شاہدہ مجید، اردو شاعرہ ، کالم نگار، صحافی

کیا ہم سب پاگل ہو چکے ہیں ؟

·

اس کا ’جرم‘ صرف اتنا تھا کہ وہ اپنے بچے کو لینے کے لیے موٹر سائیکل سکول کے اندر لے گیا۔
بس پھر کیا تھا، اس بات پر تلخ کلامی ہوئی۔ مگر بات صرف تلخی پر ختم نہیں ہوئی ۔ محمد حسین سے بیٹے کا سکول بیگ اور موٹر سائیکل کی چابی چھین کر، اس کے بیٹے کے سامنے مارا پیٹا گیا۔ اس دوران اس کی چھوٹی انگلی کی ہڈی بھی ٹوٹ گئی۔

اس کا اصل ’جرم‘ صرف موٹر سائیکل سکول کی حدود میں لانا نہیں تھا — بلکہ شاید یہ تھا کہ وہ ایک غریب آدمی تھا۔
اگر اس کی جگہ کوئی بااثر، دولت مند یا کسی سرکاری عہدے پر فائز شخص ہوتا، تو شاید منظر ہی کچھ اور ہوتا۔
میں یہ نہیں کہتی کہ اسے پھولوں کے ہار پہنائے جاتے، بلکہ ممکن تھا کہ پھر کسی استاد یا ملازم کی ویڈیو گردش میں آتی ، جس میں وہ لاتوں، مکوں کا نشانہ بنتا۔

آج کے حالات یہی بتا رہے ہیں ، جو ذرا بھی با اختیار ہوتا ہے موقع ملتے ہی کمزور کو ذلیل کر تا ہے ۔۔
لگتا ہے جیسے پورا معاشرہ عجیب ڈگر پر چل نکلا ہے۔

ویڈیو تو آپ نے دیکھ ہی لی ہو گی ۔
بچے کے سامنے باپ کی تذلیل۔ سکول پرنسپل اور عملے کا اس پر تشدد۔۔
اور دیگر طالبعلم خاموش تماشائی ۔

ویڈیو میں تین نسلیں نظر آتی ہیں:
پہلی ۔۔ وہ جن سے ہم نے تمیز، تہذیب اور لحاظ سیکھا۔
دوسری ۔۔۔ وہ جو اب انہی ہاتھوں سے مار کھا رہی ہے۔
تیسری ۔۔ وہ نسل جو حیرت زدہ ہے کہ کس کو استاد مانے، اور کس سے کیا سیکھے؟

اسی نسل میں وہ بچہ بھی ہے، جس کے لیے اس کا باپ ایک ہیرو تھا۔
اب وہ کیا سوچ کر واپس گیا ہوگا؟
ممکن ہے اُس نے سیکھا ہو: غریب ہونا جرم ہے۔
یا یہ کہ طاقت سے بات منوائی جا سکتی ہے۔
یا شاید… وہ ہمیشہ کے لیے خاموش ہو گیا ہو۔
کیونکہ جب بچے اپنے باپ کو بےبس دیکھتے ہیں،
تو یا وہ باغی بنتے ہیں… یا بزدل۔

کیا یہ وہی ’روحانی باپ‘ ہیں؟
وہی استاد؟
جن کے سائے میں بچے علم، تہذیب اور کردار کی تربیت پاتے تھے؟
اور وہ بچے؟
جن کے لیے یہ درس گاہیں علم کا مقدس مقام ہوا کرتی تھیں؟

اب وہ یہاں اور بھی کیا کچھ سیکھ رہے ہیں
تشدد ، ظلم کرنا اور سہنا ۔ معافی نہ مانگنا اور معاف نہ کرنا ۔۔
معلم — جو عظمت کا مینار تھے،
نہ انھیں اپنا مقام یاد رہا،
نہ معاشرے کو ان کی عظمت۔

بچوں نے کیا سیکھا ہوگا؟
یہ کہ عزت صرف طاقت کی دین ہے
یہ کہ زبان سے نہیں، لاتوں، مکوں اور ڈنڈوں سے بات منوائی جا سکتی ہے۔
کیا ہم یہی نسل تیار کر رہے ہیں؟
جو غلطی پر معاف کرنے کی بجائے ڈنڈا اٹھائے؟
جو اسکول کو علم کا نہیں، مار دھاڑ کا میدان سمجھے؟

یہی بچے کل دنیا کو بھی یہی سبق دیں گے اپنے انداز میں ۔۔

چند دن پہلے ایک اور ویڈیو دیکھی —
ایک استاد پولیس کے ہاتھوں تشدد کا شکار،
ماتھے سے خون بہہ کر پاؤں تک آ چکا،
وہ استاد دھاڑیں مار کر رو رہا تھا۔
جسمانی درد سے زیادہ، اس کے چہرے پر تذلیل کا کرب تھا۔

پھر ایک اور ویڈیو —
ایک مشہور برانڈ کے آؤٹ لیٹ میں،ایک خاتون سیلز بوائے پر تھپڑ، گھونسے، لاتیں برسا رہی ہے۔
سب تماشائی بنے کھڑے ہیں ۔۔ کوئی روکنے والا نہیں۔
سیلز مین خاموش ہے، جانتا ہے وہ بےبس ہے۔
برانڈ کا وقار ہے، اس کی نوکری ہے، غربت ، ضروریات ،مجبوری کئی اورپریشرز ۔
اور سامنے ایک عورت ہے ۔۔جسے معلوم ہے کہ وہ اس لمحے طاقتور ہے۔

بالفرض یہ منظر دکان سے باہر ہوتا،
تو ممکن ہے کہانی کچھ اور ہوتی۔ تماشہ کچھ اور ۔۔کیونکہ
آج کل کچھ بھی ’نارمل‘ نہیں رہا۔

ہاں، ایک چیز ہر جگہ مشترک ہے — ویڈیو بنانا۔
چلو، یہ بھی اس دور میں ’کارِ خیر‘ ہی سمجھ لیں۔

لیکن سوال یہ ہے ۔
ان ویڈیوز سے نئی نسل کیا سیکھ رہی ہے۔۔
ہم اپنے بچوں کو کیا دکھا رہے ہیں ۔
انھیں کیا بنا رہے ہیں ۔۔
نفسیاتی مریض؟
ظالم؟
یا خاموش، بزدل تماشائی؟

یہ وقت ہے رکنے کا۔ سوچنے کا۔ اور بولنے کا۔
اگر ہم آج نہ بولے…
تو کل ہمارے بچوں کے ساتھ یہی سب کچھ ہو سکتا ہے۔
کیا یہ وہی وطن عزیز ہے؟
جہاں ہم پل کر جوان ہوئے؟
جہاں لحاظ، تمیز، برداشت ہماری پہچان تھی؟

اتنی شدت، اتنا غصہ، اتنی بدتمیزی کہاں سے آئی؟
ہم کیوں اتنے غیر مہذب ہو چکے ہیں؟
ہوں لگتا ہے پورا معاشرہ ذہنی مریض بن گیا ہے
کیا واقعی ہم سب پاگل ہو گئے ہیں؟

لوگ ایک دوسرے سے خائف ہیں۔
غلطی پر معافی مانگنا جرم بن چکا ہے۔
ہر شخص اپنے سے کمزور کو روندنے کے درپے ہے۔ چھوٹی چھوٹی باتوں پر تشدد پر اتر آنا عام بات ہوگئی ہے ۔۔ کوئی روکنے والا نہیں ہر کوئی تماشائی ہے ۔۔

ریاست کو چاہیے کہ فوراً نوٹس لے۔
تشدد کرنے والے ، اپنی حد جھوڑنے والے ہر ایک کے خلاف کارروائی ہو ۔۔انصاف ہو ۔۔

لیکن انصاف صرف قانونی کارروائی کا نام نہیں ۔
انصاف یہ ہے کہ ہم اجتماعی طور پر لحاظ، رحم، تمیز، برداشت جیسے اوصاف کو دوبارہ زندہ کریں۔

ورنہ ہم ایک ایسے معاشرے میں سانس لے رہے ہوں گے،
جہاں انسان شعور تو رکھتے ہونگے مگر انسانیت نہیں ۔۔

نوٹ: بادبان ڈاٹ کام پر شائع شدہ کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا بادبان ڈاٹ کام کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے