باحجاب مسلمان خاتون لاک ڈائون کے دوران میں

کورونا پازیٹو آنے کی نمکین داستان

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

ڈاکٹر میمونہ حمزہ :

اکیسویں صدی کی دوسری دہائی کا اختتام کس انوکھے انداز میں ہو رہا ہے، ایک بظاہر دکھائی نہ دینے والے وائرس نے دنیا میں بسنے والے انسانوں کو معاشرت کے نئے اصول روشناس کروائے ہیں۔ کچھ انسانوں نے تحفظِ انسان کے احساس سے انہیں اختیار کیا تو کچھ نے بیرونی دباؤ سے اور کچھ نے اپنے سامنے تڑپتے نفوس کو دیکھ کر طوعاً و کرہاً اسے مان لیا۔

کچھ لوگ ابتداء سے ہی احتیاط کے قائل تھے، ہر نئی ریسرچ اور تھیوری کو الہامی سمجھ کر مان لینے والے ان لوگوں نے ابتدا ہی میں ’’احتیاط اور فاصلے‘‘ کے اصول کا ڈھنڈورا پیٹا۔ یہ الگ بات ہے کہ ان کا مذاق اڑانے والے بھی آخر کار ماسک اور سینی ٹائزر خریدنے والوں کی صف میں کھڑے دکھائی دیے۔

ہمارا معاملہ یہ تھا کہ ہم بدلے ہوئے حالات کی تمام معلومات اور خبروں کو پروپیگنڈے کے غبار سے ہٹ کر دیکھنے میں دلچسپی رکھتے ہیں، اس لئے جہاں سے مستند اور حقیقی احتیاطوں کا ذکر پڑھتے اور سنتے’’ کووڈ 19 ‘‘ کی وبا سے محفوظ رہنے کے لئے اسی قدر احتیاط بھی کر لیتے، اور جہاں ہمارا دل ہمیں دلائل سے قائل کر لیتا وہاں ہم بھی ڈھیلے پڑ جاتے۔

گھروں سے باہر نکلنے پر پابندی لگی تو ہم نے اپنی زندگی کے معمولات کو ’’لاک ڈاؤن‘‘ کے اوقات کا پابند بنا لیا۔ اسی دوران چہل قدمی کرنے نکلتے اور ضروری خریداری کر کے پیدل ہی گھر لوٹ آتے۔ عید کے دنوں میں جب باہر نکلنے کی پابندی تھی تو ہم نے اپنی بلڈنگ کے چھے خاندانوں کے ساتھ مل کر رنگین عید منا نے کے لئے دل کی اس دلیل پر سرِ تسلیم خم کر دیا کہ عملاً تو ہم سب ہی کئی مہینے سے’’ قرنطینہ‘‘ میں ہیں۔

ہمارے گھروں میں ایک دوسرے کو تحائف کا تبادلہ بھی ہوتا ہے، تو پھر ہم کیوں نہ مل بیٹھیں۔ اور یہ دلیرانہ فیصلہ کرنے کے لئے مشاورتی اجلاس کا اہتمام بلڈنگ کی کشادہ چھت پر کیا گیا تھا، جہاں ہم جسمانی فاصلے اور ذہنی قربت کے ساتھ بنفسِ نفیس موجود تھے۔ جب سات خواتین اور چند لڑکیاں متفق ہو گئیں تو گھر کے مردوں کو اطمینان دلانا کچھ بھی مشکل ثابت نہ ہوا جو اکثر و بیشتر خریداری بھی اکھٹے کر لیا کرتے تھے۔

عید گزری اور خیریت سے گزر گئی تو ہم بھی کچھ اور شیر ہو گئے، اور پھر وہ دن بھی آیا جب مساجد کے دروازے بھی کھل گئے اور شاپنگ مالز بھی! اور مسجدِ نبویؐ میں داخلہ بھی! ہماری چہل قدمی بلڈنگ کی چھت سے ’’اشرافیہ پارک‘‘ میں منتقل ہو گئی، اور ہم شاپنگ بھی دھڑلے سے کرنے لگے۔

کورونا کے نئے مریضوں اور شفا یاب افراد کی فہرست پر نظر پڑتی تو دل میں اطمینان کی لہر سرایت کر جاتی۔اور کہیں سے اڑتی اڑتی خبر ملتی کہ لوگوں کی بے احتیاطی سے مرض پھیل رہا ہے تو ہم ایک کان سے سن کر دوسرے سے اڑا دیتے۔

اور اب جب کہ میل ملاپ بھی بڑھ رہا تھا، اور خوف دم توڑ رہا تھا اور ہمیں ایسا لگتا تھا کہ ’’احتیاط اور فاصلہ‘‘ کا سلوگن پورے احترام کے ساتھ اٹھا لیا جائے گا، اچانک ہماری طبیعت پر سستی چھانے لگی، جسے دور کرنے کے لئے ہم نے آرام کیا تو لگا کہ آرام نے تو کچھ اور بے آرام کر دیا ہے۔ پورے جسم کے اعصاب میں عجیب سی تکلیف محسوس ہونے لگی، ہلکا سا بخار بھی ہو گیا،

ہمارے پڑوسی ڈاکٹر صاحب تک خبر پہنچی تو انہوں نے ’’فی سبیل اللہ‘‘ دوا بھیج دی۔ ہم بہتر محسوس کرنے لگے، مگر دو ہی دن بعد ہمیں شدید نزلہ ہو گیا، جو عادتاً اپنے ساتھ بخار بھی لے آیا۔ ہماری تکلیف کی خبر پھیلی تو ڈاکٹر صاحب نے نزلے کی دوا بھجوا دی۔ احتیاطاً کلینک جانے کا مشورہ بھی دیا، جو ہم نے یہ کہہ کر ہوا میں اڑا دیا کہ ’’سیانے کہتے ہیں کہ نزلے کا علاج کرواؤ تو دو ہفتے میں ختم ہوتا ہے ۔۔۔ اور اگر علاج نہ کرواؤ تو پندرہ دن میں بوریا بستر گول کر لیتا ہے‘‘۔

ہمارے گھر والوں کو یہ منطق ذرا پسند نہ آئی، اور ڈاکٹر کے پاس جانے پر اصرار کیا گیا، تب ہم نے اپنے خوف کو بیان کر دیا۔ کلینک میں داخل ہونے سے پہلے حرارت نوٹ کی جاتی ہے، اور بخار ہونے کی صورت میں کورونا سے متعلق کلینک میں بھیج دیا جاتا ہے، اور مجھے تو بخار بھی ہے۔ اور میں کورونا جراثیم کے خطرے کے مقام پر جانا نہیں چاہتی۔

ہم نے اینٹی بائیوٹک ادویات کا کورس مکمل کیا، اور حیرت انگیز طور پر ہمارا نزلہ تین دن میں اڑن چھو ہو گیا، مگر اس کے ساتھ ہی افتاد یہ آپڑی کہ کھانسی شروع ہو گئی۔ ہمارے ڈاکٹر صاحب کی تشویش میں کئی اور لوگوں کی تشویش بھی شامل ہو گئی، جبکہ ہماری نگاہ میں وہ ’’معمولی کھانسی‘‘ ہی تو تھی، جس نے بخار بھی چڑھا دیا تھا۔

جونہی حرارت کا گراف بلند ہوا، ہم نے ارد گرد کئی ساتھیوں سے مشورہ لینا چاہا، سب ہمیں ہسپتال جانے کا مشورہ ہی نہیں دے رہے تھے، اصرار بھی کر رہے تھے، ہم نے ماسک لگایا اور قربانی کی کسی بھیڑ کی مانند گاڑی میں جا بیٹھے۔ دوسری جانب سے گلہ آیا، اگر پہلے ہی میری مان لیتیں تو ۔۔۔ اب ہم کیا بتاتے کہ اپنا دل تو ابھی بھی نہیں مان رہا (مگر ہم نے اپنے دل کی آواز کو اپنے دل ہی میں رکھا)۔

گاڑی ہسپتال کے سامنے رکی تو میاں صاحب کو یاد آیا کہ وہ جلدی میں ماسک لگانا ہی بھول گئے ہیں، اب وہ گاڑی میں تھے اور ہمیں اکیلے ہی آگے جانا تھا۔ ہسپتال میں داخل ہوتے ہی ایک کیموفلاج اہلکار نے سینیٹائزر کی بوتل ہمارے ہاتھوں پر الٹ کر ہمیں پاک صاف کیا،

ہال میں فاصلے پر پڑی ایک کرسی کو بھی صاف کر کے مجھے اس پر بیٹھنے کا اشارہ کیا۔ سب سے پہلے منہ میں ایک لمبا راڈ نما تھامامیٹر ڈالا، جس کی تار کسی مشین سے جڑی تھی، اور ہماری حرارت ، نبض اور سانس کی رفتار کا اعلان کیا۔ دور میز پر بیٹھی ڈاکٹر نے فاصلے سے ہماری ہسٹری نوٹ کی، اور ایک اہلکار نے لا کر دوا ہمارے ہاتھ میں تھمائی۔ ایک دوا ایمیونٹی بڑھانے کی، ایک ملٹی وٹامن اور پینا ڈول۔ کچھ انتظار کے بعد ہمیں ایک کمرے میں لے جا کر ہمارا کورونا ٹیسٹ کر لیا گیا۔اور ہم یہی سوچ رہے تھے:
’’اس سب سے ڈر رہی تھی میں‘‘۔

اگلی صبح ہمارا بخار اتر چکا تھا، البتہ کھانسی ہلائے دے رہی تھی۔ چونکہ ہم ٹیسٹ کروا آئے تھے اس لئے تیمار داروں کی تسلیاں بھی تھیں، ایک ساتھی نے تو افسوس بھی کر ڈالا کہ بھابھی آپ کا کورونا پازیٹو آگیا ہے؟ ہم نے انکار میں پورا سر ہلایا، اور سوچتے رہے کہ ہماری تو ابھی رپورٹ ہی نہیں آئی:
’’یہ ہوائی کسی دشمن نے اڑائی ہو گی‘‘۔ اور سر جھٹک کر پھر اپنے روز مرہ کے کاموں میں مشغول ہو گئے۔

اس رات سارے کام انجام دینے کے بعد ہم بستر پر لیٹ چکے تھے، جب ایک بے وقت کی کال نے ہمیں چونکا دیا، ایک دوست ڈاکٹر صاحب ہماری کورونا رپورٹ کا پوچھ رہے تھے، ہم نے انہیں بھی دوپہر والا جواب دے کر مطمئن کرنا چاہا، تو ہمیں ان کی پریشان سی آواز سنائی دی، وہ میاں صاحب کو بتا رہے تھے، میرے پاس آپ کی اہلیہ کی رپورٹ آ چکی ہے۔ ان کی کورونا پازیٹو ایکٹو رپورٹ ہے۔

’’اور اس کے بعد ستاروں میں روشنی نہ رہی‘‘۔ ہمارے میاں صاحب ہمیں یہ دل خراش خبر سنا کر اور چند ہدایات دے کر اپنی چادر تکیہ سمیٹ کر دوسرے کمرے میں جا چکے تھے، اور ہم حیرت سے کمرے کی چھت اور دیواروں کو تک رہے تھے۔اور ہمارا پسندیدہ شعر ہمیں مزید حسرت دلا رہا تھا:

دیواروں سے باتیں کرنا اچھا لگتا ہے
ہم بھی پاگل ہو جائیں گے ایسا لگتا ہے
اس بستی میں کون ہمارے آنسو پونچھے گا
جس کو دیکھو اس کا دامن بھیگا لگتا ہے

ہماری نیند اڑ چکی تھی، ہم نے اپنی رپورٹ کی نقول مختلف برِ اعظموں کے رہائشی بچوں کو بھجوائیں اور اپنے بہن بھائیوں کو، ہمارا خیال تھا کہ نصف شب گزرنے کے بعد سب سو چکے ہوں گے، لیکن ۔۔ ایک ایک کر کے ان کے عیادت کے فون اور پیغامات آنے لگے۔

ہمارے بچے ہمیں کیا تسلی دیتے، ان کے رنج بھرے چہرے دیکھ کر ہمیں مسکرانا بلکہ کھلکھلا کر انہیں بتانا پڑا کہ میں بالکل ٹھیک ہوں اور پریشانی کی چنداں ضرورت نہیں، بس دعا چاہیے۔ صبح تک ان کے بھی فون آئے جن کی آواز سننے کو کان منتظر رہتے ہیں، اور اس گلوبل ولیج کی دنیا میں اگر ہماری کورونا پازیٹو رپورٹ نے ارتعاش پیدا کیا تھا، تو کتنوں کی آواز اور پیغام نے ہمارے دل کے تار بھی چھیڑ دیے تھے۔
لا باس طھوراً ان شاء اللہ کی آوازوں پر دل میں عجب اطمینان محسوس ہوتا۔

اتنے پیارے لوگوں کی محبتیں ہی تھیں کہ صبح شام کوئی گھنٹہ ایسا نہ تھا جب کسی تیماردار کے کلمات اور دعائیں مرض کو دھونے کا اہتمام نہ کر رہی ہوں، ایسا لگتا تھا جیسے ہم ’’موسٹ فیورٹ پرسنیلٹی‘‘ بن گئے ہوں ان پیاروں کے بیچ میں۔ اور شاید اسی خوشی کا احساس ہمارے لہجے میں بھی تھا، ہماری بیٹی نے والد صاحب کو فون کر کے ہماری خیریت دریافت کی تو جواب ملا: ’’مزے کر رہی ہیں آپ کی امی‘‘۔

اب ہم آئیسولیشن میں تھے اور گھر کے دو مکین ہماری تیمار داری میں ہمہ تن مصروف! کبھی سوپ کا پیالہ ملتا تو کبھی ادرک اور کلونجی کے قہوے کی تھرماس، کبھی کٹے ہوئے پھل، اور کبھی وقفے وقفے سے کھانا۔ ہم کمرے میں محوِ استراحت تھے اور وہ دونوں سارا دن ماسک لگائے پھرتے۔ ہمارا دل شکر یے اور قدر دانی کے احساس سے بھر جاتا، اور دل سے ان کے لئے دعائیں نکلتیں۔

ہماری پیاری سی بیٹی کمرے کے باہر کھڑی ہمارا حال پوچھتی اور عملاً دل بھی بہلانے کی کوشش کرتی کہ کہیں ہم اس قیدِ تنہائی سے گھبرا نہ جائیں۔

اسی کیفیت میں جب دس دن گزر گئے تو ہمارا دل اپنے ہی گھر سے اداس ہو گیا، دل چاہتا کہ اپنی سلطنت کے دیگر گوشوں کا بھی نظارہ کریں، ہم نے انہیں ڈاکٹر صاحب کی اہلیہ سے رابطہ کیا اور انہیں اپنی خاطر خواہ تسلی والی کیفیت بتائی، مگر جواب ملا کہ دو ہفتے انتظار کے بعد ہی اس قید سے نجات مل سکتی ہے۔ ہم نے اپنے رابطے کے بیرون ِ شہر ڈاکٹرز سے بھی رابطہ کیا تو امید کی ایک کرن دکھائی دی۔

بار بار احتیاطی تدابیر کے بعد اتنی اجازت ملی کہ جب بخار اترے دس دن گزر چکے ہوں تو آئیسولیشن سے باہر نکلا جا سکتا ہے، اس طرح کہ پہلے دن ماسک پہن کر کمرے سے باہر جا سکتی ہیں اور اگلے دن ماسک بھی اتار دیں۔

ہم خوشی سے پھولے نہ سمائے، اپنا کمرہ از سر ِ نو صاف کیا، بستر کی چادر، کمفرٹر کا غلاف، تولیہ وغیرہ کو واشنگ مشین میں ڈالا اور نہا دھو کر اپنے تئیں اپنی جنت کے نظارے کو چلے، بیٹی اپنے کمرے میں آن لائن کلاس میں مصروف تھی اس لئے ہم نے اسے بھی آگاہ کرنا ضروری نہ سمجھا۔ دن کو بیٹی سے اس خواہش کا اظہار کیا تھا کہ میرا دل چاہ رہا ہے ذرا لاؤنج تک جاؤں، تو اس نے اس خواہش پر ہی حیرت کا اظہار کیا تھا کہ اچھی بھلی بیٹھی ہیں اس کمرے میں۔ دو تین دن بعد چلی جائیے گا۔

میں نے کہا کہ میں اپنے گھر کو مس کر رہی ہوں ، تو اس نے مجھے اس ماں کا قصہ سنایا تھا جو اپنے گھر کے تمام کام خود کیا کرتی تھی اور پھر کسی وجہ سے کچھ دنوں کے لئے اپنے بچوں کو گھر میں چھوڑ کر گئی تھی، جب وہ واپس آئی تو یہ دیکھ کر حیران رہ گئی کہ گھر بھی سمٹا ہوا تھا اور بچے بھی اپنے کام شیڈول کے مطابق کر رہے تھے، یہ ساری صورت حال دیکھ کر ماں ڈیپریشن کا شکار ہو گئی کہ اس گھر میں اس کی ضرورت ہی باقی نہیں رہی۔ بٹیا نے مسکراتے ہوئے کہا تھا، کہ ہم آپ کو ڈیپریشن کا شکار نہیں کریں گے۔

میں اپنے کمرے سے نکلی اور لاؤنج پر طاہرانہ نگاہ ڈالی، تو کوئی خوش گوار منظر نظر نہ آیا، حتی کہ جو کتاب جس جگہ آڑھی ترچھی چھوڑ کر گئی تھی، ویسے ہی تھی، جیسے کسی نے انہیں ہاتھ بھی نہ لگایا ہو۔ ہم نے اتنے دن کی بیٹی اور میاں صاحب کی خدمتوں اور تیمار داری کے مناظر ذہن میں دہرائے اور عام معافی کا اعلان کرتے ہوئے ڈرائینگ روم میں داخل ہو گئے۔

یہاں تو سب اچھا تھا۔ میاں صاحب نے خوش آمدید کہا، انہیں ڈاکٹر کی ہدایات سے آگاہ کرتے ہوئے واپس مڑی اور نجانے کیوں واپسی پر باورچی خانے میں بھی جھانک لیا۔ کاش کہ میں سیدھی کمرے میں ہی چلی جاتی، برتن تو سب دھلے ہوئے تھے، مگر کچن کا ہر گوشہ مالکہ سے شکایت کناں تھا، گویا کہہ رہا ہو،
’’ایسی کیا افتاد پڑی تھی کہ آپ ہمیں بھول ہی گئیں‘‘۔

میں نے چکراتے ہوئے سر کے ساتھ گیزر آن کیا اور مرے ہوئے قدموں سے چلتی بیٹی کے کمرے میں آئی، اور اس سے شکوہ کرتے ہوئے مجھے دن کو بیان ہونے والی کہانی بھی یاد آ گئی۔ میں واپس بستر پر آگئی۔ رات کے کھانے سے پہلے میاں صاحب نے آواز لگائی کہ کھانا گرم کر لیں، تو بیٹی نے چہچہا کر کہا: اب تو امی جان آئیسولیشن سے نکل آئی ہیں۔ میں نے وہیں بستر پر اپنا دستر خوان بچھایا اور ہانک لگائی: ’’میں نہیں نکل رہی آئیسولیشن سے ۔۔‘‘۔

مگر رات گئے میرے اندر کی مالکہ بیدار ہو گئی، اور ماسک لگائے کچن دھوتے ہوئے چند گھنٹے پہلے پیدا ہونے والے گلے شکوے بھی دھلتے چلے گئے، ہر جگہ کچن میں تیمار داری کی ضیافتوں نے نشان تھے، کہیں بھاپ کے لئے رکھے برتن، کہیں پھلوں کے چھلکوں سے بھرا کوڑا دان، اور کہیں یہ اور کہیں وہ۔۔
ہم تازہ تازہ صحت پر دل کی گہرائیوں سے اللہ کا شکر ادا کرتے ہوئے واپس کمرے میں آگئے۔


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں

2 پر “کورونا پازیٹو آنے کی نمکین داستان” جوابات

  1. نازیہ Avatar
    نازیہ

    بہت اچھی تحاریر مگر نا قابل دید اشتہارات

  2. فرحت طاہر Avatar
    فرحت طاہر

    اللہ کا شکر کہ صحتیابی نصیب ہوئی
    بہت ہی دلچسپ انداز میں آپ نے اپنےپر گزری بیان کی ورنہ تو لوگ بات کرتے ہوئے بھی گھبراجاتے ہیں اس موضوع پر!.