سفید لباس میں مسلمان خاتون قرآن مجید کی تلاوت کرتے ہوئے

رمضان المبارک میں احتساب اور اصلاح کیسے ہو؟ (1)

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

بسلسلہ استقبال رمضان المبارک ، محترمہ ڈاکٹر بشریٰ تسنیم کے سلسلہ ہائے مضامین کی پہلی تحریر

ایک مسلمان ، چاہے وہ مرد ہو یا عورت ، جب تک اپنا بے لاگ احتساب نہیں کرتا اس کی اصلاح کے مواقع سامنے نہیں آسکتے ۔ کمی کہاں ہے؟ خطا کیا ہے؟ گناہ کیا ہیں ؟ اور ان میں ہمارا نفس کتنا آلودہ ہے؟ یہ سب عوام الناس کی نظروں سے اوجھل رہتا ہے. صغیرہ ، کبیرہ ، ظاہر ی، باطنی، جانے ، ان جانے میں کئے گئے گناہوں کی معافی مانگ تو لیتے ہیں لیکن اس جملے کی روح سے نابلد ہوتے ہیں۔ ندامت کا کوئی جذبہ اس جملے کے ساتھ نہیں ہوتا۔ بس! ہوائی باتیں، اور زبان کی ورزش کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔

دل کی دنیا میں شرمندگی کا جوار بھاٹا نہیں اٹھتا ہے. اور آنکھوں سے جواب دہی کے خوف کی برکھا تو کیا برسنی ، نمی تک نہیں آتی ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اپنی خطاؤں پہ نظر ہی نہیں ہوتی ۔

نفس تسلی دیتا ہے کہ ہم نے نہ کوئی قتل کیا ہے،نہ ڈاکا ڈالا ہے، نہ زنا کیا ہے،اور نہ ہی ملک وقوم سے غداری کی ہے ۔ ہم ایک اللہ کو مانتے ہیں، اس کے محبوب نبی کریم کو آخری نبی مانتے ہیں ، قرآن کی تلاوت کرتے ہیں، رمضان المبارک کے مہینے میں روزے رکھتے اور حج عمرہ کرتے اور زکوة ادا کرتے ہیں. اور یہ سب أعمال کرنے کے باوجود ہم استغفار بھی کرتے ہیں۔

یقیناً یہ سب ایک مسلمان کی صفات ہیں اور جنت ایسے مسلمان کے لیے واجب ہے مگر کیا ہم حقوق اللہ ، حقوق العباد کی ادائیگی میں معیار کا بھی خیال رکھتے ہیں؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ نیکی کے معاملے میں کمتر معیار پہ راضی ہونے کی عادت میں مبتلا ہیں اور دنیا کی خواہشات کے لئے معیار اعلیٰ ترین ہے؟

میزان اسی لئے تو رکھی جائے گی کہ دنیا کی چاہت کے پلڑے میں وزن زیادہ ہے یا پھر آخرت کی چاہت کا وزن زیادہ ہے ۔ دل کی سچی اور کھری چاہت پہ ہی اعمال کی درجہ بندی کی جائے گی. اللہ تعالیٰ نے مومنوں کو تلقین کی:

اے مومنو، اللہ کا تقویٰ اختیار کرو اور ہر نفس یہ جائزہ لیتا رہے کہ وہ اپنی کل (آخرت ) کے لئے کیا جمع کر رہا ہے، بے شک اللہ تمہارے ہر عمل کی خبر رکھتا ہے (کہ وہ عمل کتنا معیاری ہے) [الحشر۔ 18]

اور اگر مومن اس معیار کا جائزہ لینے سے غافل ہوتا ہے تو نتیجتاً یہ معاملہ سامنے آتا ہے:

ان لوگوں کی طرح نہ ہو جائو جواللہ کو بھول گئے تو اللہ نے انھیں خود اپنا نفس بھلا دیا، یہی لوگ فاسق ہیں.[ الحشر : 19]

اور فاسق اور مؤمن کبھی برابر نہیں ہوسکتے. جیسے اہل جنت اور اہل جہنم برابر نہیں ہو سکتے [ الحشر : 20]

اہل جنت میں شامل ہونے کے لیے آج اور ابھی اپنا احتساب بے لاگ کرنا ہوگا اور اپنی کل کے لیے معیاری نیکیاں کرنی ہوں گی.
(جاری ہے)


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں