ڈاکٹرجویریہ سعید، اردو کالم نگار، ماہر نفسیات

’انٹروورٹ‘ انسان

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

ڈاکٹرجویریہ سعید:

وہ حقیقتاً ایک انٹروورٹ ہیں۔ کم گو، حلیم اور منکسر المزاج۔ ستائش کی خواہش تو بڑی بات ہے ،محفل میں اپنا تعارف کرواتے وقت بھی ڈنڈی مار جاتے ہیں۔

اتنا دھیما بولتے ہیں کہ سننے والے کو پوری توجہ مرکوز کرنی پڑے۔ ایک بے لوث اور انسان دوست شخصیت جس کی ساری زندگی دوسروں کی خدمت سے عبارت رہی۔

اپنے بچوں سے پہلے رشتے داروں، مریضوں اور جان پہچان والوں کی ایک طویل قطار تھی ، جو ان کی منتظر رہتی تھی یا جن کی ذمہ داری انہوں نے لے رکھی تھی۔

خاموش سمندر کی طرح ۔ مجھے کوئی ایک بھی بوسہ یا گرم جوش سا hug یاد نہیں۔ پڑھائی کے معاملے میں کمی برداشت نہ تھی۔ ہمیشہ یہی کہتے رہے کہ انسان کو ساری زندگی پڑھنا چاہیے۔ تعلیم حاصل کرنے کی کوئی عمر نہیں ہوتی۔ سو میں سے اٹھانوے نمبر لینے کی خوشخبری پر فرماتے تھے کہ باقی کے دو نمبر کہاں گئے۔ ساتویں جماعت میں تھی جب انہیں اسی سنجیدہ چہرے کے ساتھ Gray’s Anatomy خرید کر لاتے دیکھا۔ کتابوں کی میز پر سیٹ کرتے ہوئے بولے:

”یہ تمہارے لیے ہے۔ “اور میرے دل میں وہ جملہ ہمیشہ کے لیے نقش ہو گیا۔

میٹرک کے امتحانات کے بعد اخبار پڑھتے پڑھتے پوچھنے لگے ۔۔ ”فائٹر پائلٹ بننا ہے؟“

اولڈ اسکول ایسے کہ باقاعدہ تختی لکھنا سکھائی، اردو کی گنتی یاد کروائی، کیلکولیٹر کے استعمال پر پابندی تھی اور ٹیوشن لینے کو نالائقی خیال کرتے تھے۔ یہاں تک کہ میڈیکل کالجز کے داخلہ ٹیسٹ کی تیاری کے لیے بھی کہیں داخلہ نہیں لینے دیا۔

گرمیوں کی تعطیلات میں فجر سے اٹھا کر پہاڑے سنتے تھے۔ ریاضی اور سائنس میں کم نمبرز لینے کی اجازت نہ تھی، اردو غلط بولنے پر یا ہلکا لفظ بولنے پر ڈانٹ پڑتی اور پرائمری اسکول سے شادی ہونے تک ٹی وی پر آنے والے مشاعرے ساتھ سنے جاتے۔

تعریف کبھی نہیں کی مگر ہمیں ہمیشہ خبر ہوجاتی تھی کہ کس بات پر وہ بے حد خوش ہوں گے۔ ان کی چہرے کی وہ ایک مخصوص مسکراہٹ ہمارے لیے گولڈ میڈل سے کم نہ تھی۔

میں جب زندگی سے مایوس اتھاہ غاروں میں تھی تو میرا ہاتھ پکڑ کر زندگی کی ڈگر پر واپس لانے والی ان کی ہی دھیمی آواز اور خاموش مگر مضبوط پشت پناہی تھی۔

بیٹیوں کے باپ کے ذہن میں عزت و توقیر کے لیے بس ایک ہی بڑا واضح اور مضبوط آدرش تھا۔ تعلیم حاصل کرنا۔ اور اونچے خیالات رکھنا۔

احترام انسانیت میں نے آپ سے سیکھی ہے۔ عاجزی اور بے لوثی کا میرے ذہن میں ایک ہی تصور ہے اور وہ آپ ہیں۔

کنسلٹنٹ سائکائٹرسٹ ہونے کے باوجود اپنے غریب مریضوں کے لیے سرکاری اسپتالوں کے چکر کاٹتے میں نے انہیں خود دیکھا ہے۔

انسانوں کے ہجوم میں اگر کسی کے ساتھ خوش خوش بیٹھیں گے تو وہ کوئی چائے والا، ڈرائیور ، یا چوکیدار ہوگا۔

اتنی مصروف اور متحرک زندگی گزاری ہے کہ جو جانتا ہے وہ حیران ہوتا ہے۔ چند لمحوں کے لیے گھر آنے والے کو ہر چیز تیار چاہیے ہوتی تھی۔ جوتے، تولیہ، کھانا، گلاس میں لبالب بھرا ہوا ٹھنڈا یخ پانی، گرمیوں میں گھر کی ہر کھڑکی کھلی ہوئی، اور سرما میں ہر کھڑکی بند۔ ایک چیز بھی ادھر سے ادھر ہو تو سخت ڈانٹ پڑتی اور میری ڈاکٹر امی ایک پیر پر ان کے آگے پیچھے پھرتی رہتیں۔

عید کے دن کے علاوہ کبھی چھٹی نہیں کی حتی کہ حج پر گئے تو وہاں بھی دور دراز سے لوگ مریض دکھانے آئے ہوئے تھے۔

مگر اس مصروفیت کے باوجود، بچوں سے پرچے کے سوال پوچھنا، رشتہ داروں کی خیریت معلوم کرنا،ہر ایک سے ملنا جلنا، ہمیں ہر ہفتہ سیر پر لے کر جانا، ڈرائیونگ سکھانا، باہر کھانا کھلانے لے جانا، دن میں کم از کم ایک وقت کھانا ساتھ کھانا۔ ساتھ اخبار پڑھنا اور اتوار والے دن قرآن کی کلاس میں لے کر جانا۔

البتہ وقت ہمیشہ محدود ہوتا اور ہمیں اور دوسروں کو علم ہوتا کہ ہم ہر جگہ جائیں گے بھی ضرور مگر سب سے پہلے روانہ بھی ہوجائیں گے۔

کبھی شاید اپنی پلیٹ میں کھانا بھی خود نکال نہ سکتے ہوں کہ امی ان کے آنے پر کھانا اور پانی کا گلاس بالکل تیار میز پر سجا کر رکھتی تھیں۔ اور اب ۔۔۔ اب کبھی میں اسپتال سے گھر آؤں تو خوشبو دار مٹر پلاؤ اور مرغی کا سالن ہی نہیں ، رمضان میں جلے ہوئے پکوڑے بھی میز پر سجے مل جاتے۔ میرے ہاتھوں سے برتن لے کر کہتے ہیں:

”ارے میں دھو کر رکھ دوں گا۔“
اور میں قہقہہ لگا کر امی سے کہتی ہوں کہ یہ کیا ماجرہ ہوگیا ہے۔ فون کی دوسری طرف امی خوش ہو کر ایسے مسکراتی ہیں جیسے بہت فخر ہو اپنے صاحب پر۔

بچوں کو صبح دوپہر شام قرآن اور نماز پڑھاتے ہیں۔ اسپتال کو نکلنے لگوں تو زبردستی کلونجی اور لونگ کھلاتے ہیں۔

پیرنٹنگ کے نئے نئے اصولوں کے چارٹ پر نشان لگانے لگوں تو کہیں وہ فیل ہوجاتے ہیں اور کہیں پاس۔۔۔
مگر انسانوں کو
Checked boxes
سے نہیں پرکھا جاتا۔

میری شخصیت میں اگر انسانی ہمدردی کی کوئی رمق ہے تو وہ میرے لاشعور نے اسی خاموش انٹروورٹ انسان کی زندگی سے جذب کی ہے۔
میرے اندر کہیں تواضع ہے تو وہ بھی انہی کی وراثت ہے۔
کمزور ہوں تو وہ بھی ان کی عطا ہے۔

میری یادداشت میں ایک بوسہ، ایک گرم جوش معانقہ یا سراہے جانے والا ایک لفظ بھی محفوظ نہیں ۔۔ مگر ہم تینوں بہنوں کو پتہ ہے کہ وہ ہماری کن باتوں پر خوش ہوتے ہیں، انہیں ہماری کتنی فکر ہے، اور ہماری پشت پر وہ کب اور کیسے کھڑے ہوں گے۔

انسانوں کو checked boxes کی فہرست سے نہیں جانچتے، اسی لیے امی نے ان کی زچ کردینے والی عادتوں پر جھنجھلا کر، خفا ہوکر اور خوب رو دھو کر بھی یہ کہا:

”دیکھ لینا قیامت کے روز اللہ تعالی بھی ان کی ہی طرف داری کریں گے۔“

( مجھے عرصے سے یہ محسوس ہوتا رہا کہ یہ مجھ پر ان کا قرض ہے۔ بولنے والوں پرخاموش انسانوں کا قرض ہوتا ہے نا۔ )


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں

ایک تبصرہ برائے “’انٹروورٹ‘ انسان”

  1. زبیدہ رؤف Avatar
    زبیدہ رؤف

    بہت اچھی تحریر ھے ،بہت اچھے انسان کے لئے ۔