محمد ندیم، پرنسپل گجرات کالج
جب تک گھر سے باہر نہ نکلے تھے تو دنیا داری کا پتہ نہ تھا ، آنکھیں ذرا سی کھلی تو گھر سے باہر نکلے، تو آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئی کہ گھر سے باہر یہ سب کچھ دیکھنا ہوتا ہے، سننا ہوتا ہے ، دیکھنے اور سننے میں کچھ ناپسندیدہ باتیں اور چیزیں بھی شامل ہوتیں ،اور کچھ ایسی کہ چھوٹی عمر والا حیرت زدہ ہو جاتا ہے ۔ وقت کی روانی عمر کو آگے لیتی چلی گئی تو دیکھنے،سننےاورسمجھنے کی صلاحیت میں اضافہ ہوتا چلا گیا ۔عمر کے چالیس برس بعد تک بھی یہی اندازہ تھا کہ اپنے ملک میں کافی حد تک سفر بھی کیا ، مختلف مقامات کا وزٹ کر کے یہ شوق بھی پیدا ہوا کہ جو دیکھا، سنا اور جو کہا ، کو سفرنامہ کی شکل میں اپنے طلباء، دوست و احباب تک سوشل میڈیا کے ذریعے پہنچایا جائے۔ سفر نامہ پڑھنے والوں نے اس سلسلے میں، میری کافی حوصلہ افزائی کی۔
ترکی جانے کا پروگرام بس یک دم ہی بن گیا ۔ اپنے ایک دوست عمر عرفان کے اصرار پر کہ موقع سے فائدہ اٹھانا چاہیے، ترکی کا وزٹ بھی ہوجائے گا اور اس کے ساتھ ساتھ Manisa میں “IMN”. کی کانفرنس میں شرکت کا موقع بھی مل جائے گا۔ جھٹ پٹ فیصلہ کو حتمی شکل دی اور ویزہ اپلائی کرلیا ۔ سات دن بعد ویزہ بھی حاصل کر کیا ۔ یوں ترکی جانے کے لئے عمان ایئرلائن کا انتحاب کیا ۔
پہلی منزل
لاہور سے ہمارے سفر کا آغاز ہوتا ہے ۔ سفر کے آغاز میں موڈ بڑا خوشگوار ہوتا ہے ،نئے مقامات کی سیر و تفریح ، بیرونی دنیا کے لوگوں سے ملاقات جبکہ واپسی پر تھکن بیزاری ، جیب کا خالی ہونا وغیرہ سے موڈ بھی عجیب سی کیفیت سے دوچار ہوتا ہے.
پتہ نہیں وہ کون لوگ ہوتے ہیں جنھیں جہاز میں کھڑکی والی سیٹ ملتی ہے ۔ ایک طرف ہمیں کھڑکی والی سیٹ نہ ملی، دوسری طرف مزید ستم ظریفی یہ کہ اردگرد ماحول بھی مردانہ ۔ ایسے موقع پر سوجانا ہی غنیمت سمجھا ۔عمان سے استنبول سفر قدرے آرام دہ رہا ۔ سات گھنٹے کے طویل سفر کے بعد استنبول پہنچ ہی گئے ۔ ائیرپورٹ کا ماحول مختلف ملکوں کے لوگوں کے ملاپ سے “ متنجن” بنا ہوا تھا ۔ یورپ افریقہ اور عرب ممالک کے باشندے کثرت سے نظر آرہے تھے ۔ ائیرپورٹ پر اپنے کالج کے دو طلباء نے ہمارا استقبال کیا۔ ان کی والہانہ محبت و عقیدت دیکھ کر اللہ تعالی کا شکر ادا کیا ۔استنبول میں اگلی فلائٹ کے انتظار میں مزید پانچ گھنٹے ائیرپورٹ میں ہی گزار دیئے ۔ صبح سات بجے استنبول سے ہم ازمیر کی طرف محو پرواز ہو گئے ۔ ایک گھنٹہ اور بیس منٹ کے بعد ہم ترکی کے ایک بہت خوبصورت شہر “ازمیر” میں جا پہنچے ۔ جہاں ہمارا قیام چار دن کا تھا ۔ازمیر کا موسم استنبول کے مقابلے میں ذرا سا گرم تھا اور گرمی کا احساس دن کے اوقات میں زیادہ ہوتا ۔سمندر قریب ہونے کی وجہ سے رات سرد ہو جاتی۔
چوبیس گھنٹے کے سفر کے بعد جب ہوٹل پہنچے تو بدن تھکن سے چور ہو چکا تھا ۔کچھ دیر آرام کرنے کے بعد جب اپنے کمرے کی کھڑکی کھولی تو سڑک کے پار سمندر کی خوبصورت لہروں کو دیکھا ۔تو آدھی تھکنُ تو اس وقت اتر گئی ۔اردگرد کا نظارہ بہت صاف و شفاف نظر آ رہا تھا ۔ جس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اس شہر کی فضا کتنی صاف ہوگئی.(جاری ہے)
………………………………..
مصنف عرصہ بیس سال سے تعلیم کے شعبہ کے ساتھ منسلک ہیں ۔ گجرات میں اٹھارہ سال سے دو پرائیوٹ کالج ،گجرات کالج کے نام سے قائم کئے ہوئے ہیں ، لکھنے کا شوق دو سال پہلے “ سفرنامہ سکردو” سے شروع ہوا ۔ مختلف معاشرتی مسائل پر بھی لکھتے رہتے ہیں لیکن سفرنامہ لکھنے سے زیادہ لطف محسوس کرتے ہیں.
ایک تبصرہ برائے “سفر نامہ ترکی(پہلی قسط)”
سفر نامہ جتنا دل چسپ ہو اتنا زیادہ مقبول ہو گا۔ دل چسپی کے پہلو تلاش کرنے والی آنکھ حرکت میں رہے تو ایسا ہو سکتا ہے۔