ترکی کے شہر قونیہ میں سلیمیہ مسجد

تُرکی میں آپ سخت مشکل میں پھنس سکتے ہیں اگر۔۔۔۔

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

سفرنامہ ترکی، قسط اول

ڈاکٹرانس فرحان قاضی۔۔۔۔۔
ایک ہوتا ہے سیّاح (tourist) اور ایک ہوتا ہے مُسافِر (traveler)۔
سیّاح بڑے مزے سے ایک ٹریول ایجنٹ کے پاس جاتا ہے اور کہتا ہے کہ میں نے فُلاں مُلک یا جگہ کی "سیر” کرنی ہے۔ ٹریول ایجنٹ اُس سے ایک موٹی سی رقم وصوُل کرتا ہے۔ سیّاح صاحب اچھی سی ایئر لائن میں ایئر پورٹ پر اُتر کر ٹیکسی پکڑتے ہیں اور پہلے سے بُک کیے ہوُئے ہوٹل میں جا گھُستے ہیں۔

ہم ہر جگہ مسافر بن کر پہنچتے ہیں۔ میزبان سے بچنے کی کوشش میں مشکلات تو بہت ہوتی ہیں لیکن فائدہ یہ ہوتا ہے کہ آپ اپنی مرضی سے گھوُم پھِر سکتے ہیں وگرنہ ہر چیز کو میزبان کی نظر سے دیکھنا پڑے گا اور آپ اصل مقامی کلچر دیکھنے سے محروُم رہیں گے۔

بذریعہ سڑک تُرکی جانے کا پروگرام بنایا۔ سفر کے یارِ غار ثناءاللہ کو ساتھ چلنے کا کہا تو وہاں چند ماہ کا انتظار تھا۔ اب اکیلے نکلنے کا پروگرام بنایا تو سب سے بڑی مشکل ایران کے تفتان بارڈر کے آس پاس قوم پرستوں کی موجوُدگی تھی۔ سال پہلے ہی اِس علاقے کا سفر کیا تھا اور بغیر سیکیورٹی کے یہ بہت بڑا رِسک ہے۔

گوادر کے پاس ایک اور بارڈر نسبتاً محفوُظ علاقہ ہے لیکن وہ بند پڑا ہوُا ہے۔ بذریعہ فیری بندر عبّاس پہنچنے کی معلوُمات کیں لیکن ایسی کوئی سروس نہیں مِل سکی۔ پھِر ایک دوست نےکہا کہ جوُن کے مہینے میں ایران کے اکثر علاقے اوون کی طرح ہر چیز کو پکا کے رکھ دیتے ہیں۔ غرض تمام راستے بند پا کر مجبوُراً ٹکٹ خریدی اور استنبول ایئر پورٹ پر اُتر گئے۔

تُرکی میں آپ کو تُرکی زبان نہ آتی ہو تو آپ سخت مشکل میں پھنس جائیں گے، خوش قسمتی سے جتنی تُرکی سیکھ رکھی تھی، مجبوُراً بولنی شروع کی تو معلوُم ہوا کہ گزارے لائق سیکھ چُکا ہوُں۔ ایئر پورٹ پر ٹورسٹ انفارمیشن کا ڈیسک خالی تھا۔

معموُلی سی رقم بدلوائی جو بعد میں معلوُم ہوُا کہ ایئر پورٹ پر 30 فیصد کمیشن کاٹ لیتے ہیں۔ سیاحت کے لیے آنے والے کِسی قِسم کی رعایت کی توقّع نہ رکھیں۔ شامی مہاجرین کی آمد کے بعد تُرکوں کا رکھ رکھاؤ کافی حد تک ختم ہو چُکا ہے۔

مصنف کے تین صاحبزادے، باپ کے ہمسفر

اِدھر اُدھر سے پوُچھ کر 100 لیرے کا استنبول کارڈ خریدا اور بس پر روانہ ہو گئے۔ استنبول شہر نئے ایئر پورٹ سے 60 کِلومیٹر دوُر ہے۔ شہر پہنچے تو ایک عزیز دوست کی کال آگئی۔ اُنھوں نے ایک ہوٹل کی بکنگ کروا رکھی تھی۔ ہوٹل گوُگل پر قریب ہی نظر آرہا تھا۔ اندازہ لگا کر موبائل کا ڈیٹا آف کر دیا کیونکہ موبی لِنک کا اندازہ نہیں تھا۔

بعد میں لوکل سِم خریدی تو 45 لیروں میں تقریباّ پوُرا مہینہ چلتی رہی اور ہمیں زبردست قسم کی نیویگیشن کی سہوُلت مِلتی رہی۔ گُوگل والی بی بی نے البتّہ ایک دفعہ آدھی رات کو ایک ویرانے میں پہنچا دیا اور ایک دفعہ پیدل چلنے والوں کے انار کلی ٹائپ بازار میں گاڑی پہنچا دی جہاں سے بمشکل عزّت بچا کر ریورس میں نِکلے۔

اِس لیے گُوگل سے زیادہ اپنی آنکھوں پر بھروسہ بہتر ہے۔ اِس ہوٹل تک پیدل پہنچنے میں بھی تقریباً آدھا گھنٹہ لگ گیا۔ خوش قِسمتی سے بچّے میرے ساتھ اِس طرح عادی ہو چُکے ہیں۔
ہوٹل کا تجربہ کُچھ اچّھا نہ تھا اِس لیے ہمیشہ کی طرح شہر میں گھوُم پھِر کر ایک ایک ہوٹل کی معلوُمات کرنے لگا۔ بالآخر ایک بہترین آپشن ڈھوٗنڈ نِکالی۔

اگلا ہفتہ پوُرا استنبول چھان مارا۔ "جِنّے استنبول نئیں ویکھیا ، او جَمیا ای نَئیں”(جس نے استنبول نہیں دیکھا، وہ پیدا ہی نہیں ہوا)، اِس لیے اس کا ذکر آخر میں۔

اب استنبول سے آگے جانے کیلیے کِس چیز پر سفر کیا جائے؟ مشورے پر معلوُم ہوُا کہ رینٹ اے کار کیلیے کریڈِٹ کارڈ اور انٹرنیشنل لائسنس لازِم ہے۔ ٹرین صِرف انقرہ اور قونیہ جاتی ہے۔ فیری کے ذریعے سفر کا کوئی روُٹ نہیں مِلا۔ ایک شامی ایجنٹ پیچھے ہی پڑ گیا کہ آپ مجھ سے ہواُئی جہاز کے ٹکٹ خرید لیں۔ اِس ساری بھاگ دوڑ میں رات کے دو بج چُکے تھے۔ ہوٹل جا کر سو گئے۔

اگلے روز عبدالقیوم بیگ کے قریبی عزیز کا فون آیا اور اُن کے ساتھ اپنے کِسی کام سے نِکل گیا۔ راستے میں رینٹ اے کار کا ذکر آیا تو کہنے لگے کہ تُم پاکِستانی لوگ ہر چیز میں ڈرتے اور سوچتے ہی رہتے ہو۔ ہم افغان بغیر لائسنس بھی گاڑی حاصِل کریں تو کِسی کی پرواہ نہیں کرتے۔

تھوڑا حوصلہ مِلا اور نیٹ پر جا کر معلوُمات حاصِل کیں تو اندازہ ہوُا کہ اِسلام آباد کا لائسنس انٹرنیشنل ہے (سُنا یہ تھا کہ ڈی سی کی طرف سے علیحدہ انٹرنیشنل پرمٹ جاری ہوتا ہے). سیّد آغا مُجھے ایئر پورٹ رینٹ اے کار کے دفاتر لے گئے اور کہنے لگے کہ صرف اِتنا کہو کہ گاڑی چاہیے اور کرایہ کِتنا ہوگا۔ ان کی بات صحیح ثابت ہوُئی اور تیسری کمپنی نے کیش پر گاڑی میرے حوالے کردی بلکہ ساتھ ہی درخواست بھی کردی کہ آئندہ بھی گاڑی ہم سے ہی لے کر جائیں۔

تُرکی میں گاڑی پاکِستان سے اُلٹ طرف چلائی جاتی ہے اور اگر آپ نے پہلے اس طرف گاڑی نہ چلائی ہو تو حادثے کا شدید خطرہ ہے کیونکہ تُرک ڈرائیور تیز رفتاری کیلیے مشہوُر ہیں۔ مُجھے جلد ہی ٹریفک میں تُرکوں کی بے صبری کا اندازہ ہوگیا۔

ایکسیلیٹر سے ذرا سا پیر ہٹائیں اور پیچھے غُصّے بھرے ہارن شروع ہو جائیں گے۔ بریک لگانے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اوُپر سے ایک ہی جگہ سے کئی راستے (ایگزٹ) بنا رکھے ہوتے ہیں جِن پر گُوگل والی خالہ بھی ٹکریں مارنے لگتی ہیں۔

آپ اپنا راستہ سمجھنے کیلیے بھی ہرگِز آہستہ نہیں ہو سکتے وگرنہ پیچھے سے آنے والا ہر تُرک احمد شاہ بن کے آپ کو "پیچھے تو دیکھو” کہتا ہوّا گزرے گا۔ راستہ گھر سے سمجھ کر آنا تھا نا !!! بس جِس رفتار میں ہیں، اّسی میں غلط یا صحیح سمت میں مُڑتے چلے جائیں۔ غلط مّڑے ہیں تو دس پندرہ کِلومیٹر آگے سے واپس مّڑ کر آئیں۔ اِس مُصیبت کا حل یہ نِکالا کہ مّڑنے سے پہلے شولڈر پر گاڑی دو تین منٹ روک کر اپنا راستہ سمجھ لیتاتھا۔

تُرکی میں آپ کو راہزنی ، ڈکیتی ، قتل وغارت کے خوف سے امان مِل جاتا ہے۔ تُرک پولیس انتہائی خوش اخلاق واقع ہوُئی ہے۔ ہمارا یہ خواب خُدا جانے کبھی پوُرا ہو یا نہیں کہ لاہور سے ایک آدمی سڑک پر نِکلے اور استنبول تک اِسی طرح بِلا خوف سفر کرتا چلا جائے۔ یورپ نے تو سفر اِسی طرح آسان بنا لیا۔

ہمیں ٹکڑوں میں بانٹنے والے نفرت کی آگ پر تیل چھڑکتے رہتے ہیں۔ ہم ایران میں بھی اِس لیے داخل نہ ہو سکے کہ راستے میں قوم پرست حملہ آور ہوسکتے ہیں اور تُرکی کا کُرد اکثریتی خِطّہ بھی اِنھی وجوہات پر چھوڑنا پڑا۔ بچوں کے ساتھ آپ کی اولین ترجیح سیکیورٹی ہونی چاہیے۔
باقی آئندہ (ہمّت رہی تو)۔۔۔


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں