خاتون تلاوت قرآن مجید کرتے ہوئے

رمضان المبارک میں احتساب اور اصلاح کیسے ہو؟ (2)

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

بسلسلہ استقبال رمضان المبارک ، محترمہ ڈاکٹر بشریٰ تسنیم کے سلسلہ ہائے مضامین کی دوسری تحریر

پہلے یہ پڑھیے :
رمضان المبارک میں احتساب اور اصلاح کیسے ہو؟ (1)

محاسبہ یا احتساب بہتر سے بہترین کا سفر ہے. ٹارگٹ، منزل یا نصب العین کو پورا کرنے کے لیے کماحقہ کوشش کرتے ہوئے جو کمی، کوتاہی ہوجائے اس کا بر وقت تدارک کرنا ہے ، جو غلطی ہوجائے اسے آگے بڑھنے سے پہلے درست کر لینا ہے.. تاکہ جب مالک کے سامنے کام کی رپورٹ پیش کرنے حاضر ہوں تو مالک خوش ہو جائے..

اس کو قرآنی زبان میں تقویٰ اختیار کرنا کہتے ہیں۔ یہاں تو مالک رب کائنات ہے اور اس کے حضور پیشی کسی لمحے بھی متوقع ہے .اور اس کی نگاہوں سے کسی لمحے بھی ہم اور ہمارے اعمال اوجھل نہیں ہو سکتے. اس رب کی عظمت کا احساس، اس کی ذات کی پہچان، اس رب کی رحمت کا عرفان جس قدر دل میں جاگزیں ہوگا اسی قدر مومن ” ولتنظر نفس ما قدمت لغد “ کی حقیقت سے واقف ہوگا۔

پہلا محاسبہ اپنے ایمان کا یہ ہے کہ توحید کا عرفان ہو۔ اللہ ایک ہے ، یہ ہمارا عقیدہ ہے۔ اس کی ذات پہ ایمان بالغیب کے تقاضے ہر شق اور ہر شرط کے ساتھ پورا کرنا ہی اس کو ایک ماننا ہے۔ شرک خفی اور جلی کا علم کما حقہ ہونا چاہیے. شرک تو کسی صورت معاف نہیں ہوگا.

جب افکار و اقوال میں اعمال و معاملات میں اللہ رب العزت کی ذات سے تعلق رکھنے کا دعویٰ بھی ہو اور شک تزبزب بھی موجود ہو، ” دنیا کیا کہے گی“ کا خو ف بھی ہو ، روزی کے حصول میں کامیاب ہونے کے لئے ” مروجہ دنیاوی اصول “ بھی سہارا لگتے ہوں۔ مشکل کشا اللہ کی ذات بھی سمجھی جائے مگر واسطے کے لئے غیروں کے در پہ حاضری بھی ہو تو ایمان کی یہ کون سی شکل بنے گی بھلا ؟

شرک کم ہو یا زیادہ توحید کو خالص نہیں رہنے دیتا. اور ” ادخلوا فی السلم کافہ “ اور ” للہ الدین الخالص “ کا تقاضا بهی یہی ہے کہ ایمان وہی قابل قبول ہے جو خالص ہو اور ہمہ پہلو مکمل ہو۔ ہم اپنے اعضاء و جوارح سے ، ذاتی پسند و ناپسند کے معیارسے، خاندان و برادری کے اصولوں سے پرکھ سکتے ہیں کہ ہم صرف ایک اللہ کے کتنے فرماں بردار ہیں، اس ایک اللہ کے سامنے اپنے ہر عمل کی جواب دہی کے لئے کتنے لرزاں ہیں.

کیا واقعی ہم اللہ کو ایک مانتے ہیں ؟ لیکن یہ کیسا ایمان ہے کیسی محبت ہے کہ اس وحدہ لا شریک کی ایک نہیں مانتے یا جو من کو پسند ہو وہ مانتے ہیں اور انفرادی و اجتماعی معاملات میں اپنے رب کو احکم الحاکمین تسلیم نہیں کرتے اور اس رب کائنات کے حضور پیشی کو معمولی حاضری جانتے ہیں۔ ہر مومن اپنا خود محاسب بنے اور سوچے کہ اس نے اپنے رب کے حضور پیش ہوکر زندگی کے ہر چھوٹے بڑے معاملے میں اللہ کو صرف اور صرف ” ایک “ تسلیم کرنے کےکیا ثبوت تیار کررکهے ہیں؟

” ولتنظر نفس ما قدمت لغد “ کی تلقین سراسر ہمیں بہتر سے بہترین کی طرف راغب کرنا ہے ورنہ وہ مالک یوم الدین تو ” علیم بذات الصدور“ ہے. یہ سب ریکارڈ تو ہمیں ہی دکھانے مقصود ہیں۔ اس دن جب ذرہ برابر نیکی اور بدی سامنے لائی جائے گی اور کسی پہ ظلم نہ کیا جائے گا۔

جب حکم ہوگا پڑھو اپنے اعمال نامے کہ آج ہر نفس کو اپنے کرتوت دیکھ کر خود ہی اپنا مقام سمجھ آجائے گا. اس دن کی شرمندگی یاد رہنا بھی اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی ذات کو ایک ماننا ہے. دنیا کے انسانوں کے سامنے شرمندگی سے بچنے کے لئے جھوٹ بولنا، اللہ کی ذات کو بھلا دینا ہے. جو دنیا کی خاطر اللہ کو بھلا دیتا ہے تو پھر اللہ بھی اسے بھلا دیتا ہے اور اللہ کا کسی کو بھلا دینا یہ ہے کہ اس سے اپنی حالت بہتر کرنے کا احساس چھین لیا جائے اور اس کے لئے ہدایت کے راستے بند ہو جائیں۔

اصلاح کے طریقے

اول: تجدید ایمان کی تلقین ” لا الہ الا اللہ “ کا ذکر کرنے سے کی گئی ہے. جب بھی یہ ذکر کیا جائے تو اپنے اور اللہ رب العزت کے درمیان جو رشتہ ہے اسے شعوری کوشش کرکے دل میں محسوس کیا جائے۔

دوم : اسماء الحسنی کو یاد کرنے پہ جنت کی بشارت ہے۔ اسماء الحسنی دراصل اللہ تعالیٰ کی معرفت ہے۔ معرفت محض زبان سے نام دہرانے سے نہیں مل سکتی. اللہ تعالیٰ سے اس کی ذات کی معرفت مانگیں بھکاری بن کر ۔ جس کی جهولی بھر گئی وہ ولی اللہ ہوگا۔

سوم : اللہ رب العزت کی بارگاہ میں کھڑے ہونے کے شعوری تصور کی پریکٹس دن میں پانچ مرتبہ فرض کی گئی ، اس لیے کہ باقی اوقات میں بھی یہ عمل جاری رہے.

رمضان المبارک کے قیام اس پریکٹس میں اضافہ کرتے ہیں تاکہ اگلے گیارہ ماہ یہ مشق جاری رہے۔

توحید تو یہ ہے کہ خدا حشر میں کہ دے
یہ بندہ دو عالم سے خفا میرے لیے ہے

اے اللہ ! ہم تجھ سے اپنے سارے معاملات کی درستی کے لیے التجا کرتے ہیں اس لیے کہ ہم صدق دل سے گواہی دیتے ہیں کہ تیرے سوا کوئی معبود نہیں. تو اکیلا ہے، بے نیاز ہے، نہ تیری کوئی اولاد ہے اور نہ تو کسی کی اولاد ہے اور نہ کوئی تیرا ہمسر ہے نہ کبھی ہوگا.

چہارم : ہم ان سب قصوروں کی معافی چاہتے ہیں جو تیری ذات و صفات کے ساتھ ہم سے سرزد ہوئے..اور تیری خالص بندگی کے لیے تجھ سے ہی اعانت طلب کرتے ہیں۔

لا الہ الا انت سبحانک انا کنا من الظالمین.
(جاری ہے)


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں