عمرعبدالرحمٰن جنجوعہ۔۔۔۔۔۔
ایک سوال میرے ذہن میں محو گردش تھا، رمضان المبارک میں رب تعالی شیطان کو قید کر تے ہیں تو پھر زمین پر فساد،بدامنی،ذخیرہ اندوزی اور زناوزیادتی جیسے واقعات عام دنوں سے زیادہ کیوں ہوتے ہیں؟
اس کا جواب اسی ماہ صیام 20مئی کی رات کو ملا، جب شیطان نما انسان نے زمین پر موجود فرشتہ کو نہ صرف نوچا بل کہ لاش کو درندوں کے سپرد کردیا۔ فرشتہ اپنے پڑوس میں افطاری دینے گئی پھر اس کاواپس لوٹنا حسرت رہ گیا۔
گھر والوں نے کافی تلاش کیا لیکن انہیں کیا معلوم تھا کہ 15مئی کا غروب آفتاب فرشتہ کی زندگی کو بھی غروب کر گیا۔جب فرشتہ کا کچھ پتہ نہ چلا توفیملی نے محافظوں کا دروازہ کھٹکھایا۔
فرشتہ کے بھائی اس بارے میں بتاتے ہیں کہ جب ہم تھانے پہنچے تو ایس ایچ اپنے کمرے میں بچوں کے ساتھ کھیلنے میں مصروف تھا، ہم نے دہائی دی محترم! ہماری بہن کا کچھ پتا چلا؟ میری ماں کو غشی کے دورے پڑ رہے ہیں۔
موصوف نے ہتک آمیز رویہ اپناتے ہوئے کہا کہ جاﺅ! اسے تلاش کرو، ہو سکتا ہے اپنے عاشق کے ساتھ بھاگ گئی ہو۔ ذرا سوچیے! 10سال کی معصوم کلی کے بارے میں ایسے بیہودہ الفاظ اس پریشان حال خاندان کے لئے کتنے کرب ناک ہوں گے۔
محافظوں کے ہجوم میں موجود ایسی کالی بھیڑیں پورے ہجوم کو داغ دار کر تی ہیں ۔ زیادہ دیر نہیں گزری تھی کہ فرشتہ کے خاندان کو خبر ملی کہ قریب کھیتوں سے ایک بچی کی لاش ملی ہے ، وحشی درندوں نے اسے نوچ کھایا لہذا پہچان ناممکن ہے ۔
جب یہ بات “دشمنان پاکستان” تک پہنچی تو انہوں نے سوشل میڈیا کے ذریعے احتجاج کی کال دی چند لمحوں میں نہ صرف پاکستا ن بل کہ دنیا بھر کے عوام میں غم و غصہ کی لہر دوڑ گئی، احتجاج ہوا،ریاست مخالف تقاریر ہوئی،فرشتہ مہمند کو افغان ثابت کرنے کے لئے چند نشریاتی اداروں نے اپنی پوری سعی کی۔
بعدازاں انہیں منہ کی کھانی پڑی، یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ پشتون تحفظ موومنٹ کو کس بات نے مجبور کیا کہ وہ اس کے بارے میں احتجاج کریں۔ پولیس کی بے حسی، سستی اور ہتک آمیز رویے نے پی ٹی ایم کو رستہ فراہم کیا۔پولیس کی سُستی معصوم فرشتہ کی جان بھی لے گئی۔
قارئین کرام! آخر کیا وجہ ہے کہ آئے روز ہماری معصوم کلیاں نہ صرف زیادتی کا شکار ہوتی بل کہ بے دردی کے ساتھ انہیں مار بھی دیا جاتا ہے ۔
ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں سالانہ ایک ہزار سے زائد بچیوں کا ریپ ہوتا ہے، آبادی کے لحاظ سے دنیا کے چھٹے بڑے ملک پاکستان میں اوسطاً ایک ہزار سے زائد بچیاں اغوا ہونے کے بعد ریپ اور اجتماعی جنسی زیادتی کا نشانہ بنائی جاتی ہیں، یہ اعدادو شمار وہ ہیں جو پولیس کو رپورٹ کیے جاتے ہیں ۔
اس کے بڑے اسباب کئی ہیں ،سماجی نفسیاتی اور عمرانیاتی ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ پاکستان میں جرائم کے ارتکاب کے بڑے اسباب غربت،بے روزگاری ،سماجی طور پر عزت اور غیرت کا تصور اور انصاف کی فراہمی کے نظام میں پائی جانے والی خرابیاں ہیں۔
متعدد ماہرین کے مطابق انفرادی اخلاقی سطح پر خود احتسابی کی کمی اور معاشرے میں موجود گھٹن اور محرومی کے احساس کو بھی ایسے جرائم کے اسباب کی فہرست سے خارج نہیں کیا جا سکتا۔
پاکستان میں غیر سرکاری تنظیم ‘ساحل’ اس طرح کے جرائم سے متعلق ہر سال ایک رپورٹ جاری کرتی ہے ۔ اس تنظیم کی دو ہزاراٹھارہ کی رپورٹ کے مطابق 3832بچوں سے زیادتی کے واقعات اخبارات میں رپورٹ ہوئے جو 2017میں 3445واقعات سے زیادہ ہیں۔ متاثرین میں 6سے 15سال عمر تک 55فیصد لڑکیاں اور 45فیصد لڑکے شامل ہیں یومیہ 10بچے نشانہ بن رہے ہیں۔ 923واقعات میں بچوں کو قتل کر دیا گیا۔
معصوم پھولوں کے ساتھ جنسی زیادتی ایک ایسا موضوع ہے جسے ہم نظر انداز کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہر سانحے کے بعد ہم دوسرے سانحے کا انتظار کرتے ہیں۔ کچھ دنوں کا شور،جس میں اصلاحات کے پلندے بھر دیتے ہیں لیکن نفاذ ہوتاکہیں نظر نہیں آتا۔زینب کیس کے بعد ایسا محسوس ہوا تھا کہ شائد اس کے بعد ایسا واقعہ رونما نہیں ہوگا۔افسوس کے اس کے بعد فریال ، فرشتہ ایسے سینکڑوں معصوم بچے سفاکیت کا شکار ہوئے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ ریاست اس حوالے سے بنائے جانے والے قانون میں اصلاحات کرتے ہوئے انہیں سخت سے سخت ترین بنائے تاکہ پھر کسی شیطان کو ہمت نہ ہو کہ وہ معصوم فرشتوں کو نوچ کھائے۔ حال ہی میں ماڈل کورٹس کا قیام عمل میں لایا گیا جس میں کیس کے فیصلے فوری ہو رہے ہیں یہ خوش آئند عمل ہے۔
زیادتی کیس کے حوالے سے بھی ایسی الگ عدالتیں بنائی جائیں ۔جہاں فوری سزادینا کا تصور ہو۔ مجرم ثابت ہونے پر سرعام پھانسی کا قانون وقت کی اشد ضرورت ہے اگر ایسا ہو جائے تو امید ہے ایسے گھناﺅنے فعل کرنے کے لئے شیطان ہزار بار سوچے گا۔
ایک تبصرہ برائے “پی ٹی ایم فرشتہ زیادتی کیس کے پیچھے کیوں کھڑی ہوئی؟”
ایسے واقعات کی روک تھام کے لیے پولیس کا نظام بہتر کرنے کی ضرورت ہے پولیس کی کاروائی انصاف پر مبنی نہیں ہوتی یہاں دہائی دینے والے کو پہلے دیکھا جاتا ہے یہ بلوچی ہے پٹھان ہے سندھی ہے افغانی ہے یا پنجابی ہے ان کےعلاوہ اگر امیر ہے تو بروقت کاروائی ہو گی اگر غریب ہے تو ذلیل کیا جائے گا.معاشرے کے ایسے ناصور سے چھٹکارے کا ایک ہی حل ہے وہ موجوده نظام کا متبادل نظام شرعیت ہے اگر شرعیت کے مطابق زینب کے قاتل کو سنگسار کیا جاتا تو میں یقین سے کہتا ہوں ہزاروں زینب انسان نما درندوں سے بچ جاتیں جب تک یہ نظام ہے ایسے واقعات ہوتے رہیں گے اب بھی وقت کے ایسے واقعات کی روک تھام کے لیے موثر نظام بنایا جائے اور کالی بھیڑوں کو لگام ڈالی جائے.