرطیں تھیں‘ مجرم اپنا جرم مانیں‘ ریاست سے معافی مانگیں۔

پیسہ واپس کریں اور آئندہ غلطی نہ دہرانے کا وعدہ کریں لیکن میاں صاحب کہہ رہے ہیں یہ اپنا جرم نہیں مانیں گے اور معافی بھی نہیں مانگیں گے‘یہ صرف پیسہ واپس کریں گے اور وہ بھی خود نہیں دیں گے کوئی دوسراشخص یا کوئی دوسرا ملک جمع کرائے گا تو پھر پاکستان کو کیا فائدہ ہو گا چنانچہ یہ پیشکش قابل قبول نہیں تھی‘‘

وہ رکے اور بولے ’’میاں نواز شریف اور ان کا خاندان بھی اس قسم کے ارینجمنٹ کے لیے تیار تھا‘‘ وہ خاموش ہو گئے‘ میں نے پوچھا ’’سر میاں برادران نے یہ پیشکش کس کے ذریعے کی‘ کس کو کی اور کب کی‘‘

وہ فوراً بولے ’’یہ میں آپ کو چند دن میں بتاؤں گا‘‘ میں نے ہنس کر عرض کیا ’’آپ ہر سوال کے جواب میں چند دن کہتے ہیں‘ آپ چند دن میں کہیں مستعفی تو نہیں ہو رہے؟‘‘ وہ ہنس کر بولے ’’میں خود نہیں بھاگوں گا‘ میں اپنی مدت پوری کروں گا باقی جو اللہ کرے‘‘۔

میں نے سوال تبدیل کرتے ہوئے پوچھا ’’کیا آپ پر دباؤ ہے‘‘ وہ فوراً بولے ’’ہاں ہے‘ اپوزیشن اور حکومت دونوں ناراض ہیں‘ آپ کواگلے چند دنوں میں نیب کے خلاف ن لیگ‘ پیپلز پارٹی اور پاکستان تحریک انصاف تینوں ایک پیج پر دکھائی دیں گی‘‘

میں نے پوچھا ’’کیا آپ سب کا دباؤ برداشت کر لیں گے‘‘ وہ بولے ’’میرے پاس کھونے کے لیے کچھ نہیں‘ میں ملک کے لیے اپنا کردار ادا کر رہا ہوں اور میں آخری سانس تک کرتا رہوں گا‘‘ میں نے پوچھا ’’کیا آپ کو احساس ہے نیب کی وجہ سے بیورو کریسی اور بزنس کمیونٹی دونوں نے کام چھوڑ دیا ہے‘ ملک کی معیشت تباہ ہو گئی ہے‘‘

وہ فوراً بولے ’’یہ نیب کے خلاف پروپیگنڈا ہے‘ میں نے وفاقی بیورو کریسی اور پنجاب بیورو کریسی دونوں کو یقین دلایا تھا آپ کے خلاف کوئی نوٹس جاری نہیں ہو گا‘ آپ کام کریں‘ میں نے تاجر اور صنعت کار برادری کو بھی پیشکش کی آپ کو اگر نیب کے خلاف کوئی شکایت ہو تو آپ فوراً میرے ساتھ رابطہ کریں‘

جاوید صاحب یقین کریں میری پیشکش کو آج چار ماہ اور 17 دن ہو چکے ہیں لیکن مجھے بیورو کریسی اور تاجر برادری دونوں کی طرف سے ایک بھی شکایت موصول نہیں ہوئی‘ میں نے پورے نیب کو حکم جاری کر رکھا ہے یہ 17گریڈ سے اوپر کسی سرکاری افسر کو میری اجازت کے بغیر طلب نہیں کریں گے۔

بزنس مین کمیونٹی کو بھی میری اجازت کے بغیر طلب کرنے سے روک دیا گیا ہے چنانچہ یہ ہمارے خلاف سراسر پروپیگنڈا ہے‘‘

میں نے پوچھا ’’کیا آپ پولیٹیکل انجینئرنگ کے لیے استعمال نہیں ہو رہے‘ آپ حکومت کے مخالفین کو پکڑ لیتے ہیں اور حکومت کا ساتھ دینے والوں کو چھوڑ دیتے ہیں‘‘ وہ ہنس کر بولے ’’میں پورے ملک کو چیلنج کر رہا ہوں میں نے اگر کسی ایم پی اے یا ایم این اے سے کہا ہو آپ فلاں کو چھوڑ کر فلاں کو جوائن کر لیں یا میں نے کسی عوامی نمائندے سے چائے کا ایک کپ بھی پیا ہو تو میں خود استعفیٰ دے کر گھر چلا جاؤں گا‘ آپ وہ شخص لے آئیں‘ میں عہدہ چھوڑ دوں گا‘‘

وہ رکے اور ذرا سا سوچ کر بولے ’’تاہم یہ درست ہے ہم اگر آج حکومت کے اتحادیوں کو گرفتار کر لیں تو یہ حکومت دس منٹ میں گر جائے گی لیکن خدا گواہ ہے ہم یہ حکومت کے لیے نہیں کر رہے‘ہم یہ ملک کے لیے کر رہے ہیں‘ ہمارے ایک قدم سے ملک میں خوفناک بحران پیدا ہو جائے گا‘ ملک کو نقصان ہو گا اور ہم یہ نہیں چاہتے‘‘

میں نے پوچھا ’’کیا حکومت اپنے اتحادیوں کو بچانے کی کوشش کر رہی ہے‘‘ وہ ہاں میں سر ہلا کر بولے ’’یہ ان کی خواہش ہے لیکن میں حکومت کے دباؤ میں نہیں ہوں‘ میں صرف ملک کے مفاد میں خاموش ہوں لیکن اس کا ہرگز ہرگز یہ مطلب نہیں انکوائری یا ریفرنس تیار نہیں ہو رہے۔

نیب کی تیاری مکمل ہے‘جلد یا بدیر حکومت کے اتحادیوں کے خلاف بھی کارروائی ہو گی‘‘ میں نے عرض کیا ’’آپ ریفرنس بنا دیتے ہیں لیکن یہ ریفرنس منطقی نتیجے تک نہیں پہنچتے‘ کیا یہ آپ لوگوں کی نااہلی نہیں‘‘ وہ ہنس کر بولے

’’مجھے آپ لوگوں کے ایسے تجزیوں پر اعتراض ہے‘ ہمارے پاس شکایت آتی ہے‘ ہم شکایت کی پڑتال کرتے ہیں‘ شکایت ٹھیک ہو تو انکوائری ہوتی ہے‘ ثبوت جمع کیے جاتے ہیں‘ تفتیش ہوتی ہے اور پھر ریفرنس بنا کر مقدمہ عدالت میں پیش کر دیا جاتا ہے‘ کیس وہاں جا کر رک جاتے ہیں‘ نیب نے اس وقت ساڑھے تین ہزار ریفرنس دائر کر رکھے ہیں‘

ہمارے پاس عدالتیں صرف 25 ہیں‘جج تیس دن میں فیصلے کا پابند ہے لیکن دس دس سال سے مقدمے لٹک رہے ہیں‘ ہمارے وکیل 75 ہزار سے ڈیڑھ لاکھ روپے تنخواہ لیتے ہیں‘

مخالفین دس دس کروڑ روپے کے وکیل کھڑے کر دیتے ہیں‘ ہمارے ایک کیس میں ملزم نے علی ظفر کو 25 کروڑ روپے فیس دی تھی جبکہ ہمارے وکیل عمران کی ماہانہ تنخواہ ڈیڑھ لاکھ روپے تھی‘

آپ فرق دیکھ لیجئے‘ دوسرا کرپٹ لوگ گینگ کی شکل میں کام کرتے ہیں‘ یہ بااثر اور رئیس لوگ ہوتے ہیں‘ یہ ایک دوسرے کو سپورٹ بھی کرتے ہیں‘ یہ عدالتوں سے بھی ریلیف لے لیتے ہیں۔

یہ حکومتوں میں بھی شامل ہو جاتے ہیں اور یہ پورے سسٹم کو بھی ہائی جیک کر لیتے ہیں اور یوںاحتساب بے بس ہو جاتا ہے لیکن ہم نے اس کے باوجودساڑھے تین ہزارریفرنس بھی دائر کیے اور303ارب روپے کی ریکوری بھی کی‘ یہ چھوٹا کارنامہ نہیں‘ یہ نیب ہے جس کے خوف سے ملک ریاض نے سپریم کورٹ میں 460 ارب روپے ادا کرنے کا اعلان کیا‘

ہم نہ ہوتے تو یہ کبھی اتنی بڑی رقم کا وعدہ نہ کرتے‘ یہ ہم ہیں جن کی وجہ سے لاکھوں غریب لوگوں کو ان کی ڈوبی ہوئی رقم واپس ملی‘ آپ ہاؤسنگ سکیموں کے سکینڈل اٹھا کر دیکھ لیں‘ ہزاروں غریب لوگوں کو ان کی پوری زندگی کی جمع پونجی واپس ملی لیکن میڈیا کو یہ نظر نہیں آتا‘ آپ لوگ ہمیں نواز شریف‘ شہباز شریف‘ آصف علی زرداری اور بابر اعوان کے ریفرنس سے دیکھتے ہیں‘ ملک میں آوے کا آوا بگڑا ہوا ہے‘

یہ ملک کرپشن کی دلدل میں دھنستا جا رہا ہے‘ یہ ہماری ماضی کی غلطیاں اور بدعنوانیاں ہیں جن کی وجہ سے ہم آج در در بھیک مانگ رہے ہیں‘ ہم اگر اس دلدل سے نکلنا چاہتے ہیں تو پھر ہمیں ملک کو کرپشن سے پاک کرنا ہوگا ورنہ دوسری صورت میں ہم ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ختم ہو جائیں گے‘‘۔

میں نے سوال کیا ’’ملک ریاض کا کیا قصور ہے‘‘ وہ بولے‘ میں اس شخص کا فین ہوں‘ میں خود بحریہ ٹاؤن میں رہتا ہوں‘ میرا بھانجا آسٹریلیا سے آیا‘ اس نے بحریہ ٹاؤن دیکھا اور بے اختیار کہا‘ یہ مجھے کینبرا جیسا لگتا ہے‘ میں بھیس بدل کر اس کے دستر خوان تک میں گیا‘ میں نے عام لوگوں کے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھایا‘

آپ یقین کریں وہ کھانا میری بیوی کے ہاتھوں سے پکے ہوئے کھانے سے بہتر تھا‘ میں سمجھتا ہوں ملک ریاض کو مزید کام کرنے کا موقع ملنا چاہیے تھا لیکن میں اس کے باوجود یہ بھی کہتا ہوں ملک ریاض نے بھی اگر گڑ بڑ کی ہے تو یہ بھی سزا بھگتیں گے۔

سپریم کورٹ جس دن ان کا کیس ہمارے حوالے کرے گی ہم اس دن انھیں بھی کوئی رعایت نہیں دیں گے‘ میں نے پوچھا ’’اور احد چیمہ اور فواد حسن فواد کا کیا قصور تھا‘‘ وہ ہنس کر بولے ’’ایک کو تکبر لے بیٹھا اور دوسرے نے سفارشیں شروع کرا دی تھیں‘‘

اورمیں نے آخری سوال کیا ’’آپ باہر سے رقم واپس کیوں نہیں لا رہے‘‘ وہ ہنس کر بولے ’’باہر کی طاقتیں ہمارے کرپٹ لوگوں کی مدد کر رہی ہیں‘ یہ لوگ ان کو سپورٹ کر رہے ہیں‘‘۔

ملاقات ختم ہوگئی‘ وہ مجھے دروازے تک چھوڑنے آئے‘ گرم جوشی کے ساتھ ہاتھ ملایا اور میں باہر آ گیا‘ مجھے محسوس ہوا یہ کرپشن کے خاتمے میں سنجیدہ ہیں‘ یہ دل سے غیرجانبدارانہ احتساب چاہتے ہیں‘ یہ سمجھتے ہیں کرپشن اور ملک دونوں اکٹھے نہیں چل سکتے اور یہ کسی پارٹی‘ کسی شخص اور کسی محکمے کو سپورٹ کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں لیکن سوال یہ تھا یہ غیرجانبدار رہ کر کتنا عرصہ سروائیو کر سکیں گے؟

مجھے محسوس ہوا یہ بھی بہت جلداسد عمر بنا دیئے جائیں گے‘ یہ بھی زیادہ دیر تک نہیں ٹک سکیں گے۔(بشکریہ روزنامہ ایکسپریس)


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں