آدمی گڑھا کھودتے ہوئے

چور اور اندھا (بچوں کے لئے اردو کہانی)

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

قدیم مصنف/ نا معلوم،
عربی سے ترجمہ/ ڈاکٹر میمونہ حمزہ:
پرانے زمانے کی بات ہے کہ ایک اندھا اپنے خوبصورت گھر میں امن اور سلامتی کے ساتھ تنہا رہتا تھا، اللہ تعالی نے اسے سمجھداری، عقل اور علم کی دولت دے رکھی تھی۔ اس کے گھر کے ساتھ ہی ایک سرسبز اور تروتازہ باغ بھی تھا، اندھا اس باغ کا بہت خیال رکھتا اور اس میں پھول پودے لگانے اور ان کی حفاظت میں کوئی کمی نہ چھوڑتا تھا، ایک روز اندھے کو ایک بہت بڑی دولت ملی، اسے کافی زیادہ فائدہ ہوا تھا، اس دولت کو چھپانے کے لئے وہ خوشی خوشی اپنے باغ میں گیا، اور اپنی دولت کی حفاظت کے لئے ایک درخت کے نیچے گڑھا کھودا (کیونکہ پرانے زمانے میں بنک وغیرہ نہیں ہوتے تھے، لوگ اپنا مال و دولت مختلف طریقوں سے چھپا کر محفوظ رکھا کرتے تھے)، اندھے نے اس سارے مال کو احتیاط سے زمین میں دفن کر کے مٹی برابر کر دی۔

کچھ مہینے بعد اندھے کو مال کی ضرورت پڑی، وہ باغ میں گیا اور اس درخت کے نیچے سے زمین کھودی تاکہ مال اس میں سے نکال لے، اس نے گڑھے کو کافی گہرا کر لیا مگر اسے اس کا مال نہ ملا، اب تو اندھا بہت پریشان ہوا، اور سوچنے لگا کہ وہ شخص کون ہے جس نے اس کے گھر کے باغ سے اس کا تمام مال و دولت چرا لیا، وہ سوچتا رہا، اور خود سے سوال کرتا رہا: ’’کون شخص ہو سکتا ہے، جس نے اسے مال یہاں دفن کرتے دیکھا ہو اور پھر مناسب وقت پر خاموشی سے اسے وہاں سے نکال لیا ہو؟‘‘، آخر کار اسے یہی سمجھ آیا کہ یہ ضرور اس کے چور ہمسائے کی کارستانی ہے، جس نے بڑی چالاکی سے اس کا مال نکال لیا ہے۔

اندھے نے کوئی چال سوچنا شروع کی تاکہ وہ اپنے مال کا سراغ لگا سکے، وہ سوچتے سوچتے مسکرا اٹھا، اور اپنے پڑوسی چور کے گھر چلا گیا، اور اس سے کہنے لگا کہ میں تم سے ایک اہم معاملے میں مشورہ کرنا چاہتا ہوں، جیسا کہ تم جانتے ہو کہ مشورہ مانگنے والا نامراد نہیں ہوتا۔ چور ایسے بن گیا جیسے وہ اندھے کا بہت بڑا ہمدرد ہے، اور توجہ سے بولا: ’’کیوں نہیں، آپ کہئے، میں آپ کو ضرور اچھا مشورہ ہی دوں گا‘‘۔

اندھا کمال ذہانت سے بولا: ’’آج مجھے بہت زیادہ منافع ملا ہے، میں اس مال کے لئے پریشان ہوں، اور اسے کسی بہت محفوظ جگہ رکھنا چاہتا ہوں تاکہ اسے کوئی نقصان نہ پہنچے، مجھے بتاؤ کہ کیا میں اسے شہر کے اس مرکز میں جمع کروا دوں جہاں امانتیں جمع کروائی جاتی ہیں،وہاں میں اسے کسی امانت دارشخص کے پاس رکھوا دوں تاکہ اس کی انفرادی حفاظت سے بچ جاؤں یا اسے اپنے باغ کے کسی محفوظ مکان پر دفن کر دوں، مجھے تمہارا درست مشورہ چاہیے‘‘۔

چور بظاہر غور و فکر میں ڈوب گیا اور کچھ لمحے غور و خوض کرنے کے بعد گویا ہوا: ’’کسی شخص کی دیانت پر بہت زیادہ بھروسہ نہیں کیا جا سکتا، بہتر یہی ہو گا کہ آپ اسے گھر کے باغ میں محفوظ جگہ دفن کر دیں‘‘، اور وہ دل میں بڑی خباثت سے سوچ رہا تھا کہ اب اندھا اس مال کو بھی پہلی جگہ ہی دفن کرے گا، اور میرے لئے اسے حاصل کرنا کیا مشکل ہو گا؟۔

اندھے نے بظاہر اس کی بات پر اطمینان کا اظہار کیا، اور بولا : ’’مجھے تمہاری رائے سے اتفاق ہے، میرا بھی یہی خیال ہے کہ باغ کی زمین مال چھپانے کے لئے ایک محفوظ جگہ ہے‘‘۔

اندھے کے گھر جانے کے کچھ دیر بعد پڑوسی چور نے گھر سے چوری شدہ مال اٹھایا اور بڑی احتیاط سے اندھے کے باغ میں اسی مقام پر دفن کر آیا تاکہ اندھا پورے اطمینان سے باقی مال بھی وہیں دفن کر دے۔

چور بڑی بے چینی سے اندھے کے باغ میں جانے کا انتظار کرنے لگا، اس نے اپنی چھت سے اندھے کو باغ کی جانب جاتا دیکھا تو اس کی خوشی دیدنی تھی، اس کا اندازہ درست تھا، اندھا اسی درخت کے نیچے زمین کھود رہا تھا، کچھ دیر بعد اندھا واپس اپنے گھر کے اندر چلا گیا۔

چور رات کی تاریکی چھانے کا انتظار کرنے لگا، اور جب رات گہری ہو گئی، وہ دبے پاؤں باغ میں داخل ہو گیا، آج اسے اتنا مال و دولت ملنے والا تھا کہ اس کی تنگ دستی اور غربت ختم ہو جائے گی، وہ بے حد مسرور اور خوش تھا، اس نے آہستگی سے مگر تیزی سے ہاتھ چلائے، گڑھا کچھ گہرا ہوا تو مال کے بجائے کاغذ کا ایک ورق اس کے ہاتھ میں آگیا، جس پر لکھی عبارت اس کا منہ چڑا رہی تھا:
’’جو عقل اور ذہانت سے سوچتا ہے، احمق اسے دھوکا نہیں دے سکتے‘‘۔
سچ ہے ذہانت اور سمجھداری احمقوں کے بس کا کام نہیں۔
٭٭٭


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں