رضوان رانا، اردوکالم نگار

اصل کامیابی

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

رضوان رانا :

زندگی میں کچھ واقعات ایسے پیش آتے ہیں جو آپ کو مکمل طور پر تبدیل کر کے رکھ دیتے ہیں.
گزشتہ شب میں کچھ رسائل کا مطالعہ کر رہا تھا تو مصر کی معلمہ کے سچے واقعے کو پڑھتے ہوئے مجھے میرے پیارے والد محترم کی یادوں نے گھیر لیا.

مصر میں قرآن کی ایک معلمہ ہمیشہ اپنے شاگردوں کو نصیحت کرتی تھی کہ قرآن پاک کی اس آیت کے مطابق زندگی گزاریں:
”وعجلت الیک رب لترضی“
(اے پروردگار میں نے تیری طرف آنے میں جلدی کی تا کہ تو خوش ہو)

وہ کہا کرتی تھی کہ میں اس آیت سے بہت متاثر ہوں اور جب بھی میں اذان کی آواز سنتی ہوں اور اگر میں کسی بھی کام میں مصروف ہوں، میں اپنے آپ کو یہ آیت یاد دلاتی ہوں اور سب کچھ چھوڑ کر نماز ادا کرنے کھڑی ہو جاتی ہوں۔ رات کو 2:00 بجے جب تہجد کا الارم بجتا ہے اور میں گہری نیند میں مزید سونا چاہتی ہوں تو یہ آیت مجھے یاد آتی ہے اور مجھے جگاتی ہے.

اس خاتون کے شوہر کی عادت تھی کہ کام سے واپس گھر آتے وقت وہ اسے فون پر کھانے کے متعلق ہدایات دیتا تا کہ اس کے گھر پہنچنے پر گرما گرم کھانا تیار ملے.

اور وہ کھانا کھا کر سو جائے. ایک دن اس نے فون پر مہشی کھانے کی فرمائش کی (انگور کے پتوں میں چاول بھرے جاتے ہیں اور پھر ان کو ہلکی آنچ پر پکنے رکھا جاتا ہے۔ بہت وقت طلب اور مشہور مصری ڈش ہے)۔

اتنی دیر میں اذان کی آواز سنائی دی تو اس کے صرف تین رولز رہ گئے تھے (جن کے بھرنے میں زیادہ سے زیادہ پانچ منٹ لگتے) لیکن اس نے حسب عادت سب کام چھوڑے اور نماز ادا کرنے کھڑی ہو گئی.

اس خاتون کا شوہر اسے بار بار فون کرتا رہا لیکن کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔ جب وہ گھر پہنچا تو اس نے دیکھا کہ اس کی بیوی سجدے میں ہے اور کھانا ابھی تک تیار نہیں ہے۔ اس نے دیکھا کہ صرف تین رولز بھرنے رہ گئے ہیں تو اسے شدید غصہ آیا اور اسی غصے کے عالم میں اس نے اپنی بیوی کو ڈانٹنا شروع کر دیا
”تم اپنا کام ختم کر کے دیگچی چولہے پر رکھ کر بھی نماز ادا کر سکتی تھی، تین رولز بنانے میں کتنی دیر لگتی ہے.“

لیکن اس کی بیوی کی طرف سے کوئی جواب نہ آیا۔ جب وہ اس کے پاس آیا تو دیکھا کہ سجدے کی حالت میں اس کا انتقال ہو چکا ہے.سبحان اللہ،کیا خوبصورت اختتام اور کتنی اعلیٰ موت.

بے شک اگر اس معلمہ نے بھی ہماری طرح یہ سوچا ہوتا کہ چلو! کوئی بات نہیں، پہلے اپنا کام ختم کر لیتے ہیں پھر نماز پڑھ لیں گے تو اس کا انتقال کچن میں ہوتا۔

یہ وہ واقعہ تھا جس نے مجھے 7 جولائ 2012 کی وہ رات یاد دلا دی جب میں عشاء کی نماز میں تھا اور میرا فون مسلسل بج رہا تھا اور میرے ساتھ دوسرے نمازیوں کو بھی ڈسٹرب کر رہا تھا۔

میں جو جماعت کے ساتھ ملنے کی جلدی میں اس کی رنگ ٹون سائلنٹ موڈ پر کرنا بھول گیا تھا مگر فون تھا کہ مسلسل اور بار بار بج رہا تھا۔ سلام پھیرتے ہی سب نمازیوں نے میری طرف گھور کر دیکھا اور میں اپنا فون قمیض کی جیب سے نکال کر مسجد کے صحن کی طرف جاتے ہوئے آئی ہوئی دس بارہ مسڈ کالز جو میرے ابو جان کے موبائل سے تھیں، کو دیکھنے لگا اور مسجد سے باہر نکلتے ہی فوراً ان کا نمبر ڈائل کیا جو پہلی ہی رنگ پر میرے چھوٹے بھائی فیضان نے رسیو کیا اور اس کے دھاڑیں مارتے ہوئے ان الفاظ نے میرے قدموں کے نیچے سے زمین نکال دی کہ
”بھائی جان ابو جی نہیں رہے“

اس نے بتایا کہ عشاء کی نماز میں دوران جماعت دوسری یا تیسری رکعت میں تھے کہ گرے اور وہیں اپنے رب کے حضور حاضر ہو گئے۔ بعد میں جماعت کے ساتھ شامل ہونے والے نمازیوں نے انہیں اٹھا کر سائیڈ پر لٹایا اور اپنی نماز مکمل کرنے کے بعد مجھے بلایا تو میں انہیں ہسپتال لایا ہوں مگر ڈاکٹر صاحب بتا رہے ہیں کہ وہ تو کب کے اپنی منزل پر پہنچ چکےہیں۔

اناللہ وانا الیہ راجعون پڑھتے ہوئے میں زیر لب بڑبڑایا۔ اے میرے خدایا ! ابھی چند گھنٹے پہلے ہی تو میری ان سے بات ہوئی تھی مگر مجھے نہیں معلوم تھا کہ میں آخری دفعہ وہ آواز سن رہا ہوں جو دنیا میں مجھے سب سے زیادہ محبوب تھی۔

میں کراچی میں تھا میرا بھائی عثمان ابو ظہبی میں تھا تو ہمیں عارفوالہ پہنچنے میں تقریباً 16 گھنٹے لگے.
جنازے اور تدفین سے واپس جب گھر پہنچے تو میری والدہ نے مجھے بتایا کہ مسجد میں جانے سے پہلے عشاء کے لیے وضو کرتے ہوئے ان کے سینے میں تکلیف ہوئی تو میں نے انہیں کہا کہ پہلے ڈاکٹر کے پاس چلے جائیں اور چیک اپ کروانے کے بعد نماز گھر آکر پڑھ لیجئے گا مگر انہوں نے کہا کہ میں جماعت نہیں چھوڑ سکتا اور بعد میں ڈاکٹر کو دکھا لوں گا۔

لیکن بے شک ایک شخص کا انتقال اسی حالت میں ہوتا ہے جس پر وہ ساری زندگی گزارتا ہے اور اسی حالت میں وہ دوبارہ اٹھایا جائے گا. اور میرے علاوہ اس بات کو اور کون جانتا تھا کہ میرے والد صاحب نماز کا جماعت کے ساتھ کتنا اہتمام کیا کرتے تھے۔ وہ عارفوالہ سے لاہور آتے ہوئے بس کا ٹکٹ بھی اس حساب اور اندازے سے لیتے کہ جماعت کا وقت کب اور کس شہر میں ہو گا اور وہ وہاں اترتے اور جماعت کے ساتھ نماز کی ادائیگی کے بعد دوسری بس پر سوار ہو کر اپنی منزل پر پہنچتے.

ہمارے آقا حضرت محمدﷺ نے ارشاد فرمایا کہ ہر شخص اسی حالت میں اٹھایا جائے گا جس میں وہ فوت ہوا. ہمارے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم سے کسی نے پوچھا کہ اللہ تعالٰی کے نزدیک سب سے محبوب عمل کیا ہے؟ آپ نے جواب دیا: نماز کو اس کے اولین وقت میں ادا کرنا۔

والد صاحب ہم سب گھر والوں کو یہ تاکید کیا کرتے تھے کہ اصل کامیابی نماز پڑھنا نہیں بلکہ نماز کی فکر کا ہونا ہے. اور انسان اس شے کو کیسے چھوڑ سکتا ہے جس کی فکر اس کے دل میں گھر کر لے.

اللہ تعالی سے دعاء ہے کہ میرے پیارے ابو جان کو اپنی رحمت سے ڈھانپ لیں ، ان کے درجات بلند کریں اور ہم سب مسلمانوں کو نماز کی پابندی اور ان جیسی فکر عطا فرمائیں….!
آمین ثم آمین یا رب العالمین


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں

ایک تبصرہ برائے “اصل کامیابی”

  1. محمد حسان Avatar
    محمد حسان

    ماشااللہ بہت خوبصورت واقعات اور بہت دلنشین انداز سے تحریر کیے ۔ اللہ تعالی آپ کے والد صاحب کے درجات بلند فرمائے ۔ یہ تحریر بھی یقیناً ان کیلئے صدقہ جاریہ بنے گی ۔