ڈاکٹر امتیاز عبدالقادر

فکری اختلاف ۔۔۔ متوازن رویہ (1)

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

ڈاکٹر امتیاز عبدالقادر :
’مرکزبرائے تحقیق و پالیسی مطالعات‘، بارہمولہ

اسلام کاایک اہم تقاضا یہ ہے کہ جودین کواختیارکرے وہ تواصی بالحق کے جذبے کے تحت دوسروں کوبھی برابراس کی تلقین ونصیحت کرتے رہے۔ دین کایہی مطالبہ ہے جس کے لئے ہم دعوت وتبلیغ کی اصطلاح استعمال کرتے ہیں۔

قرآن کے مطالعے سے اس کاجوقانون واضح ہوتاہے وہ مختلف حیثیتوں سے بالکل الگ الگ صورتوں میں اس کے ماننے والوں پرعائد ہوتاہے۔ پیغمبروں کی دعوت کسی وضاحت کی حاجت نہیں رکھتی البتہ رسولوں کی دعوت میں انذار،اتمامِ حجت اورہجرت وبرا ت کے مراحل سے گزرکر دین کی شہادت جب قائم ہوتی ہے اوربالکل آخری حدتک رسول علیہ السّلام مدعو قوم پرحجت کااتمام کرتاہے تو دنیاوآخرت میں فیصلہ الٰہی کی بنیاد بن جاتی ہے۔ چنانچہ اللہ تعالٰی رسولوں کوغلبہ عطاکرتا ہے اوراس دعوت کے منکرین کواس دنیا میں ہی عبرت کانشان بناتاہے۔

آخری رسول حضرت محمدﷺ کے بعدامت پراس کی ذمہ داری آن پڑی کہ وہ بے کم وکاست اس دعوت حق کواپنی بساط ، صلاحیت اورحدود میں رہ کر’ معروف ‘ سے لوگوں کوآگاہ کریں اور’ منکرات ‘ کے برے نتائج سے انہیں ڈرائیں لیکن اس جدوجہد میں دعوت دین کے ساتھ ایک بڑاحادثہ یہ ہوا کہ ہم نے وہ حدودوقیود ملحوظ نہ رکھے جو دین کا داعی یا دوسرے لفظوں میں دین کا ’ ترجمان ‘ بن کرہمیں ہرقیمت پرملحوظ رکھنے تھے۔

بلاشبہ اسلام کی تمام تعلیمات اپنی اصل حالت میں موجودہیں مگراس کی تعبیراورتشریح میں گزشتہ ڈیڑھ ہزارسال میں زمانہ کے اعتبارسے تبدیلی ہوتی رہی۔ یہاں تک کہ ہم اکیسویں صدی عیسوی میں داخل ہوگئے ہیں۔مفکرین نے امتدادِزمانہ کے مطابق دین کی تعبیرپیش کی تاکہ عوام کودین پرچلناآسان ہو۔ یوں مرورِزمانہ کے ساتھ ساتھ دین کی تعبیروتشریح میں جدّت آتی گئی۔

مفکرین نے دین کے اصول وفرع کوسمجھ کراپنے اپنے ادوارمیں اس کی تفہیم کی اوراپنی اُس ذاتی فہم کودنیاکے سامنے لاکے رکھا۔عوام کی معتدبہ تعداد نے اُس ’ تفہیم ‘ کوحق بجانب سمجھ کرقبول کیااورجوکچھ انہوں نے سمجھا،قول وفعل سے اُس تعبیرِدین کی تشہیروتبلیغ کرتے گئے لیکن اس سب مساعی میں ایک بڑی خرابی جو درآئی وہ یہ ہے کہ اکثریت اس بات پرمُصرہے کہ جوکچھ انہوں نے سمجھا، دین کی جوتفہیم انہوں نے حاصل کی، جودعوت لے کر وہ خود اٹھے ہیں یا جو منہج انہوں نے اختیارکیا، بس وہی برحق ہے اورمبالغہ آرائی ایسی کہ خود کو’ کشتی نوح ‘ اور’ ہدایت وضلالت ‘ کا معیار گردانا۔ اُن کے نقطہ نظرسے اختلاف جیسے ’ شجرممنوعہ ‘ ٹھہرا۔ اِس طرح سے فکری آزادی،اختلافِ رائے جیسے جامد ہوکر رہ گئی۔

نبوّت آں حضورﷺپرختم ہوگئی۔ دوسرے لفظوں میں وحی کاسلسلہ اب اختتام کوپہنچا ۔ جبرائیل علیہ السلام کی ’ رسالت ‘ کا کام اب ختم ہو ا۔ ’ حق ‘ و ’ باطل ‘ کی جنگ کا اب وہ معیارنہ رہا۔ جنت وجہنم بانٹنے کی ذمہ داری صاحبینِ منبرومحراب کی نہیں رہی۔ ضال ومضل کی ’ اسناد ‘ تقسیم کرنا داعیوں کا کام نہیں۔ یہ فیصلے وحی کی آمدورفت کے محتاج ہیں جس کاسلسلہ اب کائنات کی ’موت‘ تک بند ہوچکا ہے۔

اس وجہ سے یہ حق اب اِس زمین پرکسی شخص کونہیں رہا کہ وہ اپنی رائے یا کسی کے نقطہ نظرکوحق کی حتمی حجت اوراپنے کسی قول وفعل کو حق وباطل کا ’ معیار‘ قرار دے کرعوام سے اُس کی پیروی کا مطالبہ کرے۔ یہ صرف انبیاء و رُسل کا حق ہے اور یہ صرف اُنہی کا مقام ہے کہ خود اللہ تعالٰی یہ اعلان کرے کہ

”تیرے پروردگارکی قسم!یہ لوگ مومن نہیں ہوسکتے جب تک اپنے اختلافات میں تمھی کوحکم نہ مانیں اورجوفیصلہ تم کردو،اپنے دلوں میں تنگی محسوس کئے بغیراُس کے آگے اپنے سرنہ جھکادیں۔“(سورۃ النّساء۔56)

پیغمبرکے بعد اب جوشخص بھی دعوت کے میدان میں آئے گا،اُس کامنصب یہی ہے کہ وہ اپنی بات قرآن وسنت کے دلائل کے ساتھ لوگوں کے سامنے پیش کرے اورمخاطبین کو واضح کرے کہ اُس نے جوکچھ دین کوسمجھاہے، جوتحقیق کی ہے ، وہ خود اُس کی صحت پرتومطمئن ہے البتہ اس فہم وتعبیر میں وہ غلطی کاامکان بہرحال تسلیم کرتاہے۔

اس کے علاوہ کوئی الہام ، القاء ، خواب اور کوئی شرحِ صدر بھی یہ حیثیت نہیں رکھتا کہ اُس کے حامل کے متعلق یہ دعویٰ کیا جائے کہ بقول شاہ اسماعیل شہیدؒ ” پس حق ، جہاں یہ ہستی گھومتی ہے، اُس کے ساتھ ہی گھومتارہتاہے۔“ یہ ایک متوازن رویہ ہے جومفکرین، داعیین، تنظیموں اورجماعتوں کوسمجھناچاہئے۔

اعتدال ایک ایسا رویہ ہے جو زندگی کے ہر شعبہ میں انسان کو ممکنہ خسارے سے روک لیتا ہے۔ انسان فطری طور پر کسی ایک جانب جھولنے کا عادی بن چکا ہے کبھی تو وہ خیر و برکت کا سرچشمہ تو کبھی شر کا استعارہ بن جاتا ہے۔

خیر کی جانب سبقت زیادہ تر انسان کو عصبیت میں مبتلا کر دیتی ہے جبکہ تعصب ایک لاعلاج ذہنی تفاوت ہے۔ جو معاشرے میں عموماً فتنہ کا باعث بن جاتا ہے انسان کے مابین ہونے والی نزع کا عمومی ماخذ دراصل یہی تعصب ہی ہوتا ہے۔ تعصب مذہبی معاملات میں ہو یا دنیاوی، بہرحال ایک غیر متوازن رویے کے اظہار کا نام ہے۔

فکر انسانی وجود کو ڈرائیو کرتی ہے۔ چنانچہ ہم کہہ سکتے ہیں کہ انسان کے ہر عمل کے پیچھے دراصل اْس کی فکر ہی کارفرما ہوتی ہے۔ چاہے انسان اس کا ادراک رکھتا ہو یا اس سے منزہ ہو بہرحال وہ فکر کی اطاعت اپنے اعمال سے ثابت کرتا رہتا ہے۔ اگر فکر میں جھول ہے تو عمل میں بھی جھول صاف نظر آ جائے گا۔ اگر فکر میں توازن ہے تو پھر عمل بھی متوازن ہی ظاہر ہو گا۔

توازن نظم کی اکائی ہے دنیا میں آپ جہاں پر بھی اخلاقیات یا سماجیات میں تنظیم دیکھیں گے تو اس کا گہرائی سے تجزیہ کرنے کے بعد معلوم ہوگا کہ یہ دراصل فکری توازن کا ہی نتیجہ ہے۔ فکری غلامی اگر انسان سے اْس کی خودی چھین لیتی ہے تو مطلق فکری آزادی اْس کو ایک آزاد جانور بننے پر مجبور کر دیتی ہے۔

انسان دراصل نیت کے خدوخال کا نام ہے۔ عمل ایک روشنی کی مانند انسان کے لئے تکمیلِ اسباب کا باعث بنتا چلا جاتا ہے۔ فکری غلامی جہاں انسان کو ہست و بود سے بیگانہ کر دیتی ہے تو وہاں مطلق فکری آزادی انسان کیلئے ایک مستقل سزا بن جاتی ہے۔

انیسویں اوربیسویں صدی سے ہی دین کی خدمت کے لئے اورلوگوں کی اصلاح، تزکیہ علم وعمل اورتطہیرِجماعت ِ مسلمین کے لئے چند قد آور شخصیات اٹھیں جنہوں نے اپنے فہم کوشرح وبسط کے ساتھ مخاطبین کے سامنے رکھا۔ ہندوپاک کی ’ جماعتِ اسلامی ‘ ہو یا ’ تبلیغی جماعت ‘ ، مصر اورعالمِ عرب کی ’ اخوان المسلمون ‘ ہو یا فلسطین کی تحریکِ ’حمّاس ‘ وغیرہ، ان سب کامقصداسلام کوسماج میں کسی حد تک جاری وساری کرنے کا ہے اور مقصد کی آبیاری کے لئے ابھی بھی ہمہ تن تگ وتاز میں مصروف ہیں۔

طریقے اورمنہج میں اختلاف ہوسکتاہے مگرسب خلوصِ نیت سے دعوتِ دین کی جدوجہد کرتے رہے ہیں ۔ معتدبہ تعداد اُن لوگوں کی فکرسے متاثرہوئے اوراُس قافلہ کے راہی بنے۔ اکثریت نے اختلاف کیا اورکچھ لوگوں نے شدت سے اختلاف کیا۔ توازن ہر دوطرف سے مفقود تھا ۔ کوئی انسانی کاوش، فکراورنظریہ غلطیوں سے مبرّانہیں۔ اسلام نے فرد کو مناسب حدود میں اختلاف کا حق دیا ہے۔ لیکن زمانہ جوں جوں گزرتا گیا،اختلافات میں تعصّب کی شدت آگئی، یہاں تک کہ آگے چل کراس نے ایسی ناگوارصورت اختیارکرلی کہ امت کا اتحاد پارہ پارہ ہوگیا۔

بیسویں صدی میں عالمِ اسلام میں برپا ہونے والی تحریکوں کاوسیع کینواس تھا۔انہوں نے مسلمانوں کوقرآنی پیغام کہ ’ دین میں پورے کے پورے داخل ہوجاؤ ‘ کی طرف بلایا۔ مکمل اسلام کے نفاذ کی انہوں نے جدوجہد کی۔مغرب کے فکری ، تہذیبی اورعسکری حملوں کے خلاف زبردست علمی مورچہ بندی کی۔ اُن جماعتوں اور تنظیموں کامختصرتعارف ذیل میں پیش کیاجاتاہے۔۔۔۔ (جاری)


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں