سیکس ایجوکیشن

بچوں کو جنسی تعلیم کب اور کیسے دیں؟

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

ڈاکٹر رضوان اسد خان:
میڈیا کی طوفانی یلغار کے اس دور میں بچوں کے معاملے میں آپ کو کچھ انقلابی اقدامات کرنے ہوں گے. اگر آپ نے اس طوفان کے آگے بند نہ باندھا اور حفاظتی تدابیر اختیار نہ کیں تو یہ انہیں خس و خاشاک کی طرح اپنے ساتھ بہا لے جائے گا. جنسی تربیت ہمیشہ بچے کی عمر اور ذہنی استعداد کے مطابق ہونی چاہیے.
ذیل میں اس کا ایک خاکہ پیش کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے:

2 سال پر:
بچے کو چاہیے کہ اپنے اعضاء بشمول اعضائے تناسل کے نام جانتا ہو اور لڑکے اور لڑکی کے اعضاء میں فرق کر سکتا ہو.

2 سے 5 سال تک:
اس دور میں بچے کی دلچسپی زیادہ تر حمل اور تولید تک ہوتی ہے. اسے بتائیں کہ بچے کی پیدائش میں ماما اور بابا دونوں حصہ لیتے ہیں اور بچہ ماما کے پیٹ میں بنتا ہے. پریوں کے گفٹ، ہسپتال سے اٹھا لانے کی باتیں، اب اس دور میں نہیں چل سکتیں.

اس کے علاوہ بچے کو دوسروں کے سامنے جسم ڈھانپنے کی تعلیم دیں. کبھی بچے کے سامنے خود برہنہ مت ہوں. بچے کو سکھائیں کہ دوسرے لوگ ان کے جسم کے کن حصوں کو چھو سکتے ہیں اور کن کو نہیں. یہ انتہائی اہم ہے.

5 سے 8 سال تک:
بچے کو بتائیں کہ لڑکے میں لڑکی کے لیے اور لڑکی میں لڑکے کے لیے کشش فطری بات ہے. مغرب میں اب ہم جنس پرستوں اور ’’بائی سیکشوولز‘‘ (دونوں جنسوں میں کشش محسوس کرنے والے) کو بھی بچوں کے ذہن میں نارمل باور کروایا جاتا ہے۔ آپ نے خصوصی طور پر یہ بتانا ہے کہ لڑکے کی لڑکوں میں اور لڑکی کی لڑکیوں میں کشش غلط اور گناہ ہے. آپ انہیں دوست بنا سکتے ہیں لیکن ان کے ساتھ ’’شادی‘‘ نہیں کرسکتے۔

ماحول کی مناسبت سے ’’اونلی فرینڈ‘‘، ’’بوائے فرینڈ‘‘ اور ’’گرل فرینڈ‘‘ کا کنسیپٹ بھی دیں کہ جس کے ساتھ آپ اتنی محبت کریں کہ ’’شادی‘‘ کر کے اس کے ساتھ ہمیشہ رہنے کی خواہش محسوس ہو، وہ بوائے فرینڈ/گرل فرینڈ ہوتے ہیں اور ہمیشہ مخالف جنس کے ہوتے ہیں. لیکن چونکہ اللہ نے شادی کے بغیر ان کے ساتھ رہنے سے منع کیا ہے، اس لیے ہم مخالف جنس کو ’’اونلی فرینڈ‘‘ بھی نہیں بنا سکتے، کیونکہ مخالف جنس کے ’’اونلی فرینڈ‘‘ کو بھی شیطان بوائے یا گرل فرینڈ بنوا سکتا ہے، تاکہ ہم اللہ کی نافرمانی کریں اور وہ خوش ہو۔

اگر وہ پوچھیں کہ اللہ نے کیوں منع کیا ہے تو فی الحال صرف اتنا بتا دیں کہ کیونکہ یہ جانوروں کا طریقہ ہے. انہیں یہ بھی بتائیں کہ میڈیا پر جو مرد و زن کا تعلق دکھایا جاتا ہے، وہ اسی وجہ سے ہے. لیکن ساتھ ہی یہ بھی بتائیں کہ یہ اس تعلق کا غلط طریقہ اور گناہ ہے جبکہ اللہ نے شادی والا طریقہ بتایا ہے جیسے آپ کے ماما بابا ہیں.

9 سے 12 سال تک:
بچوں کو بلوغت کی تبدیلیوں کے بارے میں بتائیں. اس دوران جو مسائل پیدا ہو سکتے ہیں ان کے بارے میں آگاہی دیں. انہیں بتائیں کہ اللہ ان کے جسم میں ایسے کیمیکل پیدا کر رہا ہے جس سے وہ طاقتور ہوں گے اور خود ماما بابا بننے کے قابل ہو جائیں گے۔

مائیں بیٹیوں کو اور باپ بیٹوں کو اضافی بالوں کی صفائی کا طریقہ سکھائیں اور بتائیں کہ یہ عبادت ہے. مائیں بیٹیوں کو حیض کے مسائل بتائیں اور باپ بیٹوں کو احتلام کے.
مائیں بچیوں کو چھاتیوں کی افزائش کا مقصد بتائیں کہ یہ اللہ کی طرف سے ماما بننے کی تیاری ہے تاکہ بعد میں آنے والے ’’بے بی‘‘ کو دودھ پلا سکیں اور ساتھ ہی انہیں ڈھانپنے اور پردے کے مسائل بتائیں. اس حوالے سے سورۃ النور سے مدد لیں.

