ہارون الرشید صاحب کی وائرل شدہ آڈیو، چند وضاحتی امور

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

عامر خاکوانی

کل رات ہارون الرشید صاحب کی آڈیو کے حوالے سے ان کے موقف پر مبنی پوسٹ کی تو اس پر آنے والے کمنٹس سینکڑوں تک پہنچ گئے۔ بعض باتوں کی وضاحت ضروری ہے، اس لئے یہ قدرے طویل پوسٹ کر رہا ہوں۔
* پہلی بات یہ ہے کہ رات والی پوسٹ میں صرف ہارون الرشید صاحب کا موقف پیش کیا۔ ان کا چین سے فون آیا اور کہا کہ وہ سوشل میڈیا استعمال نہیں کر پا رہے،واپس آ کر اس پر لکھیں گے، لیکن ان کی جانب سے فیس بک پر یہ موقف دے دیا جائے۔ جو ہارون صاحب نے کہا، وہ میں نے دے دیا۔ اب کوئی چاہے اس سے اتفاق کرے یا اختلاف، ہر ایک کا حق ہے۔ (تاہم ایسا کرتےہوئے بدتمیزی کرنے کی کسی کو اجازت نہیں، کم از کم میری وال پر۔ ویسے مجھے خوشی ہے کہ میرے بیشتر ف ب فرینڈز نے شائستہ زبان ہی میں اختلاف کیا ، گڈ۔ دو چار راہ چلتے بدزبان البتہ ہر جگہ کی طرح ادھر بھی آ گئے اور اپنے منطقی انجام کو پا لیا :))
* میں نے اپنی رات والی پوسٹ میں اس ویڈیو پر تبصرہ کیا ہی نہیں تھا، البتہ تمہید میں یہ وضاحت ضرور کی تھی کہ اس ویڈیو کے وائرل کرنے میں کون سے حلقے زیادہ متحرک ہیں، یہ درست کہ ہارون الرشید صاحب کے اپنے بہت سے حامی، تحریک انصاف کے ووٹرز نے بھی اس ویڈیو کو ناپسند کیا اور ان کے موقف بلاوزن نہیں، مگر بہرحال گالم گلوچ کے ساتھ یہ ویڈیو وائرل کرنے والے وہی حلقے ہیں جو ہارون صاحب کے بے باک اور تیز دھار قلم سے شاکی ہیں۔ اپنی اس تمہید پرقائم ہوں۔
* آڈیو میں نے پوری سنی ہے بلکہ غور سے سنی ہے۔ میرے خیال میں ہارون صاحب سے غلطی سرزد ہوئی ہے ۔ غلطی کا اعتراف کرنا ہی ہمیشہ مستحسن اور بہتر رہتا ہے۔ مس ہینڈلنگ کی، لب ولہجہ درست نہیں تھا، اس تفتیشی پولیس افسر کو درست انداز میں ڈیل نہیں کر پائے،شروع ہی میں آئی جی کے فون کا کہنے کی ضرورت ہی نہیں تھی،اس سے یہ تاثر ملا جیسے دھمکا رہے ہوں۔ (اگرچہ شائد ایسا نہیں تھا۔) پھر گدھےکا بچہ کہنا تو باقاعدہ غلطی بلکہ بلنڈر تھا۔ گالی دینے کا کسی بھی صورت میں کسی کو حق نہیں۔ اپنے آپ پر قابو رکھنا چاہیے تھا۔ ان جیسے بڑے شخص سے زیادہ تحمل اور برداشت کی توقع کی جاتی ہے۔ آڈیو سننے والے تقریباً ہر شخص کا تاثر منفی ہوگا اور ہارون صاحب کے بہی خواہ، ان کے مداحوں کو بھی اس سے مایوسی ہوئی، اس آڈیو کا دفاع مشکل ہے اور بہترین طریقہ یہی ہے کہ اس پر معذرت کر لی جائے۔ انسان ہر وقت کمپوزڈ یا پیکرِ ضبط نہیں رہ سکتا، کمزور لمحات آتے ہیں، تھکن، چڑچڑا پن،اشتعال وغیرہ اور ایسے کمزور لمحات ہی میں غلطی ہوجاتی ہے، غلطی کے دفاع کے بجائے اس پر معذرت کرنا افضل اور احسن طریقہ ہے ۔ ہارون الرشید صاحب چین میں ہیں ، واپس آئیں گے تو ظاہر ہے اس پر لکھیں گے اور بات بھی کریں گے، فون پر جو بات ہوئی، اس میں انہوں نے منہ سے گالی نکل جانے پر معذرت کے الفاظ کہے۔
*البتہ اس پوسٹ پر کمنٹس کرنے والے بعض احباب کی اس بات سے بالکل اتفاق نہیں کہ تفتیشی کو کیوں فون کیا؟ اخبارنویسوں کا پولیس کو فون کرنا کون سی نئی یا عجیب بات ہے۔ آئے روز پولیس والے بے گناہ لوگوں کو اٹھا لیتے ہیں اور پھر ان میں سے بہت سوں کو میڈیا میں شائع ہونے والی خبروں ہی سے ریلیف مل پاتا ہے۔ بے شمار بار ایسا ہوا کہ لوگوں نے میسج کیا،فون کیا یا کسی اور ذریعے سے رابطہ کیا کہ پولیس نے ان کے کسی بچے کو بے گناہ اٹھالیا ہے، پرچہ بھی نہیں کاٹا اور حبس بےجا میں رکھا گیا ہے، تھانے فون کر دیں۔ عام طور پر اخبارات میں اس کام کے لئے کرائم رپورٹرز سے مدد لی جاتی ہے، وہ روزانہ کی بنیاد پر تھانوں سے رابطے میں رہتے ہیں، جرائم کی خبریں، ڈاکے، قتل وغیرہ کی وارداتوں کی رپورٹنگ کے حوالے سے۔ اگر کسی کے ساتھ زیادتی ہو رہی ہو تو بہت بار اسی واسطے سے جان چھٹ جاتی ہے ، کرائم رپورٹر نے جاننے والے کسی ایس ایچ اوکو براہ راست فون کر دیا، یا کسی بے تکلف کو لعن طعن بھی کر دی کہ اتنا ظلم ٹھیک نہیں،بندے دے پتر بنو وغیرہ وغیرہ۔کبھی ڈی ایس پی یا بعض کیسز میں ڈی پی او کے نوٹس میں وہ معاملہ لے آیا، عام طور پر اس سطح کے افسران سے بے گناہ کو ریلیف مل جاتا ہے۔
مجھے ان لوگوں پر حیرت ہوئی جنہوں نے منہ پھاڑ کر کہہ دیا کہ تفتیشی کے معاملے میں مداخلت کیوں کی گئی؟ یا حیرت؟ یہ کسی جج کی عدالت تھی کیا؟ تھانے ہمارے ملک میں ظلم کا گڑھ ہیں، جہاں بے غیرتی، بے حسی، سفاکی اور درندگی ہمہ وقت بال کھولے ، دانت نکوسے بھنگڑے ڈالتی پھرتی ہے۔ کیا ان لوگوں کو یہ بات نہیں معلوم یا ہارون الرشید کو رگڑا لگانے کی خواہش نے اندھا کر دیا ہے؟ ان کے بے گناہ بھائی، بیٹے کو پولیس والے پیسوں کے چکر میں اٹھا کر لے جائیں اور پھر دیکھا جائے کہ یہ صاحبان کیسے مداخلت نہیں کرتے اور خاموشی سے گھر بیٹھ کر تفتیش مکمل ہونے اور اپنے برخوردار کی لترپریڈ کا انتظار فرمائیں گے؟ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ یہ فوراً بھاگیں گے اور آس پاس کے کسی بااثر شخص سے رابطہ کر کے پولیس کے ظالمانہ چنگل سے بچہ چھڑوانے کی کوشش کریں گے، اس کے لئے فون کرائیں گے، منت ترلا کر کے ساتھ بھی لے جائیں گے، خبر چلوانے کے لئے منتیں کریں گے وغیرہ وغیرہ۔
*تاہم میرے خیال میں ہارون صاحب کو فون کرنے کی ضرورت ہی نہیں تھی، یہ ان کی سطح کا معاملہ ہی نہٰیں تھا، دنیا نیوز کے کسی ڈسٹرکٹ رپورٹر کو کہتے ، وہ معاملے کو دیکھ لیتا اور اگر پرچہ کاٹے بغیر بندہ اٹھایا تھا، تب ڈی پی او کو کہہ کر ریلیف دلا دیا جاتا۔ لگتا ہے کسی نے ہارون صاحب پر زیادہ زور ڈالا اور منت ترلا کر کے یا درخواست کر کے براہ راست فون کرنے پر مجبور کر دیا۔ لوگ اخبارنویسوں کو تنگ کرتے رہتے ہیں، ہر ایک مگر اتنا ریسپانسو نہیں ہوتا۔ ہاروں صاحب کے ساتھ خاصا وقت گزارا ہے، ان کا مزاج یہی ہے کہ ایسے معاملات میں لوگوں کی مدد کے بلادریغ فون کر ڈالتے ہیں۔ معاملہ بہاولپور کے ایک مضافاتی تھانے کا تھا، وہاں ان کا براہ راست واقف بھی کوئی نہیں ہوگا، انہہیں ایس ایچ او کا نمبر ملا، بات کی ،مگراس نے جان چھڑا لی اور انکار کر دیا، محرر یا تفتیشی سے رابطہ ہوا اور جھنجھلاہٹ، چڑچڑے پن کی کیفیت میں یہ سب گفتگو ہوئی جسے بعد میں وائرل کر دیا گیا۔ اگرچہ جھنجھلاہٹ، چڑچڑا پن، تنک مزاجی، فرسٹریشن یا بلڈ پریشر شوٹ کرنا بھی تلخ کلامی کا جوازنہیں بن سکتا۔ اس بات پر میرا موقف واضح ہے، تاہم چونکہ ہر کام کا کچھ تناظر اور پس منظر ہوتا ہے، اس میں یہ تمام فیکٹرز آ جاتے ہیں، اس لئے رات والی پوسٹ میں ان فیکٹڑز کا ذکر آیا تھا۔ ہارون صاحب نے کال کر لی تھی، اس تفتیشی نے دانستہ انجان بننے اور عدم تعاون کا مظاہرہ کیا، ہارون صاحب نے اشارہ دیا کہ آئی جی تک بات جا سکتی ہے، پلسیے نے پھر بھی لچک پیدا نہیں کی تو پھر وہاں پر کال ختم ہوجانی چاہیے تھی۔ پھر آئی جی کے لیول پر بات کی جاتی، اس کے نوٹس میں یہ معاملہ لایا جاتا ، (جیسا کہ ہارون صاحب نے بتایا کہ بعد میں ایسا کیا گیا)،آئی جی خود ہی متعلقہ تھانے بات کر کے اصل ماجرا معلوم کر لیتا اور مناسب کارروائی ہوجاتی۔
* تصویر کا ایک رخ اس نکے تھانے دار یا تفتیشی کی ’’اوور سمارٹ نیس‘‘ بھی ہے۔ آڈیو سننے سے صاف معلوم ہو رہا ہے کہ پولیس والا دانستہ کال ریکارڈ کر رہا ہے۔ اسے کال ریکارڈ کرنے کی کیا ضرورت تھی؟ یہ کون سی بینک یا موبائل سروس ہے، جس میں ٹیپ شدہ آواز سنائی دیتی ہے کہ سروس کی کوالٹی کے لئے کال ریکارڈ کی جا رہی ہے۔ پلسیے نے ہوشیاری سے کوئی ایسا سخت جملہ منہ سے نہیں نکالا ، جس پر اس کی بعد میں گرفت ہوسکے۔ اس نے دانستہ تحمل شو کیا اور ہارون صاحب کو مشتعل کرنے کی کوشش کی۔ ہارون صاحب کو ٹاک شوز میں سننے والا ہر کوئی جانتا ہے کہ وہ بسا اوقات تکرار سے بھڑک اٹھتے ہیں، پلسیے نے ہوشیاری دکھائی، انہیں ٹمپر لوز کرنے پر مجبور کیا اور پھر یہ کال ریکارڈ کر کے وائرل کر دی۔
* جس طرح اسے ہارون صاحب کے خلاف ایک منظم کمپین کی شکل دی جا رہی ہے۔ ہر واٹس ایپ گروپ میں یہ آڈیو شیئر کی جا رہی ہے، چیف جسٹس آف پاکستان کو سوموٹو نوٹس لینے کی اپیل کی جا رہی ہے۔ یہ سب اوور ڈوئنگ اور ٹو مچ لگ رہا ہے۔ یوں لگ رہا ہے جیسے جھاڑیوں میں چھپے تمام بھیڑئیے اچانک ہی چھلانگ مار کر باہر آ گئے اور اب وہ چیر پھاڑ کر رکھ دینا چاہتے ہیں۔ ظاہر ہے میرا اشارہ ان لوگوں کی طرف نہیں جو اس حوالے سے پہلے سے کسی تعصب، بغض ، کینہ یا نفرت کا شکار نہیں اور وہ اس آڈیو کو سننے کے بعد جینوئنلی منفی رائے رکھتے ہیں۔ ایسے لوگوں کی طرف اشارہ نہیں۔ انہیں اپنی رائے رکھنے کا حق حاصل ہے، لیکن وہ ظاہر ہے اس حق کو بھی تسلیم کریں گے جو ہر آدمی کو اپنے موقف کی وضاحت کے لئے حاصل ہے۔ کسی کانقطہ نظر ٹھنڈے دل ودماغ سے سن لینے سے اس کا پورا تناظر واضح ہوجاتا ہے اور پھر آپ کو حق حاصل ہے کہ جومرضٰی رائے اخذ کریں۔


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں

ایک تبصرہ برائے “ہارون الرشید صاحب کی وائرل شدہ آڈیو، چند وضاحتی امور”

  1. سلمان احمد Avatar
    سلمان احمد

    ’’ہارون‘‘ کے رفوگر
    اوہ حضور والا،کہتے ہیں کہ ایک بادشاہ نے ایک رفوگر رکھا ہوا تھا۔ وہ کپڑا نہیں باتیں رفو کرنے کا ماہر تھا۔ وہ بادشاہ سلامت کی ہر بات کی کچھ ایسی وضاحت کردیتا کہ سننے والے سر دھننے لگتے کہ واقعی بادشاہ سلامت نے صحیح فرمایا۔
    ایک دن بادشاہ سلامت دربار لگا کر اپنی جوانی کے شکار کی کہانیاں سنا کر رعایا کو مرعوب کر رہے تھے۔ جوش میں آکر کہنے لگے کہ ایک بار تو ایسا ہوا کہ میں نے آدھے کلومیٹر سے نشانہ لگا کر جو ایک ہرن کو تیر مارا تو تیر سنسناتا ہوا گیا اور ہرن کی بائیں آنکھ میں لگ کر دائیں کان سے ہوتا ہوا پچھلی دائیں ٹانگ کے کھر میں جا لگا۔
    بادشاہ کو توقع تھی کہ عوام داد دے گی لیکن عوام نے کوئی داد نہیں دی۔ وہ بادشاہ کی بات پر یقین کرنے کو تیار نہیں تھے۔ بادشاہ بھی سمجھ گیا کہ ضرورت سے زیادہ لمبی چھوڑ دی۔ اپنے رفوگر کی طرف دیکھا۔ رفوگر اٹھا اور کہنے لگا : ” حضرات! میں چشم دید گواہ ہوں اس واقعے کا۔ دراصل بادشاہ سلامت ایک پہاڑی کے اوپر کھڑے تھے اور ہرن بہت نیچے تھا۔ ہوا بھی موافق چل رہی تھی ورنہ تیر آدھا کلومیٹرکہاں جاتا ہے۔ جہاں تک تعلق ہے آنکھ کان اور کھر کا تو عرض کردوں کہ جس وقت تیر لگا ہرن دائیں کھر سے دایاں کان کھجا رہا تھا۔ ”
    عوام نے زور زور سے تالیاں بجا کر داد دی۔
    اگلے دن رفوگر بوریا بستر اٹھا کر جانے لگا۔ بادشاہ پریشان ہوگیا۔ پوچھا : ” کہاں چلے؟ ”
    رفوگر بولا : ” بادشاہ سلامت میں چھوٹے موٹے تروپے لگا لیتا ہوں شامیانے نہیں سیتا۔”
    محترم خاکوانی صاحب آپ ایسی ہی ایک وضاحت تب بھی دے چکے ہیں جب ڈاکٹر عامر لیاقت اور موصوف کے درمیان ایک ٹاک شو میں گرما گرمی ہوئی اور اگلے روز ڈاکٹر عامر لیاقت نے کالم لکھا ’’دنیاکابوڑھاکیڑا‘‘ جس پر موصوف نے تو کوئی جواب نہیں دیا مگر شاید آپ کے تن بدن میں آگ لگ لگئی اور آپ نے ڈاکٹرعامرلیاقت کیخلاف جوابی کالم لکھ مارا۔۔کہتے ہیں کہ تہذیب کا لبادہ اوڑھنے سے اندر کی گندگی چھپتی نہیں ہے ،موصوف کے بارے میں اگر حقائق جاننے ہوں تو ذرا ان کے ساتھ وقت گزارنے والوں سے ہی سن لیجیے ۔بادالنظر میں محسوس ہورہا ہے کہ آپ بھی ’’ہارون‘‘ کے رفوگر ہیں۔