ھنادی ایمان، کالم نگار، بلاگر

یہ جو کرامات کرے ہے یا کرب دئیے ہے

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

ھنادی ایمان

کچھ عرصہ پہلے ہماری گھریلو ملازمہ جو کہ عرصہ دس سال سے ہمارے ساتھ تھی۔ بہت با اعتماد اور ایماندار عورت ہے ۔ اچانک اس کی بھتیجی عمر ۱۱ سال لاہور ائیر پورٹ کی قریبی آبادی سے اپنے ہمسائیوں سمیت غائب ہوئی ( ہمسائے جو کسی بڑے زمیندار کی بھینسوں کی دیکھ بھال کے لیئے یہاں وقتی رہائش پزیر تھے ، کواٹر چھوڑتے ہوئے ساتھ والوں کی بچی منہ اندھیرے اٹھا لے گئے ) پولیس نے حسب روایت لڑکی کے باپ کو "لڑکے کے ساتھ بھاگنے کے امکان پر ” یقین کرانے کی کوشش کی، چنانچہ باپ پولیس کی بجائے خود بچی کو ساہیوال اور جہاں جہاں پہنچ سکا ، شبہ ہوا ، امکان لگا ، ڈھونڈنے نکل کھڑا ہوا۔ مزدور تھا بے روز گار ہو کے کتنے دن بھاگتا ؟؟
بالآخر کسی وڈے چودھری کی منت سماجت کر کے پولیس کا تعاون حاصل کیا ۔ اس شرط پر غریب کو تعاون ملا کہ پولیس وین کا پٹرول مغویہ کے باپ کے ذمہ اور اُن سرکار کا چائے پانی بھی۔۔!! ادھار پکڑا بھاگتا رہا ،الخدمت کے وکیل کے علاوہ کسی نے بے لوث اور بلا اجرت اس خاندان کے ساتھ کام نہ کیا۔ گل بھائی تھے جو اسلامک سنٹر سے کبھی گھر سے انکی سنتے بھی ، راہنمائی بھی کرتے رہے ، قانونی کاروائی اور اور کاغزی کاروائی بھی چلاتے رہے ، اس بات کو ابھی چند دن گزرے تھے ابھی معاملہ چل رہا تھا ۔
کہ زینب کیس زبان زدِ عام ہو گیا ۔ میڈیا چیخ پڑا ، اسی اثنا میں بچی کم و بیش ویسی زینب جیسی ہی زیادتی اور تشدد کی داستان لئے وزیر آباد کے نواہی گاؤں کی زمینوں سے بھاگنے میں کامیاب ہوئی ۔ مختصراً قید رکھنے والوں کی گھر کی بچی نے لڑکی کی کچھ راہنمائی کی نکلنے راستہ دکھانے میں کامیاب ہوئی ، ایک بس ڈرائیور نے بچی کی منت سماجت پر رحم کھا کر اس کا یقین کیا اور بمشکل بٹھا لیا، لاہور کے قریب ، کسی رشتہ دار کے فون پر بات کروا کے ، اس بچی کو مطلوبہ مقام پر باپ کے حوالے کیا۔ یوں کافی عرصہ سے بدنام اور سر گرداں پولیس کی کاروائی ختم ہوئی ، پوسٹ انسڈنٹ میڈیکل رپورٹ نے بچی سے ذیادتی کی کہانی درست ثابت کر دی ۔ اذیت اور تشدد کا یہ عالم تھا کہ نشہ آور گولیاں کثرت سے کھلانے سے بچی کا رنگ پیلا ، بھاری چیز کی چوٹوں سے ہاتھ پیر کے ناخن نیلے اور سر کے بال جڑوں سے نوچ دئیے گئے تھے ۔
دو سوالات اہم ہیں ایک تو نظام کا تعاون اور کارکردگی ؟ دوسرا سوال علاقہ ائیر پورٹ جیسے ہائی سکیورٹی کے علاقے میں جہاں موجود بھاری نفری میں فوج سمیت طرح طرح کی تنخواہ دار سیکیورٹی کی موجودگی اور لوگوں کے تحفظ کی حالت ؟؟؟؟
دوسرا واقعہ بھی بہت قریبی رہائش پزیر خوبصورت پٹھان خاندان سےوابستہ ہے ۔ میرے دورۂ قرآن کی مہربان ، میزبان بہن کی بھانجی جو راولپنڈی کے نواہی گاؤں روات میں بیاہی گئی دو بچوں سمیت سکول سے پِک کر کے لاتے ہوئے ، واپسی پر اغوا ہوئی ، لوگوں نے بچے اٹھانے والے شخص کی نشان دہی کی ، اس کے گھر سے خاتون کا موبائل فون اور سم ٹوٹی ہوئی برآمد ہو گئی ، ریمانڈ پر فرد پولیس کی تحویل میں چلا گیا لیکن اب پچیس دن گزرنے کے بعد بھی ہماری پولیس کوئی سراغ نہ لگا سکی۔ مغویہ کے رشتے دار بھی لڑکی کی شرافت کی گواہی دیتے ہیں، شوہر اور سسرال بھی بے چین روتے ہیں، دیکھنے والوں نے بچوں کو بائیک پر بٹھا کر خاتون کو پیچھے بھاگتے رہنےکے منظر کی بھی گواہی دی اور جبری اغوا پر خاتون کے ہاتھ پیر سے رستے خون کے مشاہدے کی بھی گواہی دی گئی ۔ گھر والے ایک ہی بات بولتے ہیں کہ باجی دنیا بڑی ظالم ہے،دنیا بڑی ظالم ہے ۔۔ باجی ان لوگوں نے دیکھا اور کوئی آ گے نہ بڑھا۔
لوگوں میں ہر گزرنے والے دن کے ساتھ پھیلتی مایوسی بڑھ رہی ہے ، گاؤں کے لوگ کہتے ہیں کہ پنڈ میں یہ اس نوعیت کا تیسرا واقعہ ہے ۔ اس سے پہلے بھی دو خواتین اغوا ہوئیں اور کبھی نہیں ملی۔ اس واقعہ کے بعد اس مغویہ خاتون کے رشتہ دار اب افغانستان کی جانب بارڈر پار کرا کے انسانی خرید و فروخت میں ملوث کاروبار کے تزکروں سے دم بخود ہیں۔ یہ خوف انکے رشتہ داروں کا لاہور تک پیچھا کر رہا ہے ۔ کیا کیا ہم نے؟؟ کیا پایا ؟؟ آخر کیا ملا ہمیں؟؟
اتنے سال کی جنگ میں اتنی زندگیاں جھونک کر شائد جو بویا وہ فصل اسی طرح کاٹنی پڑےگی۔!!!
آخر پنڈی کے نام ، اہمیت اور حیثیت سے کون نہیں واقف؟؟ جب انتہائی الرٹ اور ہائی سکیورٹی زون کے آس پاس کے علاقوں میں۔ پنڈی کے نواہ میں۔ کہنے کو سیکیورٹی اداروں کے ہیڈ کواٹر کی ناک کے بالکل آس پاس تحفظ کی یہ حالت ہے تو باقی جگہوں علاقوں، شہروں، قصبوں، کا کیا حال ہے یہ بخوبی اندازہ کیا جا سکتا ہے۔ آخر یہ ادارے مصروف کہاں ہیں، ؟ اگر مقامی آبادی ہی محفوظ نہیں، تو اور ان اداروں کی ترجیحات کیا ہیں؟؟ ان کا کام کیا ہے ؟؟
کیا لا پتہ اور اغوا شدہ لوگوں کی آواز دبا دینا ہی مسئلے کا حل ہے۔۔ ؟؟
اور کیا اس مسئلے کو دبا نے پر ہی پوری قوت صَرف کر دینا کافی ہے ؟؟
کیا اس سے مسئلہ کے حل میں بہت مدد مل رہی ہے اداروں کو؟؟؟
کیا واقعی مشرفوں کا عافیاؤں کو بیچنے کا سلسلہ ابھی تک اندر خانے جاری ہے ؟؟
کیا نیٹو اب بھی قیمت ادا کرتا ہے ان مزدوروں اور ٹیکسی ڈرائیوروں کی جن کو مجرم بنا کر یا دہشت گرد دکھا کر اُن کے ہاتھ "بیچا ” جاتا ہے ؟؟
کیا سکیورٹی اداروں کے نام پر یہ دھندے اب تک چمک رہے ہیں؟؟
کیا انسانی تجارت کے پیسے اب بھی کھرے کئیے جاتے ہیں؟؟
کیا وہ کنٹینر اب بھی بھرے جاتے ہیں افغانستان کی سر زمین پر جس ایک ایک کنٹینر میں حَبس سے ، ہوا اور پانی نہ ملنے سے اکٹھے تین تین سو داڑھیوں والے افغان مارے گئے ؟؟؟
کتنے ہی اور مزید بھیانک سوالات ہیں جو سننے کی سکت نہیں ہے ہم میں۔
جی آپ پرائی جنگوں میں پورا ملک اور قوم جھونک
دیا کر یں ۔۔!!
لیکن اپنا اندر تو محفوظ رکھیں۔ عوام کا مفاد تو مقدم رکھیں۔
زیادہ تر آبادی سرکاری تنخواہ پر نہیں پلتی ۔ اپنے ہاتھ پاؤں خود مارتی ہے اور اپنی گزر اوقات اور اپنے تحفظ کی فکر آج ہم خود کرتے ہیں۔
یہ الگ موضوع ہے کہ میڈیا کی بے حیائی نےاور بے روزگاری کی بھوک نے نہ باہمی لحاظ رہنے دیا ، نہ محلہ داری کا نظام اور نہ ہی باہمی خاندانی بھروسے بچتے نظر آتے ہیں۔
سب سے بڑھ کر جو تکلیف دل و دماغ شل کر رہی ہے اور جو زہر وجود میں سرایت کر چکا ہے، وہ یہ ہے ۔۔ کہ یہ آگ میرے گھر کے اندر تک پہنچ چکی ہے۔ یہ آگ ہمارے گھروں میں آ چکی ہے ، یہ
داخل ہو چکی ہے جناب ِ والا لگ چکی ہے۔
میرے ملازم اور میرے ہمسائے پر حملہ مجھ پر حملہ ہے۔ جناب ادارے بھی اب آنکھیں کھولیں، کان کھولیے کچھ ہوش کے ناخن لیجئیے ۔ مخلوقِ خدا مٹ رہی ہے۔


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں