برگد کا درخت

ماسٹر عبدالغفور

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

ڈاکٹرشائستہ جبیں:
گاؤں کے ساتھ متصل ایک مزار تھا. ایک احاطے میں چند قبریں اور اردگرد وسیع رقبے پر چاردیواری تھی بلکہ چاردیواری کیا دو دیواری کہنا مناسب ہو گا، کیونکہ اس چوکور احاطے کے دو طرف چھوٹی سی نا پختہ سی دیوار تھی اور سامنے والا والا حصہ کھلا تھا۔ اس احاطے میں کھجور کے پتوں سے بنی چٹائی پر تہبند، قمیض پہنے، تازہ حقہ گڑگڑاتے، کتابوں کے تین بڑے بڑے تھیلے پاس رکھے، مختلف قسم کی رنگ برنگی گولیوں کی پڑیاں پھانکتے اور چائے کے کپ پر کپ چڑھاتے ماسٹر عبدالغفور براجمان ہوتے تھے. وہ گاؤں کے پرائمری اسکول میں استاد تھے لیکن اپنے ظاہری حلیے سے وہ کوئی سرکاری ملازم معلوم نہ پڑتے تھے۔

صبح سویرے اُن کے بیٹے اور خاص طور پر بڑا بیٹا (جو ذہنی طور پر پسماندہ تھا اور ماسٹر صاحب سے بہت قریب تھا) کتابوں کے تھیلے اور چٹائیاں اُٹھائے ہوتے، حقہ ماسٹر صاحب نے بنفس نفیس تھام رکھا ہوتا اور بیٹوں کے جلو میں دربار کے احاطے میں پہنچ جایا کرتے. ان کا سرکاری اسکول بھی اسی احاطہ میں لگتا تھا لیکن وہ اس کے اوقات سے بے نیاز شام تک وہیں موجود رہتے اور گاؤں کے بچوں میں علم بانٹنے میں مصروف رہتے.

ساتھ لائے تھیلوں میں نصاب کی درسی کتب بوقت ضرورت برآمد کی جاتی رہتیں اور بچوں پر مشق سخن جاری رہتی. ایک تھیلا ان کی ذاتی کتب جن میں مختلف ناول اور ڈائجسٹ شامل ہوتے پر مشتمل ہوتا تھا جن کا وہ سارا دن ساتھ ساتھ مطالعہ جاری رکھتے۔ یہ وہ فی سبیل اللہ تعلیمی ادارہ جہاں داخلے کے لیے بس والدین کا بچے کو بھیج دینا ہی کافی ہوا کرتا تھا۔

ماسٹر صاحب کو اس امر کی پروا نہیں پروا نہیں ہوتی تھی کہ بچہ کسی کسان کا ہے، زمین دار کا ہے یا کسی مزدور کا ہے، ان کا بس ایک ہی معیار تھا کہ بچہ پڑھنے والا ہو۔ اگر کوئی ایسا طالب علم ہاتھ آ جاتا جو پڑھنے میں ہشیار ہوتا تو ماسٹر صاحب کی تو گویا چاندی ہو جاتی تھی۔ خود قلم تراش تراش کر دیتے۔ لکھائی پر خاص محنت کرانا ان کا طرہ امتیاز تھا۔

دوسرا وہ جس چیز پر بہت محنت کرتے وہ انگریزی زبان تھی۔ گرائمر کے قواعد ہوں، یا انگریزی شاعری، ناول ہوں یا ڈرامے ماسٹر صاحب گاؤں کے بچوں کو سب پڑھا دیا کرتے تھے۔ گاؤں کا ایک مزدور جس کی نسلوں میں شاید ہی کوئی اسکول گیا ہو کے ذہین بچے پر اتنی محنت کی، اپنے پاس سے کاغذ قلم لے کر لکھائی کرواتے یہاں تک کہ اس کی لکھائی کسی ماہر خطاط کی لکھائی لگتی تھی، بچے کا باپ اس کی ذہانت کی تعریفیں سن کر حیرت زدہ رہ جاتا تھا، وہ بچہ اب ایک سرکاری اسکول میں استاد ہے اور اپنی قابلیت اور دیانت سے اپنے اہلِ خانہ اور معاشرے کو بھرپور فائدہ پہنچا رہا ہے۔

ضرورت مند گھرانوں کے بچوں کے لیے خود کاغذ کے دستے خریدتے، اپنے ہاتھ سے سلائی کر کے رجسٹر بنا کر دیتے، قلم، دوات کا انتظام کر دیتے. جو لوگ قوت خرید رکھتے تھے ان کے بچوں کے لیے مختلف کتب ان سے ہی منگواتے اور فارغ ہونے پر وہ کتب اپنے بک بنک میں دیگر ضرورت مند بچوں کے لیے جمع کر لیتے.

گاؤں میں شاید وہ واحد فرد تھے جن کے پاس چند سو سہی لیکن ذاتی کتب خانہ تھا. میرے جیسے غیر نصابی کتب کے مطالعہ کے شوقین اور نصابی پڑھائی کے حوالے سے لاپرواہی برتنے والے بچوں کو وہ ہمیشہ امتحان میں اچھے نمبر لانے پر اپنے کتب خانہ سے کتابیں مستعار دینے کا لالچ دے کر اچھی کارکردگی پر اکسایا کرتے تھے۔ آج ان کے بارے میں سوچیں تو وہ کسی ناول کا کردار معلوم ہوتے ہیں کیونکہ زندگی میں ایسا درویش منش شخص اور کوئی نہیں دیکھا جو کسی صلے کی تمنا اور ستائش سے بے نیاز خون جگر جلا رہا ہو۔

صبح سے شام تک بچوں کی تعلیم میں مصروف رہتے لیکن کبھی کسی سے کوئی معاوضہ طلب نہیں کیا۔ والدین ساتھ بھی نہیں آتے تھے، بچہ بستہ پکڑتا تھا اور آ کے بیٹھ جاتا تھا اور ماسٹر صاحب اپنے وسیع دامن میں اسے سمیٹ لیتے تھے۔ آندھی ہو یا طوفان، گرمی ہو کہ سردی، ان کا صبح سے شام کا شیڈول تبدیل ہونا ممکن نہ تھا۔ دوپہر کا کھانا بڑا بیٹا وہیں پہنچا جاتا، دوست احباب، رشتہ دار وغیرہ نے ملنا ہوتا، ان کی مجلس بھی وہیں لگتی اور ساتھ ساتھ بچوں پر بھی نظر رکھتے۔

ان کے تراشے ہوئے کچھ ہیرے ملک کے بہترین اداروں میں اعلیٰ عہدوں پر منتخب ہوئے تو ان کا سانولا چہرہ جس پر ہمیشہ ایک چمک ہوتی تھی، دنوں خوشی سے مزید پر نور ہوا رہا۔ جب کبھی وہ شاگرد گاؤں آتے اور ماسٹر صاحب کے پاس چٹائی پر بیٹھ کر چائے پی رہے ہوتے تو اُن کی خوشی دیکھنے کے قابل ہوا کرتی تھی۔ کبھی اپنے کسی طالب-علم سے چاہے وہ کتنے ہی اعلیٰ عہدے پر کیوں نہیں تھا، کسی قسم کی مراعات کی توقع نہیں کی۔

برگد کے گھنے پیڑ کے نیچے بیٹھے وہ خود بھی اُسی برگد کی مانند تھے جو نسلوں کو اپنے سائے میں پناہ دیتا ہے، جس کا ظرف اس کے پتوں کی طرح وسیع اور حوصلہ تنے جیسا مضبوط ہوتا ہے۔ ہم سب بہن بھائیوں پر اُن کی خصوصی توجہ اور شفقت تاحیات رہی، ہماری ہر کامیابی پر وہ والدین کی طرح خوش ہوئے اور اُن سے بڑھ کر ہم پر فخر کیا۔ آج جب ایسے کردار محض کہانیوں تک محدود ہو گئے ہیں، مجھے ناز ہے ایسے درویش کی بے لوث محنت ہماری بنیاد میں شامل ہے۔

علم، سادگی، قناعت، عاجزی، درویشی، بے نیازی کا ایسا امتزاج اب کہاں دیکھنے کو ملنے والا ہے. جنہوں نے خود کو حقیقت میں مٹی کا سمجھا اور مٹی پر بیٹھ کر ہی عمر گزار دی. ان کے لگائے ہوئے پودے زندگی کے مختلف شعبوں میں بہاریں دکھلا رہے ہیں۔ ان پودوں کی نمو میں جس درویش کے اخلاص کا پانی ہے وہ کسی نہ کسی انداز میں اپنی جھلک ضرور دکھاتا ہے۔

علم پھیلانے والے بھلا کب مرتے ہیں، وہ تو مر کے بھی اپنے جلائے ہوئے دیوں کی ہر لو میں عکس دکھاتے ہیں. جو صدقہ جاریہ زندہ انسانوں کی صورت انہوں نے چھوڑ ا ہے وہ نصیب والوں کے حصے میں آتا ہے اور یہ نصیب اللہ اپنے ایسے بندوں کو عطا فرماتے ہیں جو عجز و انکسار کا پیکر ہوتے ہیں۔

آسمان تیری لحد پر شبنم افشانی کرے


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں

9 پر “ماسٹر عبدالغفور” جوابات

  1. tooba Avatar
    tooba

    پوچھتے ہیں لوگ مجھ سے میرا مشغلہ۔۔۔۔
    ہے روشنی کاتقسیم کرنا،جگنوں کو پالنا۔۔۔

  2. Neelam sial Avatar
    Neelam sial

    Superb ..Dil Khush hogya ye tehreer parh ky,buhhttt kuch yad aa gya…he’s an amazing teacher and rare persons exist in this world like Sir..unky bary myn jitna bayaan kiya jaye utna kum..may his soul rest in peace..ameen

  3. Ramsha Raza Avatar
    Ramsha Raza

    خدا کرے اُس کی آنکھ کبھی نم نا ہو !
    جو سکھائے ہمیں تعلیم کا ایک لفظ بھی.
    بہت خوبصورت تحریر الفاظ کے عمدہ چناؤ کے ساتھ. اچھے اُستاد یقیناً خدا کی بڑی نعمتوں میں سے ایک ہیں. آپکا کردار اور آپ کی تحریر دونوں ہی آپ کے شفیق اساتذہ کی محنت کی عکاسی کرتے ہیں.👌

  4. حفظہ علی.. Avatar
    حفظہ علی..

    بہت خوبصورت اور جذ بات سے بھری ہوئی تحریر… خدا ہمارے اساتذہ کو ہمیشہ قائم دائم رکھے.. آپ کی ذات آپکے استاد کی عکاسی کرتی ہے.. 👍💕

  5. Sajid Ali Avatar
    Sajid Ali

    Great write up, a tribute to our all great teachers

  6. Rabia bajwa Avatar
    Rabia bajwa

    Bohat he Alla….👌

  7. Uzma abbas Avatar
    Uzma abbas

    This one is the best of all ur writings… Keep it up 👍👍

  8. Muhammad Wajahat Nawaz Avatar
    Muhammad Wajahat Nawaz

    ما شا ء اللہ
    موضوع کا چناؤ تو خوب تھا ہی
    آپ کی لفاظی نے تڑکا لگا دیا۔
    اللھم زد فزد

  9. Iqra kabir Avatar
    Iqra kabir

    A good writer is the one whose writings present a graphic panorama of his or her thoughts in the form of their writings . Master sahab sitting under the giant tree teaching with
    fulll attention to all and sundry is clearly visible to the eyes of the mind . This article is indeed a refreshment of the mind’s lost treasures of obedience and devotion .