مدثرمحمودسالار، کالم نگار

زبان غیر سے کیا شرحِ آرزو کرتے

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

مدثر محمود سالار۔۔۔۔۔۔۔
ایک حدیث سنی تھی کہ اگر کسی قوم کے شر سے محفوظ رہنا چاہتے ہو تو ان کی زبان سیکھ لو۔ اس بات کے حدیث ہونے کا میرے پاس کوئی مستند ثبوت نہیں ہے کیونکہ سنی سنائی ہے کہیں پڑھی نہیں مگر یہ بات مجھے حقیقت کے قریب تر لگتی ہے۔

آج کل دنیا کی سب سے زیادہ مستعمل زبان انگریزی ہی ہے۔وطنِ عزیز میں تو دفتری اور قومی زبان انگریزی ہی ہوگئی، اردو بے چاری اب تو اپنا وجود برقرار رکھنے کی کوشش کرتے کرتے ہانپنے لگی ہے۔

ہمارے ہاں تو تعلیم یافتہ ہونے کی پہلی نشانی ہی انگریزی زبان ہوگئی ہے۔ خصوصاً نجی تعلیمی اداروں میں فوقیت انگریزی ہی کو حاصل ہے۔ جب طلباء تمام مضامین انگریزی میں پڑھیں گے تو ان کی اردو زبان پر گرفت کمزور ہوجائے گی اور روز مرہ کی مستعمل اصطلاحات سے نابلد رہیں گے۔

میں بذات خود اپنی اردو زبان دانی کو بہترین تو نہیں کہہ سکتا مگر میں بات چیت اور لکھتے وقت اردو کو فوقیت دیتا ہوں اور حتی الوسع کوشش ہوتی ہے کہ انگریزی کے بجائے اردو کے الفاظ کا ہی استعمال کروں۔

دوسری طرف انگریزی کے حوالے سے میرے حالات ہمیشہ ہی پتلے رہے ہیں۔گوکہ دوست احباب اور اقربا کو اب بھی ہماری انگریزی دانی پر اعتراض رہتا ہے مگر مجھے کبھی اپنی اس کمزوری پر ندامت نہیں ہوتی۔

ابتدا میں یونیورسٹی میں دوران تعلیم کبھی کبھار خیال آتا تھا کہ انگریزی زبان کا کورس کرلیا جائے اور غالبا ایک ماہ ایک جگہ کورس کرنے جاتے رہے مگر جتنا وہاں پڑھایا جاتا تھا اتنی انگریزی تو ہم جانتے ہی تھے اس لیے وہ سلسلہ بھی ایک ماہ میں ختم ہوگیا۔ اس دن کے بعد دوبارہ کبھی انگریزی زبان کے کورس کا خیال بھی نہیں آیا۔

اب عصر حاضر میں انگریزی کے بغیر گزارا کرنا بھی مشکل ہوگیاہے، تعلیم چونکہ عربی زبان میں حاصل کی تھی تو یہ خیال تو خواب میں بھی نہیں آیا تھا کہ کبھی انگریزی ہمارا اوڑھنا بچھونا بن جائے گی۔اس طرح عربی اردو اور فارسی ادب و زبان سے شغف نے انگریزی سے کوسوں دور رکھا۔

اب ذرا ملاحظہ فرمائیں کہ کارزارِ حیات میں انگریزی زبان کے ساتھ کیا کیا کھلواڑ ہم کرتے رہے ہیں اور الحمد اللہ اپنے تمام کرتوتوں پر نادم نہیں بلکہ مطمئن ہیں۔

ایک مرتبہ چھوٹے بھائی کو بیماری کی یا ویسے چھٹی کی درخواست لکھوانی تھی اور مابدولت گھر میں موجود تھے، پہلے تو ٹال مٹول کی مگر امی جی کے اصرار پر چاروناچار انگریزی میں چھٹی کی درخواست لکھ دی، بھائی صاحب نے کچھ دن بعد بتایا کہ ٹیچر پوچھ رہیں تھیں یہ درخواست کس نے لکھی تھی اور جب میں نے بتایا کہ بڑے بھائی نے تو کہہ رہی تھیں ساری درخواست غلط لکھی تھی۔اب بندہ ان استادوں کو کیا سمجھائے کہ عربی پڑھنے والے سے آپ انگریزی اچھی لکھنے کی امید کیونکر رکھ سکتے ہیں؟

ایک مرتبہ تو ہم نے انگریزی میں اپنی مہارت کے ایسے دریا بہائے کہ سامنے والا ہاتھ جوڑنے لگ گیا کہ بھائی! بس کردو ورنہ ہم تو اس انگریزی دانی میں ڈوب جائیں گے، ہوا کچھ یوں تھا کہ ایک آن لائن ٹیچنگ جاب کے لیے انٹرویو دینے گئے تو دوست سے دو چار جملے کاغذ پر لکھوا کرلے گئے اور سارا رستہ وہی یاد کرتے گئے۔

انٹرویو لینے والے صاحب بھی زیادہ ہی فری ہوگئے اور مسلسل سوال کرتے گئے، اب مابدولت لگاتار انگریزی بولے جارہے ہیں اور ہر طرح کے قواعد و ضوابط کو بالائے طاق رکھ کر انگریزی کا قتل عام کررہے تھے،

اچانک انٹرویو لینے والے نے پوچھا کہ اسلام میں سیکٹرازم کے متعلق آپ کی کیا رائے ہے؟ اب مجھے تو یہ بھی سمجھ نہیں آئی کہ انہوں نے کون سا ازم پوچھا۔ دوبارہ پوچھا کہ معذرت میں سمجھا نہیں کہ آپ کیا پوچھ رہے؟
وہ بولے
اسلام میں سیکٹرازم کے متعلق آپ کی کیا رائے ہے؟
لیں جناب ہمیں جو لفظ سمجھ آیا اس کا جواب فورا شروع کردیا۔۔۔

ہم بولے:
جناب اسلام نے ہمیں سیکس ازم کا بہترین طریقہ بتایا ہے اور اسلام میں سیکس نکاح سے پہلے ممنوع ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ابھی ہمارا لیکچر شروع ہی ہوا تھا تو وہ ہنستے ہوئے بولے رکو میں نے سیکس کا نہیں سیکٹ کا پوچھا ہے۔

اب آپ خود اندازہ لگالیں ہم اردو کی محبت میں انگریزی سے کتنے دور رہتے تھے۔
زبان سیکھیں اور اس سے فائدہ بھی اٹھائیں مگر اپنی اصل زبان مت بھولیں۔

جس محفل میں لوگ اردو بولنے اور سمجھنے والے ہوں وہاں خوامخواہ غیروں کی زبان استعمال کرنے کی ضرورت نہیں۔ اپنی زبان پر فخر کرنا سیکھیں۔


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں

ایک تبصرہ برائے “زبان غیر سے کیا شرحِ آرزو کرتے”

  1. عنایت اللہ کامران Avatar
    عنایت اللہ کامران

    اچھی کاوش ہے… پریکٹس جاری رکھیں… ہوسکتا ہے انگریزی آجائے آپ کو….