بچوں کو بتائیں کہ ان تبدیلیوں کے بعد ان میں جنس مخالف کے لیے کشش اور جنس مخالف میں ان کے لیے کشش بڑھ جائے گی کیونکہ اللہ نے ان کو ملاپ کے لیے تیار کر دیا ہے تاکہ نئے بچے دنیا میں آئیں. افزائش نسل کی اہمیت کا بائیولوجکل پہلو بھی بتائیں اور یہ بھی بتائیں کہ اللہ چاہتے ہیں کہ مسلمانوں کی تعداد دنیا میں زیادہ سے زیادہ ہو اور یہی اس کا طریقہ ہے۔

11 سال پر انھیں آسان الفاظ میں جنسی عمل کی تفصیل بتا دیں کہ بچے کی تخلیق کے لیے مرد کا ’’نطفہ‘‘ عورت میں ڈالنے کے لیے اللہ نے یہ طریقہ بنایا ہے اور بطور انعام اس میں لطف رکھا ہے. میرا ذاتی خیال ہے کہ اس قرانی لفظ ’’نطفے‘‘ کا استعمال ہی بہترین ہے.

قرآن کا ریفرنس دے کر اور متعلقہ آیات کی آسان تشریح کے ساتھ آپ کا کام بہت آسان اور بابرکت ہو سکتا ہے. اس بات کی اہمیت کو بار بار اجاگر کریں کہ یہ عمل اور حصول لذت صرف میاں بیوی کے درمیان جائز ہے اور یہی انسانیت کا اعزاز ہے. یہاں سورۃ یوسف سے متعلقہ دروس ضرور دیں.

بلوغت کے وقت:
بلوغت کے آثار نظر آتے ہی اوپر والی باتوں کو دہرائیں. بدنظری کے نقصانات اور غض بصر اور پردے کی اہمیت اچھی طرح پھر سے اجاگر کریں. قرآن و حدیث سے مزید تفصیل سے مدد لیں.

کچھ ٹپس:

کوشش کریں کہ خود بات شروع کرنے کے بجائے بچے کے سوال سے گفتگو کا آغاز کریں. البتہ اگر بچہ شرمیلا ہے اور کبھی ایسے سوالات نہیں کرتا تو پھر خود ’’کسی بہانے سے‘‘ بات شروع کریں.

بچے کی حقیقی زندگی کے تجربات کو مثال بنائیں. اگر آپ کے گھر میں ’’پیٹس‘‘ ہیں تو پالتو جانوروں کی مثال سے بات شروع کرنا مفید ہو سکتا ہے یا پھر چڑیا گھر کی مثال سے. اسی طرح بچہ کسی حاملہ خاتون کو دیکھ کر سوال کرے تب بات کو آگے بڑھائیں۔

یہ گفتگو کار میں یا کسی پارک میں بنچ پر پہلو بہ پہلو بیٹھ کر کرنا کافی مفید ثابت ہو سکتا ہے کیونکہ ان صورتوں میں آپ دونوں سامنے دیکھ رہے ہوں گے اور ’’آئی کانٹیکٹ‘‘ سے پریشانی نہیں ہوگی.

بچہ اگر کوئی ’’غیر مناسب‘‘ سوال پبلک میں یا بلند آواز میں پوچھ لے تو غصے میں نہ آئیں. اسے کہیں کہ چلو ہم گاڑی میں یا کہیں علیحدگی میں بیٹھ کر بات کرتے ہیں. یوں اسے اس موضوع کی پرائیویسی کا بھی احساس ہوگا۔

تیز و تند سوالوں سے پریشان نہ ہوں. جھوٹے جواب نہ دیں. بچے کو یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ میں اس سوال کا جواب ڈھونڈ کر آپ کو بہتر طریقے سے سمجھاؤں گا. اس میں کوئی عار والی بات نہیں.

اگر بچہ آپ کے اپنے ازدواجی تعلقات کے بارے میں پوچھ بیٹھے تو اسے بتائیں کہ یہ ہر شخص کا ذاتی معاملہ ہوتا ہے اور یہ کہ ضروری نہیں کہ ماما بابا جب بھی ساتھ سوئیں تو یہ کام بھی کریں.

بات کو دو طرفہ مکالمے کی صورت میں کرنا مفید ہو سکتا ہے. پہلے یہ جاننے کی کوشش کریں کہ بچے کو ’’خود سے‘‘ اس بارے میں کتنا پتہ ہے اور بڑے دوستانہ انداز میں اس کی معلومات کا سورس جاننے کی کوشش کریں. پھر اس کے اوپر ’’بلڈ اپ‘‘ کریں.

تنبیہ:
اس پورے عرصے میں اگر آپ نے میڈیا کے استعمال کو کنٹرول نہ کیا اور بلوغت کے بعد جلد شادی کا بندوبست نہ کیا تو اس ساری تعلیم کا کوئی خاص فائدہ نہیں ہوگا۔
اللہ ہماری اور ہمارے بچوں کی تمام فتنوں سے حفاظت فرمائے. آمین۔

نوٹ:
یہ ہدایات محض ایک خاکہ ہیں. آپ اپنے بچوں کی ذہنی استعداد اور ماحول کے مطابق ان میں ترمیم و اضافہ کر سکتے ہیں اور راقم کو بھی مزید مفید مشوروں سے نواز سکتے ہیں.


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں