بکروال ، برفانی علاقہ ، پاکستان

رٹو سے آگے ( 11 )

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

پاکستان کے صوبہ گلگت بلتستان کا ایک دلچسپ اردو سفرنامہ

ابن فاضل :

رٹو سے آگے ( 1 )

رٹو سے آگے ( 2 )

رٹو سے آگے ( 3 )

رٹو سے آگے ( 4 )

رٹو سے آگے ( 5 )

رٹو سے آگے ( 6 )

رٹو سے آگے ( 7 )

رٹو سے آگے ( 8 )

رٹو سے آگے ( 9 )

رٹو سے آگے ( 10 )

ہوا یوں کہ گائیڈ نے کہا تھا بیس تک سیدھا جائیں اس کے بعد دائیں پہاڑ کے ساتھ ساتھ چلیں. ہماری دانست میں بیس ابھی نہیں آیا تھا. سو ہم بے دھڑک سلائیڈز لیتے جارہے تھے. اچانک ہمیں احساس ہوا کہ آگے پہاڑ کی ڈھلوان ہی نہیں ہے. ہم نے فوراً تازہ تازہ سیکھے ہوئے طریقے کے مطابق بریکیں لگائیں. جب رکے اور اٹھ کر دیکھا تو پہاڑ آگے سے بالکل سیدھا زمین کے ساتھ قائمہ زاویہ تھا. ہم سے صرف دس بارہ فٹ آگے. اور ہزاروں فٹ نیچے پانی کے کچھ آثار تھے. اف خدایا. ہم چاروں متحیر اور خوفزدہ کھڑے ایک دوسرے کو تک رہے تھے. اگر چند ثانیے بھی اور نہیں رک پاتے تو ہزاروں فٹ گہرائی میں چار چھپاکے ہوتے اور بس….

واقعی موت زندگی کی حفاظت کرتی ہے. جب تک مہلت حیات باقی ہے جینے کا ہر بہانہ موجود ہے. اور جب مہلت تمام ہوتی ہے. آسرے ہی بہانے بن جاتے ہیں. سو جب تک مہلت ہے کھل کر جئیں گے . مرنے سے پہلے نہیں مرنا. انشاءاللہ.

وہاں سے ہم دائیں طرف مڑے. اصل میں ہمیں کافی پیچھے سے ہی دائیں طرف ہوجانا چاہیے تھا لیکن ظاہر ہے کہ بنا نقشوں اور تصاویر کے زبانی ہدایت پر یہی کارکردگی دکھائی جاسکتی ہے. دائیں طرف مڑنے کے بعد دائیں پہاڑ کے ساتھ ساتھ کچھ آگے تک نسبتاً کم ڈھلوان تھی. جس پر پیدل چلتے رہے.

کچھ آگے گئے تو وہ پہاڑی عمود ہمارے بائیں طرف واضح نظر آرہا تھا کہ جس سے نیچے گہرائی میں گرنے سے کچھ دیر پہلے ہمیں اللہ کریم نے بچالیا تھا. کچھ آگے جاکر پھر سے ڈھلوان شروع ہوئی. اور ہم پھر سلائیڈز لینے لگے. مگر اب کی بار بہت دیکھ بھال کر اور نپے تلے انداز میں درمیانی سی رفتار پر.

آخر کار وہ جگہ آگئی جہاں سے وادی بائیں طرف مڑ رہی تھی. یہاں ڈھلوان بالکل ختم ہوگئی تھی اور ایک طرح کا سیدھا راستہ تھا. مگر تھی ہر طرف برف ہی برف. یہاں ہی کہیں وہ جگہ تھی جہاں سے ہمیں بائیں طرف والے پہاڑ کی طرف جانا تھا. لیکن اب ہم بہت محتاط تھے. ہم وادی کے ساتھ ساتھ بائیں طرف مڑتے گئے.

یہ والا حصہ بہت تنگ سی گھاٹی کی شکل کا تھا. اور سامنے کی طرف زیادہ دور تک دکھائی نہیں دے رہا تھا. گھاٹی ابھی ختم نہیں ہوئی تھے کہ یہاں ہمیں ایک آدمی دکھائی دیا. ہماری تو جیسے جان میں جان آگئی. بھاگم بھاگ اس تک پہنچے. بات کرنے پر معلوم ہوا کہ وہ بکروال تھا. جن کا قافلہ ابھی پیچھے تھا مگر وہ آگے راستہ کا جائزہ لینے کے آیا تھا.

ہم نے اس سے پوچھا کہ شنٹر گاؤں کس طرف ہے اور کتنی دور ہے؟ اس نے بھی وہی بتایا کہ تھوڑا آگے جاکر جہاں وادی سیدھی ہوتی ہے وہاں سے بائیں پہاڑ کے ساتھ ساتھ چلتے جائیں ، پانچ میل پر گاؤں ہے. اب ہمیں کچھ سکون ہوگیا. ہم نے رفتار بڑھا دی کہ جلد سے جلد گاؤں پہنچ کر کچھ کھانے کا انتظام کرسکیں. ہمیں آخری نام نہاد کھانا کھائے ہوئے انیس بیس گھنٹے ہوچلے تھے.

تھوڑی دیر چلنے کے بعد آگے برف پر دوراہا سا تھا. انسانوں کے برف پر چلنے سے جو نشان بنتے ہیں ان نشانوں پر مبنی ایک راستہ ہلکی سی ڈھلان پر نیچے کو جارہا تھا اور دوسرا بائیں طرف مگر وہ کچھ اوپر کی طرف جارہا تھا. ہم وہاں کھڑے ہو کر دیکھنے لگے. یہ تو ہمیں پتہ تھا کہ ہم نے بائیں طرف جانا ہے مگر بائیں طرف والا راستہ جو اوپر کی طرف جارہا تھا اس سے ہم مخمصے کا شکار تھے کہ ہمیں تو نیچے وادی کی طرف جانا تھا.

ہم نے محتاط رویہ اپناتے ہوئے ایک شخص کو دائیں اور دوسرے کو بائیں والا راستہ دیکھ کر آنے کو کہا. تھوڑی دیر بعد معلوم ہوا کہ دائیں والا راستہ تھوڑا سا اوپر جانے کے بعد آگے سیدھا ہوکر وادی میں جارہا ہے. اور وہی ہمارا مطلوبہ راستہ ہے. مزید یہ کہ اس راستے پر کچھ بکریوں کی مینگنیاں بھی دکھائی دیں جو اس بات کا ثبوت تھا کہ زیادہ آمدورفت اسی طرف ہوئی ہے.

اب ہم یقین کے ساتھ آگے بڑھنے لگے. پندرہ بیس منٹ کے سفر کے بعد جیسے ہی وادی سیدھی ہوئی آگے خوبصورت ترین مناظر ہمارے منتظر تھے. جس برف کے گلیشیر پر ہم چلتے ہوئے یہاں تک آئے تھے وہ کچھ آگے تک چلا گیا تھا. اور اس کے نیچے سے دریائے نیلم کا آغاز ہورہا تھا. اس گلیشیر کے علاوہ جو چوٹیاں ہم نے شنٹر پر سے دیکھیں تھیں سب کی کشمیر والی طرف سے برف کے نیچے سے شاید مل کر یہاں اس گلیشیر تک زیر برف پہنچ رہا تھا. کیونکہ وہ جونہی برف کے نیچے سے نمودار ہورہا تھا اس کی مقدار اور رفتار اس قدر زیادہ تھی کہ کوئی ماہر تیراک بھی اسے تیر کر پار نہیں کر سکتا تھا.

بہت خوبصورت مناظر، دائیں طرف شفاف ہرا دریا، اس کے پیچھے کہیں سبز کہیں برف سے ڈھکے سفید پہاڑ، دریا سے کوئی سو فٹ اوپر چھوٹا سا راستہ جو کبھی مٹی اور پتھروں اور کبھی برف پر مشتمل جس پر ہم محو سفر تھے. ہمارے بائیں طرف پہاڑ ساتھ ساتھ چل رہے تھے. شاید گھنٹہ بھر چلنے کے بعد ہمیں ایک بستی کے آثار نظر آئے. اپنی زندگی کی اب تک کی سب سے مشکل اور پرخطر مہم اس حالت میں کی تھی کہ کھانا کھائے ہوئے بیس اکیس گھنٹے ہوگئے تھے.

بھوک، نزاعت اور تھکاوٹ کا وہ عالم تھا کہ لفظ قاصر ہیں بیان کرنے سے. ہم نے رفتار بڑھا دی تاکہ جلد سے جلد گاؤں پہنچ کر اپنی بھوک مٹائیں. مگر گاؤں پہنچ کر جانا کہ یہاں قدرت کا ایک اور امتحان ہمارا منتظر ہے . یہاں ہمیں جس مایوسی اور ناکامی کا سامنا کرنا پڑا کوئی بھی شخص اس کا کسی بھی حال میں تصور ہی نہیں کر سکتا. بلکہ اگر یوں کہا جائے کہ پاکستان بھر میں ہی کیا دنیا بھر میں ایسا کوئی اور گاؤں ہی نہ ہوگا، تو بھی بےجا نہ ہوگا۔

یہ ایک چھوٹا سا روایتی قسم کا پہاڑی گاؤں تھا. ڈھائی، تین سو گھروں پر مشتمل اس گاؤں کا نام شنٹرتھا. گاؤں میں معمول کے مطابق چہل پہل تھی بچے اور خواتین ادھر ادھر پھر رہی تھیں. ہمیں کسی ہوٹل یا تندور کی تلاش تھی. لیکن ہر طرف دیکھنے کے بعد کہیں بھی کوئی ایسی جگہ نظر نہ آئی کہ جہاں سے کچھ کھانے کو مل سکے.

ہم نے سوچا کسی سے پوچھ لیتے ہیں. لیکن یہ کیا. اس پورے گاؤں میں ایک بھی مرد نظر نہیں آرہا تھا. بہت حیرانی ہوئی. آخر کار ایک عمر رسیدہ خاتون سے ہمت کرکے بات کرنا چاہی کہ ماں جی ! ادھر کھانے کو کچھ مل جائے گا لیکن وہ ہماری بات کا جواب دینے کی بجائے ایک طرف چل دیں. پھر دو چھوٹے بچے دکھائی دیے. ان سے بات کرنا چاہی. انہوں نے بھی یہی کیا. بنا جواب دیے ایک طرف کو چل دیے.

ہم بہت ہی حیران کہ الٰہی کیا ماجرا ہے. یہ کیسی بستی ہے جہاں کوئی مرد موجود نہیں اور باقی کوئی شخص بات کرنے پر آمادہ نہیں. اسی اثنا میں ایک چھوٹی سی دکان نظر آئی. ہم نے کہا یہاں سے کچھ مل جائے گا بسکٹ انڈے وغیرہ لیکن یہ دکان بھی آخر اسی گاؤں کی ہی تھی. اس میں جو سیلز چلڈرن بیٹھے تھے وہ بھی ہمیں دیکھتے ہی دکان سے ملحقہ گھر میں بھاگ گئے.

شام کے قریب چھ بج رہے تھے. اور ہمارے بارہ . بعد میں لوگوں سے پوچھنے پر پتہ چلا کہ اس گاؤں میں چونکہ روزگار کے مواقع صفر ہیں لہذا اس کے تمام مرد دوسرے علاقوں میں کام کرتے ہیں جبکہ گاؤں میں صرف بچے اور عورتیں ہی ہوتی ہیں یا چند بزرگ. اور انہوں نے حفظ ماتقدم کے طور پر یہ روش اپنا رکھی ہے کہ کسی بھی اجنبی سے بات نہ کی جائے.

اب ہم نے سوچا کہ اس خاموش بستی میں مزید وقت ضائع کرنا بیکار ہے سو وہاں سے جلد آگے جایا جائےکیونکہ ذہن میں آرہا تھا کہ بکروال نے بتایا تھا کہ نیچے گاؤں کے پاس ان کا قافلہ رکا ہے. اب ہم جلد از جلد ان کے پاس پہنچنا چاہتے تھے. بکروالوں کا قافلہ گاؤں سے تقریباً ایک کلومیٹر پر خیمہ زن تھا. یہاں دریا کے ساتھ کافی کھلی جگہ تھی. جس میں انہوں نے اپنی عارضی بستی بنارکھی تھی.

ہم ان کے پاس پہنچے تو ہماری ملاقات اس قبیل یا گھرانے کے سربراہ سے کروائی گئی. اس نے بڑے تپاک سے ہمارا استقبال کیا. ہم نے پوچھا کھانے کو کچھ مل جائیگا. اس نے کہا کیوں نہیں صاحب ! آپ بیٹھیں میں ابھی انتظام کرتا ہوں. ہم نے اس کی اجازت سے وہیں قریب ہی رات بسر کرنے کا فیصلہ کیا. ابھی خیمہ لگانے کی ہمت نہیں تھی. چونکہ وہاں ہر طرف بہت بڑی بڑی گھاس اگی ہوئی تھی ہم اسی گھاس پر اپنے اپنے بستوں کے تکیے بنا کر آرام کرنے لگے. شام کا سحر دن کی روشنی کو نگل چکا تھا.

کچھ دیر بعد ہمارا شفیق میزبان ہمارے لیے کھانا لیکر آگیا. سلور کی کولیوں میں آلو کی بھجیا اور چنگیر میں توے کی باریک روٹیاں، بکریوں کے گھی کے ساتھ چپڑی ہوئی. ہم نے اٹلی کا پیزا اور پاستا بھی کھایا ہے ، عربوں کی مندی بھی چکھی ہے . ایرانیوں کے چلوکباب اور آب گوش بھی کھائے ہیں . چین کی نوڈلز اور سی فوڈ اور تھائی لینڈ والوں کے مشہور زمانہ شوربے بھی پئے ہیں .

ترکوں کے شیش کباب اور کوفتے کے ذائقے بھی یاد ہیں . امریکیوں کے برگرز اور فرائیڈ چکن بھی کھاتے رہے ہیں . لاہوری کڑاہی، سندھی بریانی اور بلوچی سجی، افغانی پلاؤ اور پشاوری چپلی کباب بھی بارہا کھائے ہیں .. مگر بخدا، جو مزا اس وقت اس آلو کی بھجیا اور توے کی چپڑی روٹی سے ملا دنیا کے تمام ذائقے اس کے سامنے ہیچ ہیں.

کھانے کے بعد خیمہ نصب گیا. اور بس سو گئے. بارہ، چودہ گھنٹے بے سدھ پڑے سوتے رہے. صبح آنکھ کھلی تو دن چڑھ چکا تھا. شفیق میزبان نے ناشتہ کروایا. ہم نے اسے کھانے اور ناشتہ کے عوض کچھ پیسے دینا چاہے تو انہوں نے سختی سے انکار کردیا. البتہ تحفہ کے طور پردھوپ والے کالے چشمے اور دواؤں کا پیکٹ قبول کر لیا. کیونکہ انہیں بھی آگے برف پر ان دونوں اشیاء کی ضرورت پڑنے والی تھی.

ہم گھنٹہ بھر ان سے گپ شپ لگاتے رہے. ہم نے مختلف مہمات پر جاتے ہوئے بارہا ان کے بہت سے قافلے دیکھ رکھے تھے اور دل میں بڑی خواہش تھی ان کے طرز حیات کے بارے میں براہ راست معلومات حاصل ہوں. آج اس بہانے یہ دیرینہ خواہش بھی پوری ہورہی تھی.

بکروال ان خانہ بدوشوں کو کہتے ہیں جو بکریاں پالنے کی غرض سے ہمیشہ حالت سفر میں رہتے ہیں. ان کے حالت سفر میں رہنے کا اولین ہدف یہ ہوتا ہے کہ ان کے بکریوں کے ریوڑ کو مفت اور وافر چارہ ملتا رہے. ان کا سفر آغاز بہار میں چکوال، ہری پور، فتح جنگ، مردان وغیرہ کے میدانی علاقوں سے شروع ہوتا ہے. اور جون جولائی میں کشمیر، گلگت بلتستان، ناران کاغان اور سوات کے بلندوبالا پہاڑوں پر پہنچ کر ختم ہوتا ہے.

چونکہ ان علاقوں کے پہاڑوں کی ڈھلانوں پر وافر مقدار میں گھاس اور خودرو جڑی بوٹیاں اگتی ہیں، یہ بکروال اپنی بکریوں کے ریوڑ لیکر ان ڈھلانوں پر چلتے رہتے ہیں. جیسے جیسے چارہ ختم ہوتا جاتا ہے یہ آگے ہی آگے سفر کرتے جاتے ہیں. حتی کہ کشمیر اور دیگر علاقوں میں آخری سرحدوں تک پہنچ جاتے ہیں.

پھر دو تین ماہ انہی پہاڑوں میں پھرتے رہنے کے بعد موسم سرما کے آغاز یعنی وسط اکتوبر میں واپسی کا سفر شروع کر دیتے ہیں. جن راستوں سے گزرے ہوتے ہیں واپسی پر ان پر گھاس پھر سے اگ چکی ہوتی ہے. لہٰذا پھر سے چارہ دستیاب ہوتا ہے. اسی طرح یہ لوگ دسمبر تک واپس میدانی ٹھکانوں تک پہنچ جاتے ہیں.

بکروال صدیوں سے نسل در نسل اسی طرح زندگی بسر کررہے ہیں. ان کے دس ہزار سے زائد مختلف خاندان ہیں جن کی کل آبادی ایک لاکھ کے قریب ہے اس کام میں مشغول ہیں. تقریباً سب لوگ نسلاً گجر ہیں اور میدانی علاقوں کے گجروں کی ساری گوتیں ان میں پائی جاتی ہیں. ان کی اپنی خاندانی روایات ہیں جن پر بڑی سختی سے عمل کرتے ہیں.

خود کبھی اپنے جانوروں کا گوشت نہیں کھاتے۔ بس ! ان کا دودھ پیتے ہیں اور مکھن کھاتے ہیں. صرف زخمی یا بیمار جانور ذبح کرتے ہیں. کبھی دوران سفر ایک دو بکرے فروخت نہیں کرتے. دودھ مکھن کی فروخت کو عار سمجھتے ہیں. بھیک کبھی نہیں مانگتے. وغیرہ

اگر مجموعی طور پر دیکھا جائے تو ملکی گوشت کی ضروریات کا بہت بڑا حصہ ان کی وجہ سے پورا ہوتا ہے. پشاور یونیورسٹی اور برن یونیورسٹی کی ایک مشترکہ تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق ملکی معیشت میں بکروالوں کا حصہ نو سے دس ارب سالانہ ہے. اس کے علاوہ یہ مختلف پہاڑی علاقوں میں نائٹروجن اور فاسفورس والی کھاد پہنچانے کا سبب ہیں. جواگر حکومت پہنچانا چاہے تو اسے اربوں روپے خرچ کرنا پڑیں.

اس کے علاوہ بالواسطہ طور پر چمڑے اور اون کی صنعت کی افزائش کا باعث ہیں. ابھی خیبر پختون خواہ کی صوبائی حکومت نے بلین ٹری پراجیکٹ کے باعث اپنے صوبہ میں ان کی پیدل نقل وحمل پر پابندی عائد کردی ہے. جس کے باعث انہیں ایک جگہ سے دوسری جگہ جانے کے لئے اب جانور ٹرکوں پر لادنا پڑتے ہیں جس سے نہ صرف ان کے خرچ میں اضافہ ہوا ہے بلکہ بہت سے جانور ہر بار کے اتارنے اور چڑھانے میں زخمی ہوکر مر جاتے ہیں. اس صورت حال میں خیبر پختون خواہ کے بکروال بہت مایوس ہیں. بلکہ بہت سے اس صدیوں پرانے پیشہ کو چھوڑنے پر مجبور ہیں.

ہمارا میزبان چکوال کے علاقے سے تعلق رکھنے والے ایک خاندان کا حصہ تھا. جو تین چارسو بکروں، بکریوں ،چند گھوڑوں اور چند کتوں پر مشتمل ریوڑ کا مالک تھا.ہمارا بارہا کا مشاہدہ ہے کہ فطرت سے قربت، قدرتی غذاؤں اور جفاکشی سے عبارت ان بکروالوں کی زندگی کے سبب انہیں اس قدر جسمانی توازن اور ظاہری حسن عطا ہوتا ہے کہ اس کا تقابل کسی اور نوع کے انسانوں سے کیا ہی نہیں جاسکتا.

بطور خاص صنف نازک، جو فی الحقیقت اس قدر نازک تو بہرحال نہیں ہوتیں جتنا کہ یہ ترکیب متقاضی ہے. مگر ان کے چہروں پر جو رونق اور جسمانی اعضاء میں جو توازن پایا جاتا ہے اس کا تصور بھی شہروں کی خواتین نہیں کرسکتیں، چاہے آدھی عمر جم میں اور آدھی یوگا میں گزار لیں. یہ بات پورے وثوق سے کہی جاسکتی ہے کہ ایسا طرز حیات اور مثالی جسمانی تناسب اگر ہمسایوں کے ہاں پایا جاتا تو اب تک درجنوں بار عالمی مقابلہ حسن جیت چکے ہوتے.

گھنٹہ بھر کی بھرپور علمی گپ شپ کے بعد ہم وہاں سے روانہ ہوئے. ہماری منزل وادی نیلم کا آخری قابلِ ذکر قصبہ یا شہر کیل تھی. ہمارے علم کے مطابق کیل یہاں سے پچیس کلومیٹر دور ہے. اور اگر مناسب رفتار سے چلیں تو چھ سے سات گھنٹے کا پیدل راستہ ہے. رات کا بھرپور کھانا، صبح کا توانائی بخش ناشتہ اور بھر پور نیند کی وجہ سے ہم بالکل تازہ دم تھے. لہٰذا یہ چھ گھنٹے کا، پچیس کلومیٹر پیدل مارچ ہمارے لیے کوئی مسئلہ نہ تھا. ہم اس سے پہلے بارہا پچیس کلومیٹر ایک دن میں کرچکے تھے. بلکہ دو بار چالیس، چالیس کلو میٹر یومیہ کا ریکارڈ بھی رکھتے تھے.

لیکن بھلا ہو اس راہبر کا کہ جس نے مہم سے پہلے ہمیں ہدایات سے نوازا تھا. فرماتے تھے کہ اس سفر کے دوران آپ کو با آسانی فوج کے ٹرک مل جائیں گے جو روزانہ کی بنیاد پر جنگل سے لکڑیاں لینے آتے ہیں. وہ آپ کو عزت سے بٹھا کر کیل لے جائیں گے. اور ہمارے ذہن کے نہاں خانوں میں یہ بات بالکل ایسے ہی بیٹھ چکی تھی جیسے ہر نئے جمہوری راہنما کے وعدوں پر سہانے مستقبل کے سپنے ہماری پلکوں پر جاگزیں ہوتے ہیں لیکن فی الحقیقت ہوا ہمارے ساتھ وہی جو ہر نوخیز حسینہ کے سفید گھڑسوار شہزادے والے سپنے کے ساتھ ہوتا ہے. فوجی ٹرک تو دور کی بات ہے کوئی غیر فوجی گدھا گاڑی بھی نہیں ملی.

لیکن پھر بھی ہم کہ ٹھہرے شوریدہ سر، ژولیدہ فکر، دیوانگانِ کوہ نوردی، جاں نثارانِ حسنِ فطرت ، سو قدرت کے بے پایاں حسن اور اوائل بہار کی رعنائیوں کی ساری ادائیں، ذہن ذکی کے غیر مستعمل یادداشت خانوں میں کندہ کرتے آگے بڑھتے رہے. یہاں تک کہ پانج بجے کے قریب، دور سے آبادی کے آثار دکھائی دینے لگے.
( جاری ہے )


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں