مدیحہ مدثر۔۔۔۔۔۔۔۔۔
امی کی ممانی جان کی ٹانگ ٹوٹ گئی،اطلاع ملی تو یکدم دل بے حدافسردہ ہوا کہ وہ بہت چاق و چوبند اور متحرک خاتون ہیں۔ انھیں اس طرح بسترِ علالت پہ کبھی نہ دیکھا سو دکھ فطری عمل تھا۔ طے ہوا کہ ذرا ان کے مہمانوں کا رش تھمے تو ہم رختِ سفر باندھیں۔
مجھے یاد آنے لگا کہ جب میری اماں کی ٹانگ کا آپریشن ہوا، میں ہسپتال میں اکیلی تھی، امی کے لیے خون کی ضرورت تھی، بلڈ بنک سے بہت کوشش کے باوجود نہیں مل رہا تھا اور آپریشن کی تاریخ آگے جانے کا خدشہ خون کی عدم دستیابی کی صورت میں بدرجہ اتم موجود تھا۔ ایسے میں میری پریشانی و بے چینی دیدنی تھی۔
امی کے پاس گئی اور ساری صورتحال بتائی۔ وہ کہنے لگیں: گوجرانوالہ قریب ہے حسین سے کہو وہ کچھ کرے۔۔۔۔لاہور بھی اس کے لیے انتظام کرنا مشکل نہ ہو گا (انہی ممانی کے بیٹے ہیں حسین جن کی عیادت کو آئے تھے ہم)
میں متذبذب سی تھی کہ آج تک انھیں کوئی کام نہ کہا تھا اور اب ایمرجنسی کام آن پڑا تھا تو جھجھک فطری تھی۔
جنوری کی سرد ترین ٹھٹھرتی صبح تھی،ہسپتال کے اندر سگنلز نہیں آ رہے تھے۔ میں تیز تیز قدم اٹھاتی کوریڈور سے باہر آئی اور حسین ماموں کو فون کیا۔نیند میں ڈوبی آواز میری روہانسی آواز سن کر یکدم بیدار ہو گئی۔
میں نے مدعا بیان کیا اور میری توقع سے بڑھ کر مجھے اچھا جواب ملا۔ فورًا بولے:” میں ابھی کچھ کرتا ہوں”۔ میں نے کہا:” مجھ پہ احسان ہو گا حسین ماموں۔۔۔۔”ڈپٹ کر بولے:” فضول مت بولو۔۔۔۔۔”
شاید ان کے لیے وہ انتظام کرنا بڑا کام نہ ہو۔شاید وہ بھول بھی چُکے ہوں لیکن میں آج تک وہ ٹھٹھرتی صبح نہیں بُھلا سکی۔۔۔۔۔۔دل میں ان کی عزت اور پیار بڑھ گیا۔
میں سوچنے لگی کہ خالق کے احسان شدت سے اور محبت سے ہر وقت یاد رہنے لگیں تو عمل خود بہ خود بدلنے لگے۔
آج گوجرانوالہ سے واپسی پہ ایک پُر لطف دورے کا احساس ہورہا ہے کہ حسین ماموں کی اہلیہ نے بہترین مہمان نوازی کی اور ان کے نٹ کھٹ بیٹوں کے ساتھ ہم بہت خوش رہے۔
سفر وسیلہ ظفر کا تجربہ بھی ہوا کہ ہمیں بہت آرام دہ جوتے مل گئے باٹا سے۔