شخصیت میں بہتری

ذاتی زندگی کو بہتر بنانے کا سفر کیسے شروع کیا جائے؟

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

ثاقب محمود عباسی :

خود کو بدلنا دنیا کے مشکل ترین کاموں میں سےایک ہے۔ میں اکثر کہتا ہوں کہ
” اگر آپ خود کو بدل سکتے ہیں تو آپ دنیا کو بدل سکتےہیں اوراگر آپ خود کو بدلنے پرقادر نہیں ہیں تو پھر دنیا بدلنے کا خیال ہی احمقانہ ہے “۔

خود کو کیوں بدلا جائے؟
خود کو بدلنے کی بہت ساری وجوہات ہو سکتی ہیں ۔ سب سے اہم وجہ یہ ہوتی ہے کہ ہم نے زندگی میں اکثر کچھ نا کچھ غلط سیکھ لیا ہوتا ہے ۔ وہ ہماری کوئی عادت ، رویہ ، برتائو یا عمل ہو سکتا ہے ۔ ہم ایسا شعوری یا لاشعوری طور پر سیکھ جاتے ہیں ۔ اس لیے ضروری ہوتا ہے کہ ہم اس غلط سیکھے ہوئے کو Unlearn کردیں اور اس کے مقابلے میں کچھ مثبت سیکھ لیں ۔

اکثر ایسا بھی ہوتا ہے کہ ہم نے اپنی اچھی عادات ، رویے ، برتائو ، عمل یا معمولات کو کسی وجہ سے ترک کردیا ہوتا ہے ۔ اب ہمیں محسوس ہوتا ہے کہ ہماری وہ عادت یا روٹین ہمارے حق میں بہتر تھی اس لیے ہمیں اسے دوبارہ اپنانا چاہیے ۔ اس عل کو Relearning کہتے ہیں ۔ ری لرننگ اور اَن لرننگ کی اہمیت لرننگ کی طرح کی ہی ہے۔

خود کو کیسے بدلا جائے ؟
یہ ایک اہم سوال ہے ۔ اس کا جواب یوں تو بہت آسان ہے کہ بس بدلنے کا فیصلہ کرلیا جائے لیکن عموماً خود کو بدلنا آسان ثابت نہیں ہوتا۔ تبدیلی کا سفر شروع میں نہایت مشکل ، درمیان میں قدرے آسان اور اختتام پہ بہت خوبصورت ہوجاتا ہے۔ یوں اکثر لوگ شروع کی مشکلات سے ہی گھبرا کر شکست تسلیم کرلیتےہیں ۔ ہربار ہارنے کے بعد جیت پہ ان کا یقین ختم ہی ہوتا چلا جاتاہے۔

اگر آپ بدلنا چاہتے ہیں تو اس کا بہت آسان سا طریقہ ہے ۔ اپنے روزمرہ معمولات میں کسی آسان سے مگر مثبت کام کو تسلسل سے کرنا شروع کردیں ۔ تسلسل سے کرنا شرط ہے ۔ بظاہر معمولی سا کام شاید آپ کو اہم نہ لگے لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہی کام آپ کی زندگی کو بھی بدل کے رکھ دے گا۔

ہم عام طور پہ اپنی چھوٹی موٹی عادتوں ، رویوں یا حرکات کو اہمیت نہیں دیتے حالانکہ اگر انہیں کچھ عرصہ تک تسلسل سے جاری رکھا جائے تو ان کے نتائج خوفناک نکلتے ہیں ۔۔

مثال کے طور پر اپنے بارے میں منفی سوچ یا دوسروں کے بارے میں منفی انداز میں سوچنا۔ شروع میں تو آپ کو نقصان نہیں پہنچاتا مگر اسی عمل کو اگر تسلسل سے جاری رکھا جائے تو کچھ عرصہ بعد آپ منفی رویوں کے عادی ہوجائیں گے۔

ہم چھوٹی اور معمولی تبدیلیوں کو اکثر نظرانداز کردیتے ہیں اور اہمیت نہیں دیتے ۔ اگر ہم روزانہ ایک فیصد خود کو بہتر کرتے جائیں تو ایک سال بعد ہم سینتیس گنا بہتر ہوجاتے ہیں ۔ اسے کے برعکس اگر ہم روزانہ ایک فیصد منفی ہوتے جائیں تو سال کے بعد ہم سینتیس گنا زیادہ منفی ہوجائیں گے۔ اس عمل کو کمپائٶنڈ ایفیکٹ کہتے ہیں۔

کرنے کا کام
اگر آپ خود کو بدلنا چاہتے ہیں اور درست ٹریک پر اپنی زندگی کو لانا چاہتے ہیں تو اس کا آسان سا طریقہ ہم آپ کو بتاتے ہیں:

کسی ایک چیز کو اپنا معمول بنا لیں۔
روزانہ بیس منٹ ورزش کرنا شروع کردیں ۔
اپنی ڈاٸیٹ میں کسی مفید چیز کو شامل کرلیں۔
رات کوسونے سے پہلے یا صبح سویرے مراقبہ کرنا شروع کردیں ۔
ڈاٸری لکھنا شروع کردیں۔

مطالعہ کے لیے روز دس منٹ نکالنا شروع کریں۔
اپنے کمرے کو صاف ستھرا اور آرگناٸز کرنا شروع کردیں۔
لوگوں کو خوش دلی سے سلام کرنا شروع کریں۔
ہر روز ایک نیکی کا کام کرنا شروع کریں ۔
روز کے کاموں کی فہرست بنانا شروع کردیں۔ وغیرہ

مندرجہ بالا کاموں میں سے کوئی ایک کام اختیار کرلیں ۔ ان کاموں کے علاوہ بھی کوئی مثبت سرگرمی اختیار کی جاسکتی ہے۔ شرط بس وہی ہے جو کام بھی کریں تسلسل سے کرتے رہیں ۔ اکیس دن تک کسی کام کو تسلسل سے انجام دینے کے بعد آپ اس کے عادی ہوتے چلے جائیں گے۔ اگلے اکیس دن تک مزید تسلسل سے انجام دہی آپ کو اس کام کا پختہ عادی بنا دے گی تاہم عادت کو آٹومیشن پہ آنے کے لیے چھیاسٹھ دنوں کی ضرورت پڑتی ہے۔

اگر آپ ایک چھوٹی سی مثبت سرگرمی کو اپنی عادت بنا لیں گے تو آپ کی زندگی میں ایک خوشگوار تبدیلی آئے گی۔ اگلی کسی بھی عادت کو اختیار کرنا آپ کے لیے آسان ہوتا چلا جائے گا ۔ اس طرح ہر تین ماہ میں ایک اور سال میں خود کو چار مثبت عادات کا تحفہ دیا جا سکتا ہے۔

آپ اندازہ نہیں کرسکتے کہ چار مثبت عادات آپ کی زندگی کو کس قدر خوبصورت ، مثبت ، خوشگوار اور تعمیری بنا سکتی ہیں ۔ حقیقت تو یہ ہے کہ کوئی بھی انسان اچھا یا برا ، مفید یا غیر مفید نہیں ہوتا بلکہ اس کی عادات اسے اچھا یا برا کارآمد یا ناکارہ بناتی ہیں۔


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں

ایک تبصرہ برائے “ذاتی زندگی کو بہتر بنانے کا سفر کیسے شروع کیا جائے؟”

  1. زبیدہ رؤف Avatar
    زبیدہ رؤف

    ویل ڈن ثاقب صاحب، ہمارے نوجوانوں کیلئے ایسی کار آمد تحریروں کی بہت ضرورت ھے۔