زرداری کے دعوے اور مریم نوازشریف کے چیختے چنگھاڑتے خطابات کیا معنی رکھتے ہیں؟
عبیداللہ عابد۔۔۔۔۔۔۔۔
معروف بلاگر جین سارترے نے ایک واقعہ لکھا ہے :
“سن 80 کی دہائی میں ایک لطیفہ مقبول تھا کہ دبئی کے کسی سینما گھر میں فلم شروع ہونے سے پہلے اشتہارات چل رہے تھے جن میں پی آئی اے کا اشتہار پردے پر آیا تو گیلری میں بیٹھے پاکستانی تماشائیوں نے تالیوں اور سیٹیوں سے چھت سر پر اٹھا لی۔
اتفاقاً فلم کے دوران وقفے میں ائر انڈیا کا اشتہار بھی آ گیا تو نچلے ہال میں بیٹھے بھارتی تماشائی بھی تالیاں پیٹنے، سیٹیاں بجانے لگے۔ ایک پاکستانی اپنی نشست سے اٹھا اور گیلری کی ریلنگ سے جھک کر دھاڑا:
اوئے بند کرو ایہہ کنجر خانہ!
ایک لحظے کے لیے تو ہال میں سناٹا چھا گیا۔ پھر کسی بھارتی نے ہمت کر کے کہا:
تم نے بھی تو اپنی باری پر شور مچایا تھا۔
پاکستانی مسکرا کر بولا:
ساڈی گل ہور اے۔
آج بھی ہر سیاسی جماعت والے دوسری جماعت کی خواتین کو جی بھر کے ذلیل کرنے کے بعد اپنی خواتین کے احترام کا درس دیتے ہوئے دل میں یہی سوچتے ہیں کہ
ساڈی گل ہور اے”
اور
معروف ڈرامہ رائٹر نورالھدیٰ شاہ نے گزشتہ روز ایک ٹویٹ کی،جس میں انھوں نے لکھا:
“جب مرد اپنی فطرت میں گرجاتا ہے تو ذہنی طور پر”رنڈی” بن جاتا ہے اور خود کو “منڈی” میں برائے فروخت رکھتا ہے جب عورت مرد کے لیے للکار بن جاتی ہے تو سب سے پہلے “رنڈی مرد” اس کے پیروں تلے کُچلا جاتا ہے اور بلبلاتا ہے باضمیر مرد جسم فروش عورت کو بھی رنڈی نہیں کہتا۔”
جین سارترے کی پوسٹ اور نورالھدیٰ شاہ کی ٹویٹ کا تناظر تلاش کیا تو وہ تحریک انصاف کی سوشل میڈیا کا ایک ٹرینڈ نکلا جو ٹوئٹر پر مسلم لیگ ن کی سوشل میڈیا ٹیم کی طرف سے متعارف کرائے جانے والے ٹرینڈ “#MaryamNawazInMandiBahaudin” کا جواب تھا۔
تحریک انصاف والوں کاٹرینڈ تھا: “رنڈی ان منڈی”۔ اس ٹرینڈ کے تحت وزیراعظم عمران خان کے دیوانوں نے کیا کچھ کہاہوگا، بتانے کی ضرورت نہیں۔ کسی کو بہت زیادہ تجسس تنگ کررہاہو تو وہ ٹوئٹر پر جاکر اس ٹرینڈ کو تلاش کرلے۔
بہرحال نرم سے نرم الفاظ میں اس طرح کے ٹرینڈز کو افسوس ناک قراردیاجاسکتاہے۔ ایسے ہی ٹرینڈز اس سے پہلے بھی متعارف کرائے گئے۔ ہاں! جب مخالف پارٹی کی طرف سے ایسا ٹرینڈ بنایاجائے تو پھر ہماری پارٹیوں کو اخلاقیات کے اصول یاد آجاتے ہیں۔ حالانکہ ایسے دروس کی ضرورت ہر اس فرد اور گروہ کو ہوتی ہے جو غیراخلاقی رویہ اختیار کرے۔
مریم نواز کے خلاف اس ٹرینڈ کو فرسٹریشن ہی کہاجاسکتاہے۔ تحریک انصاف والے شاید اس لئے برہم ہیں کہ مریم نوازشریف کو منڈی بہائوالدین میں جلسہ سے شرکت سے نہ روکا جاسکا، حالانکہ ان کے خلاف عدالت سے بھی رجوع کیاگیاتھا، مسلم لیگ ن کے کارکنوں کو گرفتار بھی کیاگیا تھا لیکن اس کے باوجود جلسہ بھی ہوااور اس سے خطاب کرنے کے لئے مریم نوازشریف وہاں جاپہنچیں۔
ممکن ہے کہ اس تناظر میں تحریک انصاف والوں کو میری یہ بات اچھی نہ لگے کہ جب کوئی گالی دیتا ہے تو گویا اس کے پاس دلیل نہیں ہوتی۔ تحریک انصاف کے ٹوئٹرٹرینڈ سے ملکی صورت حال کو سمجھنے میں کافی مدد ملتی ہے بالخصوص اس سوال کا جواب مل جاتا ہے کہ آنے والے دنوں میں وزیراعظم عمران خان کہاں ہوں گے؟
اس سوال کا جواب حاصل کرنے والوںکو یہ خبر بھی معاونت کرے گی کہ
‘وفاقی کابینہ نے سزا یافتہ افراد کے ٹی وی انٹریوز پر تشویش کا اظہارکرتے ہوئے ان انٹرویوز کو نشر کرنے کے خلاف پیمرا سے رجوع کرنے کا فیصلہ کیا ہے‘ کابینہ نے اس بات کا نوٹس لیا کہ دنیا کی کسی بھی جمہوریت میں سزایافتہ مجرمان یا زیر تفتیش ملزمان کو اپنے ذاتی مقاصد کی تشہیر یا قومی اداروں کو دباؤ میں لانے کے مقصد کے لئے میڈیا کے استعمال کی اجازت نہیں دی جاتی‘میڈیامجرموں کے بیان روکے۔’
ممکن ہے کہ تحریک انصاف والے اس خبر کو فرسٹریشن کے زمرے میں نہ لیں لیکن ہے کچھ ایسا ہی۔ اور یہ خبر بھی پڑھ لیں:
پاکستان پیپلزپارٹی کے شریک چئیرمین آصف علی زرداری کا دعویٰ ہے کہ عمران خان کی حکومت نومبر تک ختم ہوجائے گی۔اسی لئے بعض حلقے زرداری کے دعویٰ اور مریم نوازشریف کے چیختے چنگھاڑتے خطابات سے جڑی کہانیوں کو تحریک انصاف اور عمران خان کے لئے پریشان کن قرار دیتے ہیں۔