حمنہ عمر/عمرکوٹ سندھ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اردو نثر نگاری میں کہانی کی مختلف اصناف نمایاں ہیں لیکن جو قبولیت اردو افسانے اور ناول کو حاصل ہے وہ کسی اور کے حصے میں نہیں آئی۔
ناول اور افسانہ میں بنیادی فرق یہ کہ ناول کا پھیلاؤ زیادہ ہوتا ہے جس کے اندر کئی چھوٹی چھوٹی کہانیاں بنتی ہیں اور ان میں سے ہر کہانی قاری پر مختلف قسم کے اثرات چھوڑتی ہے۔ ناول کی صنف مغربی لٹریچر سے ہمارے ہاں رائج ہوئی اور داستان کی جگہ براجمان ہوگئی۔ اردو ادب کا پہلا ناول نگار مولوی نذیر احمد اور پہلا باقاعدہ ناول “مراۃ العروس” کو سمجھا جاتاہے ۔ اردو ناول نے جلد ہی قبول عام کا درجہ حاصل کیا اور اس صنف میں شہرہ آفاق ادب تخلیق ہوا۔
افسانہ کہانی کی مختصر شکل ہے جسے ایک نشست میں آسانی کے ساتھ پڑھا جا سکتا ہے ۔ تحریر کا اختصار اور تاثر کی وحدت اس کی بنیادی خوبیاں ہیں ۔ یعنی مختصر کہانی میں قلمکار کی چابکدستی سارے پہلو عیاں کردیتی ہے اور کہانی کے اختتام پر قاری پر ایک بھرپور تاثر قائم ہوتا ہے جو اسے سوچنے پر مجبور کر دیتا ہے۔ عہد حاضر کا انسان اس قدر مصروف ہے کہ داستان سے شروع ہونے والا سفر افسانے کے بعد مختصر افسانے یا افسانچے کی طرف بڑھ رہا ہے ۔ ایسے میں قاری کی توجہ حاصل کرنے کے لیے کہانی کو جملہ محاسن کا آئینہ دار ہونا چاہیے۔
ادبی ذوق رکھنے والے ہر فرد کی طرح مجھے بھی اچھی کہانیوں کی تلاش رہتی ہے ۔ ناول کی نسبت افسانہ میرے لیے ذیادہ پسندیدگی کا باعث رہا ہے۔ ایک اچھے افسانے میں اسلوب ، کردار نگاری، وحدت تاثر ، منظر نگاری اور پلاٹ بنیادی عناصر ہیں جس قدر یہ خوبصورت ہوں گے کہانی اتنی ہی جاندار ہو گی۔
اردو ادب میں افسانہ نگاروں ایک لمبی فہرست ہے ،سعادت حسن منٹو ، غلام عباس، پریم چند، احمد ندیم قاسمی سمیت کئی ادبا کا شمار اردو کے ممتاز افسانہ نگاروں میں ہوتا ہے۔
ان بڑے افسانہ نگاروں کی کہانی پر گفتگو کرنا اور اس کی خوبیوں کا بیان کرنا نہایت آسان ہے ۔ افسانوں کا تجزیہ کرتی بیسیوں تحریریں بھی ہمیں بہ آسانی دستیاب ہیں لیکن میں آج اپنی پسندیدہ کہانی کے طور پر جس افسانے پر بات کرنا چاہتی ہوں وہ ایک غیر معروف افسانہ نگار ہارون الرشید عباسی کا افسانہ
” سرد راتیں ” ہے ۔ آپ شاید مجھ سے اختلاف کریں اور اس اختلاف کے لیے حق بجانب بھی ہوں لیکن اس کہانی کے جن محاسن و کمالات نے مجھے گرویدہ کیا ان پر بات کرنا ضروری خیال کرتی ہوں۔
” سرد راتیں ” سماجی بے حسی اور معاشی ناہمواریوں کا پردہ چاک کرتی ایک ایسی کہانی ہے جس میں مصنف نے کمال بہادری سے اپنے ہی قبیلےکو نشانہ بنایاہے اور یہی وہ خوبی ہے جو اسے عہد حاضر کے افسانہ نگاروں سے ممتاز کرتی ہے۔
افسانے میں پلاٹ بنیادی اہمیت کا حامل ہوتا ہے ، اور اسی پر افسانہ نگار اپنی تحریر کی عمارت تعمیر کرتا ہے ، ” سرد راتیں ” کا پلاٹ خوبصورت اورسادہ ہے مگر اسلوب ڈرامائی ہے ۔
افسانے کا پس منظر بھی روایت سے ہٹ کر ہے اور اس میں ایک طرف برفانی موسم کی سختیوں کو جھیلتے مزدور خاندان کی کہانی اور دوسری جانب اس کے لیے معاشرے کی بے حسی دکھائی گئی ہے ۔ کہانی کے ابتدا کچھ یوں ہوتی ہے۔
” برف باری سہ پہر سے ہی جاری تھی لیکن لیکن آدھی رات کے بعد اس کی شدت میں خاصا اضافہ ہو گیا تھا ” ایک جملے میں ہی مصنف نے افسانے کا پس منظر واضح کر دیا اور پھر افسانہ آخر تک اس پس منظر کو ساتھ لیے چلتا ہے ۔ افسانے میں کل چار مناظر ہیں اور چار ہی کردار، ان ہی کے درمیان ہی ساری کہانی بیان کی گئی ہے۔
پہلے منظر میں ایک مزدور اس کی بیوی اور بچہ قاری کے سامنے آتے ہیں ۔ مزدور شدید برف باری کے باعث بے روزگار ہے اور اس کے گھر میں کھانے پینے کا سامان ختم ہو چکا ہے ۔ افسانے میں منظر نگاری کمال کی ہے ۔
“عجیب وحشت ناک سی خاموشی نے سارے گاؤں کو لپیٹ میں لے رکھا تھا۔ شاکا نے لکڑی کا ایک ٹکڑا جلتی انگیٹھی میں ڈالا جس نے جلد ہی آگ پکڑ لی ۔ ۔ ۔ اس نے اپنے ہاتھ گرم کرنے کیلئے انگیٹھی کے اوپر پھیلا لیے اور خالی خالی نظروں سے سامنے بیٹھی ریشماں کو دیکھنے لگا جس کا چہرہ موم بتی کی روشنی میں کچھ زیادہ ہی زرد دکھائی دے رہا تھا۔ “
موم بتی کی زرد روشنی میں فاقہ زدہ کمزور عورت کے زرد چہرے کو کس خوبصورتی سے نمایاں کیا گیا ہے ، برف باری کے دوران ماحول پر جو گہرا سکوت طاری ہوتا ہے اسے وحشت ناک خاموشی کہہ کر افسانے کی ڈرامائی کیفیت میں اضافہ کیا گیا ہے جو قاری کو اپنی گرفت میں لے لیتی ہے۔
“مجھے اپنی تو فکر نہیں بس اس کے لیے ” ریشماں نے بچے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فقرہ نامکمل چھوڑ کر چہرہ اپنے ہاتھوں میں چھپا لیا۔
چہرہ ہاتھوں میں چھپا کر حالات کے ستم کا شکار ماں کے بےبس آنسو اس چابکدستی سے ظاہر کیے گئے ہیں کہ پڑھنے والا اسے کسی فلم کے منظر کی طرح آنکھوں کے سامنے محسوس کیے بنا نہیں رہ سکتا ۔
برف باری کے بعد صبح کے منظر میں اسلوب کی سادگی و اختصار اور منظر نگاری کی انتہا ملاحظہ ہو۔
“صبح ہوئی تو ہر طرف سفیدی چھائی ہوئی تھی ۔ پہاڑ برف سے ڈھکے ہوئے تھے۔ سیب کے باغ کا سب سے پرانا درخت زمین بوس ہو چکا تھا ۔ دور پہاڑی ڈھلوانوں کے درمیان سے دھند کا ایک مرغولہ دھیرے دھیرے سے اوپر کو اٹھ رہا تھا”
جہاں افسانے میں ایک حساس باپ اور خاوند کی اپنے بیوی اور بچے کے لیے لاحاصل کوشش واضح ہوتی ہے وہاں پڑوس میں رہنے والے صاحب ثروت اور بزعم خود دیندار شخص کی اپنے پڑوسی کے بارے میں بے اعتنائی اور خود غرضی بھی ظاہر ہوتی ہے۔”
شاکا (افسانے کا مرکزی کردار) سے وہ برف صاف کرنے کا کام تو کروا لیتا ہے لیکن بجائے مزدوری دینے کے اسے پرانی اور ٹھنڈی چائے کا کپ دے دیتا ہے جبکہ شاکا فاقہ کشی کے باوجود مروت کا دامن ہاتھوں سے جانے نہیں دیتااور مزدوری مانگنے سے اجتناب کرتا ہے۔
دوسری جانب شا کا کا کردار مثالی ہے وہ اپنی غربت کے باوجود کسی کے سامنے دست سوال دراز نہیں کرتا اور مزدوری کی تلاش میں قریبی بازار کی طرف نکل پڑتا ہے ۔ اور جب اسے بازار مین مزدوری نہیں ملتی تو انتظار میں بیٹھ جاتا ہے ۔ اس کے احساس کی گہرائی کا یہ عالم ہے کہ دکاندار اسے پاس بٹھا کر کھانے کے لیے دو بار جو مٹھی بھر خشک چنے دیتا ہے وہ نظر بچا کر جیب میں ڈال لیتا ہے اور شام کو آکر اپنی صابر و شاکر بیوی کے سامنے پیش کر دیتا ہے ۔
شاکا کی مزدوری کے بغیر گھر واپسی کا سفر یوں طے ہوتا ہے
“ہوا میں اب کچھ تیزی آگئی تھی
شاکا کے دماغ میں بھی برف آلود ہواؤں کے جھکڑ چلنے لگے
اندر باہر کے اس طوفان سے لڑتے لڑتے برف سے اٹا رستہ کب کٹ گیا ۔ ۔ رات کب چھائی اسے پتہ ہی نہ چلا ۔ اور وہ گھر کی دہلیز تک پہنچ گیا۔
اس نے پیچھے مڑ کر دیکھا ۔ ۔ عباسی صاحب کے گھر کی بجلی روشن تھی ۔ برف باری سے کوئی کھمبہ نہیں گرا اس بار ۔
شاکا نے سوچا
اس کے گھر میں بجلی تو کیا ہونا تھی ۔ موم بتی بھی شاید آج آخری ہی تھی”
مصنف نے شاکا کے دل و دماغ کی کیفیت کو باہر چلتے برف آلود ہواؤں کے جھکڑ سے تشبیہ دے کر قاری کو اس کے دل ودماغ مین اترنے کا رستہ فراہم کیا ہے۔
مصنف میاں بیوی کے مثالی رویے اور حسن سلوک اور صبر وشکر کو بھی مختصر الفاظ میں وضاحت کے ساتھ بیان کرتا ہے
“انگیٹھی میں جلتی آگ سے نیم روشن کمرے میں دونوں نے خشک چنے آنسوؤں میں بھگو کر کھائے، ریشماں نے تشکر آمیز نظروں سے اپنے مجازی خدا کی طرف دیکھا اور بچے کو دودھ پلانے کے لیے اپنے ساتھ چمٹا لیا”
اور آخر میں مصنف معاشرے کے کھو کھلے پن ، دین ومذہب کی غلط اور خود ساختہ تفہیم اور اپنے ارد گرد سے آنکھیں موندھ کر یا گرم بستر میں بے حسی کی چادر اوڑھ کر اسلام کی خیالی خدمت کرنے والوں پر اس قدر گہرا طنز کرتا ہے کہ قاری ایک دفعہ اپنے گریبان میں جھانکنے پر مجبور ہو جاتا ہے یوں احساس کا ایک گہرا تاثر چھوڑتے ہوئے افسانہ ختم ہوجاتا ہے۔
“عین اسی وقت پڑوس کے گھر میں عباسی صاحب لیپ ٹاپ پر کسی سیکولر فیس بک دوست کو اسلامی نظام زندگی کی بنیادی خصوصیات سے آگاہ کر رہے تھے۔
دوران چیٹ وہ کھبی جذباتی بھی ہوجاتے، کچھ دیر بعد ان کے دوست آف لائن ہو گئے ۔ لیپ ٹاپ آف کرتے ہوئے ان کی نظر سامنے رکھی گاجر کے حلوےسے بھری پلیٹ پر پڑی جو کب کی ٹھنڈی ٹھار ہوچکی تھی۔
انہیں حلوے سے بروقت لطف اندوز نہ ہونے پر افسوس تو ضرور ہوا۔ مگر ان کی یہ قربانی بھی تو بہر حال دین کی سربلندی کیلئے ہی تھی۔”
افسانے کا مرکزی خیال ایک طرف خط غربت سے نیچے زندگی گزارنے والے سنگلاخ پہاڑوں میں رہنے والے مزدور طبقے کے مصائب اور محرومیوں کو سامنے لانا ہے تو دوسری طرف معاشرتی بے حسی سے پردہ اٹھانا بھی مقصود ہے جو بظاہر اچھے اخلاق و کردار کے لوگوں کی طرف سے بھی اپنے ارد گرد کے لوگوں کے لیے روا ہے اور مصنف اپنی اس کوشش میں پوری طرح کامیاب رہا ہے۔
میرے خیال میں یہ افسانہ کردار نگاری کے لحاظ سے یوں بھی بہترین ہے کہ اپنی کہانی کے سارے کرداروں کی کم ازکم الفاظ میں پوری وضاحت کرتا ہے اور وہ نکھر کر پڑھنے والے کے سامنے آتے ہیں۔
منظر نگاری میں بھی مصنف نے افسانے کے اندر اور اس مخصوص ماحول کو جس کے گرد افسانہ سفر کرتا ہے بہت خوبصورتی سے واضح کیا ہے یوں قاری چشم تصور میں خود کو ہمالیائی وادیوں کے مناظر کا حصہ محسوس کرتا ہے ۔
برف سے ڈھکے پہاڑ، سنو مین بناتے عباسی صاحب، انگیٹھی پر ہاتھ تاپتا شاکا، سیب کا برف سے لدا زمین بوس درخت ، سڑک سے برف صاف کرتی مشین ، پہاڑوں کے دامن سے اٹھتا دھند کا مرغولہ منظر نگاری کی خوبصورت مثالیں ہیں۔
مصنف کا اسلوب سادہ اور ڈرامائی ہے ۔ زبان و بیان کی سادگی و سلاست قاری کو پڑھنے پر آمادہ رکھتی ہے ” انتظار کرتے شام آگئی مگر مزدوری نہ آئی ” سادگی سلاست اور اختصار کی عمدہ مثال ہے ۔
افسانے کا پلا ٹ بھی مکمل اور واضح ہے اور قاری کی نظر میں تصویر کا کوئی پہلو بھی نا مکمل نہیں رہتا
اپنے ابلاغ کے لحاظ سے بھی یہ ایک عمدہ افسانہ ہے اور مصنف قاری کے دل ودماغ میں جس احساس کو جگانا چاہتا ہے وہ پوری قوت سے بیدار ہوتا ہے اور بسا اوقات آنسو کی صورت آنکھوں سے رستہ بناتا ابل پڑتا ہے ۔
یہ وہ خوبیاں اور محاسن ہیں جو میرے نزدیک اس افسانے کو ایک شاہکار کہانی بناتے ہوئے اسے
میرے پسندیدہ افسانوں میں نمایاں کرتے ہیں ۔
2 پر “میرا پسندیدہ افسانہ، ایک ادبی تجزیہ” جوابات
ایک اچھے افسانے سے متعارف کروانے کے لئےشکریہ حمنہ صاحبہ ۔
بہت خوب ۔۔