جماعت اسلامی کی خواتین توہین رسالت کے خلاف مارچ میں شریک

تہذیبوں کی جنگ میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کیا کرے؟

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

ڈاکٹر خولہ علوی :

”اگر وہ خانہ کعبہ کے پردے کے نیچے بھی پائے جائیں تو بھی انہیں قتل کردیا جائے۔“
محسن انسانیت صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا۔ غزوہ
فتح مکہ کے روز نبی مہربان ﷺ نے اہل مکہ کے لیے عام عفو و درگزر کے اعلان کے باوجود اکابر مجرمین میں سےابن خطل اور اس کی لونڈیوں سمیت نو آدمیوں کا خون رائیگاں قرار دیتے ہوئے یہ حکم جاری فرمایا تھا۔

ابن خطل خانہ کعبہ کا پردہ پکڑ کر لٹکا ہوا تھا۔ ایک صحابی نے خدمتِ نبوی ﷺ میں حاضر ہوکر اطلاع دی۔ آپﷺ نے فرمایا : ” اسے قتل کردو۔ “ چنانچہ انہوں نے اسے قتل کردیا۔
توہین رسالت کے مجرموں کا قتل رائیگاں ہونے کا مطلب یہ ہے کہ ان کا قصاص (بدلہ) نہیں دیا جائے گا۔

” نبی کی شان اقدس پہ زبانیں جو نکالیں گے
خدا کے حکم سے ایسی زبانیں کھینچ ڈالیں گے“(اُردو ترجمہ)
شاعررسول حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ نے اپنی ایک عربی نعت میں خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کی شان بیان کرتے ہوئے اور گستاخان رسول کو سختی سے تنبیہ کرتے ہوئے یہ اشعار کہے تھے۔

اسلام کی بنیاد کلمہ طیبہ دو حصوں پر مشتمل ہے۔ پہلا حصہ توحید پر جبکہ دوسرا حصہ رسالت پر مبنی ہے۔
لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ
توحید کے اقرار کے بعد رسالت کا اقرار کرتے ہی ہم پر قرآن و حدیث کے تمام احکامات فرض ہو جاتے ہیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت ہمارے ایمان کا حصہ ہے اور اس کے بغیر ہمارا ایمان ناقص ہے۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ کا ایک ایک پہلو، ایک ایک سنت ہمارے لیے اہم ، قیمتی اور تا قیامت مشعل راہ اور زاد راہ ہے۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے :
ترجمہ: ” کہہ دیجیے (اے پیغمبر ﷺ) اگر تم سب ﷲ سے محبت رکھتے ہو، تو پھر میری اتباع کرو۔ پھر ﷲ بھی تم سے محبت کرے گا اور تمہارے گناہ بخش دے گا۔ “(آل عمران: 31)

ایک اور مقام پر ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ
ترجمہ: ” جس نے رسول کی اطاعت کی، اس نے اﷲ کی ہی اطاعت کی۔“(النساء: 80)

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کا دعویٰ کرنے کے بعد ان کی اطاعت و اتباع بھی ہمارے ایمان کا حصہ ہے اور اس کے بغیر ہمارا ایمان نامکمل ہے۔

محمد کی محبت دین حق کی شرط اول ہے
اسی میں ہو اگر خامی، تو ایماں نامکمل ہے

فرمانِ نبویﷺ ہے کہ
” تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتا جب تک میں اسے اس کے ماں، باپ، اولاد اور باقی سب افراد سے بڑھ کر محبوب نہ ہو جاؤں۔“(صحیح بخاری: 14)

نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کا ایک اور فرمان ہے کہ
” تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتا جب تک وہ مجھے اپنے مال، جان اور اولاد سے زیادہ محبوب نہ جان لے۔“ (صحیح مسلم)

تحفظ ناموس رسالت ایک بہت اہم ذمہ داری ہے جو اسلام نے ہم پر عائد کی ہے۔ توہین رسالت کے مرتکب مجرم کی قتل کی سزا خود اللہ رب العزت نے یہ مقرر فرمائی ہے۔ آئین پاکستان کی دفعہ 295/ C کے مطابق بھی گستاخی رسول اور توہین رسالت کی سزا ” سزائے موت “ ہے۔

اہل مغرب اسلام کے رعب و دبدبے سے خوفزدہ ہوکر کبھی مسلمانوں پردہشت گردی کا الزام لگاتے ہیں، کبھی یہود و نصارٰی ناموس رسالت اور شعائر اسلام کے خلاف توہین آمیز فلمیں بناتے ہیں، کبھی ایسی گیمز تیارکی جاتی ہیں جن میں شعائر اسلام کا مذاق اڑایا جاتا ہے۔ اور کھلاڑیوں کو بھی بت پرستی اور شرک کی طرف مائل کیا جاتا ہے۔

ان کاموں کے ساتھ ساتھ وقتاً فوقتاً توہین رسالت اور گستاخی رسول کی جاتی ہے۔ کبھی تحریر کے ذریعے، کبھی تقریر کے ذریعے، کبھی توہین آمیز خاکوں (cartoons) کے ذریعے، کبھی فلموں کے ذریعے. غرض اہل کفر کی طرف سے توہین رسالت اور شعائر اسلام کی بے حرمتی کا ایسا جرم مسلسل کا سلسلہ چل نکلا ہے جس کو بزور قوت سختی سے روکنا مسلمان حکمرانوں کے ساتھ ساتھ مسلمان عوام کی بھی ذمہ داری ہے۔ یہ صرف دعوت و تبلیغ اور نرمی و رواداری سے ہونے والا کام نہیں بلکہ اس کے لیے حسب ضرورت جہاد بھی ناگزیر ہوتا ہے۔

قرآن و سنت ، آثار صحابہ اور مذاہب اربعہ کی روشنی میں محسن انسانیت ﷺ کا احترام کرنا سب پر فرض ہے۔ چنانچہ آپ ﷺ کے خلاف توہین آمیز الفاظ کہنے ، گالم گلوچ کرنے والے اور برا بھلا کہنے والے فرد کو قتل کردینا واجب ہے۔

اندلس کے قاضی عیاض توہین رسالت کے موضوع پر اپنی معروف تصنیف ” الشفاء “ میں رقم طراز ہیں کہ
” تمام علمائے امت کا اس بات پر اتفاق ہے کہ شاتم رسول ﷺ یا وہ شخص جو آپ ﷺ کی ذات میں نقص نکالے، وہ کافر اور مستحق وعید عذاب اور پوری امت کے نزدیک واجب القتل ہے۔“

امام مالک کا فرمان ہے کہ
” اس امت کو زندہ رہنے کا کوئی حق نہیں جو اپنے نبی کی ناموس کی حفاظت نہ کر سکے۔“

تحفظ ناموس رسالت کا کام بنیادی طور پر مسلمان حکمرانوں کی ایک اہم ذمہ داری ہے۔ تاہم اگر وہ اس ذمہ داری کو ادا نہیں کرتے تو پھر امت کے ہر فرد کو تحفظ ناموس رسالت کے لیے اپنا بھرپور کردار ادا کرنا چاہیے۔
عصر حاضر کے مسلم حکمرانوں نے اس سلسلہ میں وہ کردار ادا نہیں کیا جو ان پر فرض تھا۔ اور موجودہ حالات میں جو کچھ وہ کر سکتے تھے، انہوں نے وہ ذمہ داری بھی ادا نہیں کی۔ مغرب سے ان کی ذہنی مرعوبیت اور خوف و ہراس کی کیفیت تا حال جاری ہے لیکن یہ نہایت افسوسناک اور خطرناک صورتحال ہے۔

عہد نبوی میں صحابہ کرام نے توہین رسالت کے مجرموں کو قتل کرکے ناموس رسالت کی حفاظت فرمائی تھی۔ غزوہ بدر میں نو عمر انصاری صحابیوں حضرت معاذ و معوذ رضی اللہ عنہما کا سردار مکہ اور کفار کے دلیر سپہ سالار ابوجہل کو قتل کرنا، محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ کا یہودی سردار کعب بن اشرف کو قتل کرنا، نابینا صحابی کا گستاخ رسول کی مرتکب اپنی لونڈی کو قتل کرنا، شیر کا عتبہ بن ابوجہل کو ہلاک کر دینا، خط رسول کو پھاڑنے کے جرم میں فرمانروائے فارس کسری کا اپنے بیٹے کے ہاتھوں قتل ہو جانا، فتح مکہ کے موقع پر تمام اہل مکہ کی معافی کے حکم کے باوجود ابنِ خطل اور اس کی لونڈیوں کے قتل نبوی فرمان کے اسی سلسلے کی کڑیاں ہیں۔

برصغیر کے مسلمانوں کی تاریخ بھی اس معاملے میں درخشاں ہے۔ عبد العزیز غازی، حاجی مانک، غازی علم الدین وغیرہ نے اپنی جانیں قربان کرکے حرمت رسول کی پاسداری کی تھی۔

عطااللہ شاہ بخاریؒ نے ناموسِ رسالت کے بارے میں خطاب فرماتے ہوئے کہا تھا کہ
” آج کوئی روحانیت کی آنکھ سے دیکھنے والا ہو تو دیکھ سکتا ہے کہ حضرت محمدﷺ کی بے حرمتی کی جا رہی ہے، ناموس رسالت ﷺکی حفاظت کرو۔‘‘

غازی علم الدین پر اس تقریر نے سحر طاری کردیا تھا جس کا نتیجہ گستاخ رسول راج پال کی موت اور اس کی شہادت کی صورت میں نکلا۔ علامہ اقبال نے اسے خود لاہور کے مشہور قبرستان میانی شریف میں لحد میں اتارتے ہوئےکہا تھا کہ ” ہم دیکھتے ہی رہ گئے اور ترکھانوں کا لڑکا بازی لے گیا۔“

پچھلی دہائی میں 2005ء سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے توہین آمیز خاکوں (کارٹونز) کی اشاعت کرکے توہین رسالت کے جو مذموم سلسلے کی جو ابتدا ہوئی تھی تو اس کا تسلسل تاحال جاری ہے۔ اسی طرح اس کے ردعمل میں حرمت رسول کی خاطر جانیں قربان کرنے والے غیرت مند مسلمانوں کی شہادت کا تابندہ سلسلہ بھی جاری و ساری ہے۔

جرمنی میں زیر تعلیم پاکستانی نوجوان عامر چیمہ نے 2006 ء میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خاکے (cartoons) چھاپنے والے اخبار کے ایڈیٹر کو قتل کر دیا تھا.

29 جولائی 2020 ء کو غیورنوعمر لڑکے فیصل خالد نے چند ماہ قبل پشاور کی عدالت میں توہین رسالت کے مجرم طاہر نسیم کو جج کے سامنے قتل کردیا تھا۔

16 اکتوبر 2020ء کو فرانس میں مقیم 18 سالہ نوجوان عبداللہ شیشان نے توہین رسالت کے مجرم اپنے استاد کو قتل کرکے اسلام کا غیرت مند سپوت ہونے کا ثبوت فراہم کیا۔

14 اکتوبر 2020ء کو 75 سالہ فرانسیسی عیسائی راہبہ صوفیانہ کے ملک مالی کے باغیوں سے معاہدے کے بعد واپسی پر اس کے قبول اسلام کی خبر نے فرانس کے صدر کو ذہنی کشمکش میں مبتلا کر دیا۔
فرانس اس وقت اسلام دشمنی کے جنون میں مبتلا ہو چکا ہے۔

” فرانسیسی صدر کی دین اسلام پر زبان درازی اپنی حد سے بڑھنے کے مترادف ہے۔“
ترکی کے غیرت مند صدر جناب طیب اردگان نے فرانسیسی صدر کو للکارتے ہوئے اسے دماغی مجرم قرار دیا ہے جو توہین رسالت کے جنون میں مبتلا ہے۔
فرانسیسی حکومت کی طرف سے توہین رسالت کی یہ حرکتیں دراصل مسلمانوں کے خلاف اعلان جنگ ہے۔

مسلمانوں کو کیا کرنا چاہئے؟

دنیا کو سیرت النبی کا پیغام دینے کے ساتھ بلکہ اس سے پہلے ہمارے لیے لازمی ہے کہ ہم خود قرآن وحدیث کے اس پیغام پر عمل پیرا ہوں اور اس کا عملی نمونہ پیش کرنے والے ہوں۔

مسلمان متحد ہو کر گستاخان رسول کی سزاؤں کا مطالبہ کریں۔ اور اقوام متحدہ کو ایسے قوانین بنانے پر مجبور کریں، جن میں انبیائے کرام علیہم السلام کی توہین کرنے والوں کو سزائے موت دی جائے۔

فرانس کے ساتھ ہر قسم کے تعلقات، معاملات اور معاہدہ جات وغیرہ (اگر ہوں تو) ختم کریں۔

پاکستانی حکومت کو چاہیے کہ وہ فرانس کے سفیر کو فوراً طلب کر کے اس تک اور اس کے ذریعے فرانسیسی حکومت تک اپنا احتجاج ریکارڈ کروائیں۔ اور مسلمانوں کے دلی جذبات ان تک پہنچائیں۔

اگر وہ ہماری بات نہیں تسلیم کرتے تو پھر
فرانسیسی سفیر کو واپس بھیجا جائے، وہاں سے پاکستانی سفیر کو واپس بلایا جائے اور فرانس سے سفارتی تعلقات ختم کیے جائیں۔

معیشت کے میدان میں تمام فرانسیسی مصنوعات کا مکمل بائیکاٹ کریں۔ اور پھر اس بائیکاٹ کو جاری رکھا جائے۔ تاکہ مادیت کی زبان سمجھنے والوں کو ان کی زبان میں جواب دیا جائے۔

عالم اسلام اور پاکستان میں مصنوعات کے بائیکاٹ کے ساتھ ساتھ پُرامن احتجاج کے طریقے اختیار کیے جائیں۔

اہل اسلام مغربی کرنسی ڈالر، پاؤنڈ اور یورو کے ذریعہ تجارتی اور بینکنگ کے معاملہ کو ختم کرکے ان کی ویلیو کو کم کریں۔

ماہ ربیع الاول میں خصوصاً نبوت کا جشن منانے کے بجائے مشن نبوت کو آگے بڑھائیں۔ اور اسلام کی تعلیمات کو عام کریں۔ اور سارا سال عموماً یہ ذکر خیر جاری رکھیں۔

مسلمان پانچ نمازوں کا مکمل اہتمام کریں۔ اور دیگر اراکین اسلام کی پابندی بھی کریں۔

میڈیا پر اہل مغرب اور ان سے مرعوب زدہ مسلمانوں کی اسلام دشمنی کی مذمت کریں اور نبی مہربان صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ اور ان کی تعلیمات لوگوں میں عام کریں۔

اس ماہ کو ” ماہ رحمت للعالمین “ صلی اللہ علیہ وسلم کے طور پر منائیں۔

ہر گھر میں اسلام اور خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات اور ان کی سیرت کے مطالعے کو عام کریں۔

بدعات وخرافات سے بھرپور اجتناب کریں۔ یاد رکھیے! جہاں سنت ہو، وہاں بدعت نشونما نہیں پاتی اور جہاں بدعت ہو، وہاں سے سنت رخصت ہو چکی ہوتی ہے۔

سیرت کی کتابیں خریدنے، پڑھنے اور تحفہ دینے کی عادت پیدا کریں۔

مسلمان سیرت کی کسی کتاب کے چند صفحات کے مطالعہ کی عادت اپنے اندر مستقل طور پر پیدا کریں۔ ایک کتاب مکمل ہو جائے تو سیرت کی دوسری کتاب شروع کرلیں۔ اور سیرت النبی کے مطالعہ کا یہ خوبصورت سلسلہ تا حیات جاری رکھنے کی کوشش کریں۔

عوام کو سیرت سے جوڑنے کے لیے سیرت النبی کے مختلف عنوانات پر تحریری و تقریری مسابقات (competition) رکھیں۔

خواتین کو کیا کرنا چاہئے؟

خواتین نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کا اعادہ کرتے ہوئے دین کے فرائض پر خود عمل پیرا ہونے کے ساتھ ساتھ سنتوں کو اپنی زندگیوں کا حصہ بنانے کا پختہ عہد کریں۔

خواتین خصوصاً ماؤں کے لیے بچوں کی صورت میں عمل کاوسیع میدان موجود ہے۔ وہ اپنی اولاد کی قرآن وحدیث کے مطابق بہترین پرورش کریں۔ اور انہیں امت مسلمہ اور پاکستان کے لیے فائدہ مند مسلمان اور شہری بنانے کے لیے ان کی تعمیر کردار کریں۔

خواتین اپنے اپنے دائرہ کار میں رہتے ہوئےاپنی اولاد (خواتین اساتذہ اپنے طلبہ و طالبات) کے دلوں میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت، محبت اور اطاعت و اتباع کے واضح تصورات راسخ کریں۔

خواتین اپنی اولاد کو سیرت کی سچی کہانیاں اور واقعات سنایا کریں۔ انہیں سیرت النبی کے سانچے میں ڈھلنے اور عمل پیرا ہونے کے لیے مسلسل آمادہ کرتی اور ترغیب دلاتی رہیں۔

خواتین صرف خالی زبانی کلامی محبت کا دعویٰ نہیں کریں بلکہ اپنے عمل اور سچی اطاعت و فرمانبرداری سے ثابت کریں کہ جن سے محبت ہوتی ہے، ان کی کامل اتباع کی جاتی ہے۔

تمام مسلمانوں (بشمول خواتین) پر حسب استطاعت ناموس رسالت صلی اللہ علیہ وسلم کا دفاع لازم ہے ۔

آئیں!!! حضرت خدیجہ، حضرت عائشہ، فاطمتہ الزہرا، حضرت ام عمارہ اور حضرت خنساء و خولہ رضی اللہ عنھن کے نقش قدم پر چلنے کا پختہ عزم کریں۔

خواتین کو اللہ نے نبی مہربان صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ میں نمایاں کردار عطا کیا ہے۔ حضرت اُم عمارہ رضی اللہ عنہا نے غزوہ احد کے مشکل موقع پر تحفظ رسالت کے لیے بہت اہم کردار ادا کیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ
” واللہ! آج (غزوہ احد کے دن) ام عمارہ نے سب سے بڑھ کر بہادر دکھائی۔ میں جدھر بھی دیکھتا تھا، مجھے ام عمارہ کفار سے جنگ لڑتی دکھائی دیتی تھیں۔“

اسی غزوہ میں رسول معظم صلی اللہ علیہ وسلم کی شہادت کی افواہ بھی پھیل گئی۔ یہ خبر جب مدینہ میں پہنچی تو ایک انصاری صحابیہ بے اختیار میدانِ احد کی طرف روانہ ہو گئیں۔ اس غزوہ میں ان صحابیہ کے باپ، بھائی ، بیٹا اور شوہر سب شہید ہوگئے تھے۔ قریب سے گزرتے لوگ یکے بعد دیگرے انہیں خبر دیتے رہے کہ تمہارا باپ، بھائی، شوہر، بیٹا سب شہید ہو گئے ہیں۔ لیکن وہ ہر مرتبہ بے چینی سے پوچھتیں کہ
” رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کس حال میں ہیں؟“

لوگ بتاتے کہ ” آپ صلی اللہ علیہ وسلم آگے موجود ہیں۔“
وہ کہتیں کہ ” مجھے دکھاؤ کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لوں۔“
جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرۂ مبارک پر نظر پڑی تو بے اختیار کہنے لگیں کہ: ” یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! میرے ماں باپ آپ پر قربان، آپ سلامت موجود ہیں تو ہر مصیبت ہیچ ہے۔“ (سیرت ابن ہشام)۔

ہم خواتین ان صحابیات کے نقش قدم پر چلنے کا عزم صمیم کرتی ہیں۔
آئیں!!! آج ہم ان کے نقش قدم پر چلنے کا آغاز کریں اور دامے ،درمے ، قدمے، سُخنے اس مہم میں اپنا حصہ شامل کرتے رہیں۔
آئیں!!! اس عظیم سفر کا آغاز کر دیں۔

کی محمد سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا، لوح و قلم تیرے ہیں
(صلی اللہ علیہ وسلم)


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں

ایک تبصرہ برائے “تہذیبوں کی جنگ میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کیا کرے؟”

  1. رافعہ علی Avatar
    رافعہ علی

    بہت زبردست تحریر ہے۔
    ماشاءاللہ۔