نیلے رنگ کی سرائیکی ٹوپی

ہم سرائیکی لوگ

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

ایک سرائیکی نوجوان کی شگفتہ تحریر جسے پڑھ کر سرائیکی لوگ اپنی کچھ عادات درست کرسکتے ہیں

*رضوان ظفر گورمانی۔۔۔۔۔۔
ہم عجب مزاج لوگ ہیں۔
اک سرائیکی نوجوان کی ماں کسی بات پر ناراض ہو کر مارنے دوڑی، لڑکا پھرتی سے گھر کی بیرونی دیوار پر چڑھ گیا اور بولا :” اماں ہنڑ توں اپنڑے پردیسی پتر کو مریسیں۔”

نمانی صورت والے سرائیکی گھر کی دہلیز پار کرتے ہی پردیسی ہو جاتے ہیں۔ ہم سرائیکی طبعیت سے ہی خادم ہوتے ہیں، اس لیے کراچی سے لے کر خلیجی ممالک تک زیادہ تر مزدور طبقہ سرائیکیوں پر مشتمل ہے۔

ماضی کے حملہ آوروں کے خوف نے ہمیں ذہنی طور پر غلام بنا دیا ہے۔ کسی کی دل آزاری مقصود نہیں لیکن آپ نے نوٹ کیا ہے سب سے زیادہ غلام فرید، غلام اکبر، غلام اصغر جیسے نام سرائیکیوں کے ہی ہیں۔

ہم غلام سرائیکی گودوں کے مزارع بن کر زندگی گزارنے میں عافیت جانتے ہیں اس لیے نسلوں سے محکوم چلے آ رہے ہیں۔ ہم سرائیکیوں کی اکثریت پھپھو کی بیٹی میٹرک کی سپلی اور بی اے کی انگلش سے بچ بچا کر کوئی ڈگری حاصل کر بھی لیں تو بھی ہمارا اک ہی خواب ہوتا ہے کہ جلد سے جلد سرکاری نوکری حاصل کرو،

پھر وہ درجہ چہارم کی ہی کیوں نہ ہو جبکہ اس کے مقابلے میں دوسری قوم کے افراد تعلیم حاصل کریں نہ کریں۔ ان کی پہلی ترجیح کاروبار ہوتا ہے۔ پیٹ کاٹ کاٹ کر ڈگری حاصل کر کے نوکری حاصل کرنے والے سرائیکی کی پچیس سال کی آمدنی اور درمیانے درجے کے مڈل پاس کاروباری کی پانچ سال کی آمدن برابر ہو جاتی ہے۔

سرائیکی بچوں کا بچپن مٹی میں مٹی سے کھیلتے ہوئے گزرتا ہے اس لیے مٹی سے جڑے ہم سرائیکیوں میں عاجزی بدرجہ اتم موجود ہوتی ہے۔ سرائیکی مائیں بہت صفائی پسند واقع ہوتی ہیں اس لیے اک نمبر اور دو نمبر جیسے فطرتی تقاضوں کے پیش نظر بچے کو شلوار نہیں پہناتیں بلکہ قمیض کے بھی دونوں پلوں کو ملا کر گانٹھ لگا دیتی ہیں اور بچے کو صحن میں کھلا چھوڑ دیتی ہیں

بچے کے ہاتھ جو لگا اس نے منہ میں ڈال لیا، سرائیکی زبان میں مٹھاس بڑی وجہ بھی یہی ہے ہمارے نوجوان محبت کے معاملے میں بہت بدقسمت واقع ہوئے ہیں۔ بدقسمتی کی وجہ برصغیر میں محبت کا مشترکہ دشمن یعنی والدین ہی ٹھہرتے ہیں لہذا سرائیکیوں کی اکثر محبتیں "تیڈی ماء میکوں برف ناہی ڈتی” اور "تیڈے ابے میکوں ساگ نی پٹنڑ ڈتا” جیسے محبت دشمن اقدامات کی بدولت کھلنے سے قبل ہی مرجھا جاتی ہیں۔

سرائیکی خاصے خوش خوراک واقع ہوئے ہیں سال میں چند ہی خوراکیں کھا کر خوش رہتے ہیں جیسے ساگ کے سیزن میں ہفتہ ہفتہ بھر کا ساگ بنا لیتے ہیں۔ سوناہجنے کے ساتھ بھی یہی ستم روا رکھا جاتا ہے۔ سرائیکی بے چارے سب کو اچھا سمجھتے ہیں اور اسی بھولپن میں مار کھا جاتے ہیں۔

سرائیکیوں کا مرغوب مشغلہ موبائل فون پر ایسی اونچی آواز میں بات کرنا ہے کہ گمان گزرتا ہے کہ کال کا ویسے ہی خرچہ کیا دوسری طرف آواز تو ویسے ہی پہنچ جاتی ہو گی۔ شیخی بگھارنا ہمارا دوسرا پسندیدہ مشغلہ ہے۔

پیاز کو مکا مار کر اوپر نمک چھڑک کر روٹی کھانے والے سرائیکی جب فرنچ کس کی باتیں کرتے ہیں تو دل کرتا ہے کہ بندہ اپنا ہی سر پیٹ لے۔ سرائیکیوں کی زندگی کا اولین مقصد شادی کرنا اور دوم مقصد بچوں پر بچے پیدا کرنا ہے۔ انہی دو مقاصد کو پورا کرنے کے چکر میں گھن چکر بنے ہم سرائیکی ڈپریشن کا شکار ہو جاتے ہیں

اور یہ اسی ڈپریشن کا ہی نتیجہ ہے کہ اردو بولنے والے بوڑھے آخری سانس تک کاروبار کرتے ہیں۔ پنجابی بوڑھے آخری سانس فصلوں اور مویشیوں کے درمیان گزارتے ہیں اور ہمارے سرائیکی بوڑھے جس ڈنڈے کے سہارے چلتے ہیں آخری سانس تک اس سے بیگم کی درگت بناتے ہیں۔


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں

ایک تبصرہ برائے “ہم سرائیکی لوگ”

  1. شاہد عباس چاچڑ Avatar
    شاہد عباس چاچڑ

    اس کالم میں نام تو سرائیکی استعمال ہواا ہے پر خیالاتسرائکی نہیں ہیں۔ کیونکہ خرابی تو ہر قوم نسل اور زبان میں ہوتی ہے۔پر متعصب تحریر صرف ایک زبان میں ہوتی ہے۔ جس کا میں زکر نہ کرنا چاہوں گا۔معزرت کے ساتھ جو برائیاں بیان کی گئیں ہیں۔ ان کا تعلق سرائکی زبان سے نہیں بلکہ ہر اس دماغ سے ہے۔جن میں یہ برائیاں پائی جاتی ہیں۔
    آزادی کے وقت جتنا ساتھ مہاجریں کا سرائیکی زبان نے دیا ہے۔ شاید کسی زبان نے نہیں دیا۔
    اس لئے ہر کمرشل جگہ پر سرائیکیوں کا قبضہ نہ ہے۔کیونکہ سرائیکیوں نے ہر اچھی جگہ مہاجرین کو دے دی تھیں۔جہاں ابھی تک جنوبی پنجاب میں ان ہی کا قبضہ ہے۔ شاید اب وہی مہاجرین ہیں جن کو سرائیکیوں نے اچھی جگہ رہائش کی دی ہے۔ انہی کے خیالات میں سرائیکی برے ہیں۔