حافظ-نعیم-الرحمٰن-،-امیر-جماعت-اسلامی-پاکستان

نایاب ہیں ہم

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں سوشل میڈیا صارفین کی تعداد 16 کروڑ کے لگ بھگ ہے۔ اس رپورٹ میں مکمل سچائی ہو یا نہیں، سوشل میڈیا

 پھر بھی ٹی وی بہرحال ایک مقبول ذریعہ مواصلات ہے۔ شام کے وقت یا رات نو بجے ٹی وی پر ٹاک شوز یا ہیڈ لائنز ملاحظہ کرنے والے افراد کا تناسب کم نہیں ہے۔

 آج جب شام آٹھ بجے ٹی وی آن کیا تو اتفاق سے ایک ٹیلی ویژن چینل پر ایک ٹاک شو کا موضوع تھا انٹرا پارٹی انتخابات اور پارٹی کی قیادت۔

پیپلز پارٹی، مسلم لیگ، پی ٹی آئی سبھی کے انٹرا پارٹی الیکشن کا تذکرہ چل رہا تھا۔ پھر پاکستان کے نمایاں قائدین کے نام لیے گئے

پیپلز پارٹی:-

 ذوالفقار علی بھٹو، بےنظیر بھٹو، آصف علی زرداری، بلاول بھٹو، آصفہ بھٹو، پارٹی قیادت کے نمایاں افراد۔

مسلم لیگ نون :- نواز شریف، شہباز شریف، حمزہ شہباز، مریم نواز۔

پی ٹی آئی :- عمران خان ہی مؤسس اور وہی قائد۔ انہی کے دم خم سے پارٹی ہے۔ غیر مشروط، عقیدت اور اتباع کا محور بس عمران خان کی شخصیت ہے، اختلاف ہے تو عمران خان سے، اتفاق ہے تو عمران خان سے۔ 

فردِ واحد یا پھر ایک خاندان۔ بس ہر پارٹی میں اسی کا اجارہ ہے۔سوال یہ ہے کہ کس منہ سے یہ لوگ جمہوریت کا نام لیتے ہیں۔ کبھی سوچا آپ نے؟؟ ووٹ دینے سے پہلے سوال کیا کبھی آپ نے ان مقبول لیڈرز سے؟؟؟

اکتائے دماغ کے ساتھ چینل بدلا تو  جماعت اسلامی پاکستان کے نومنتخب امیر حافظ نعیم الرحمٰن کے حلف کی خبر چل رہی تھی۔یہاں سارامنظر ہی دلکش لگا۔ بھیگی آنکھیں، کپکپاتے الفاظ دعاؤں کی التجا..یہ ہے حافظ نعیم الرحمن کا حلف۔ دماغ میں سوال اٹھا ’کیا یہ شخص سالہا سال سے نسل در نسل چلنے والی اس جماعت کا گدی نشین ہے؟‘

نہیں جی! اس سے پہلے ایک درویش صفت، روشن کردار والا، ہمت و جہد کا استعارہ ۔۔۔ سراج الحق تھا اسی ذمہ داری پر۔ سوال یہ ہے کہ کیا سراج الحق کو عوامی مقبولیت، منصب امارت اور کروڑوں لوگوں کی دعائیں ان کے باپ دادا نے دلوائیں؟

نہیں جی، حلف اٹھانے سے چند دن پہلے تک انہیں خبر تھی نہ ہی خواہش۔ ان سے پہلے اس منصب پر تھے، سید منور حسن۔ وہ سید، یہ پٹھان۔ وہ کراچی سے، یہ خیبر پختونخوا سے۔ سوال یہ ہے کہ کیا سید منور حسن اپنے سے گزشتہ امیر جماعت کے رشتے دار تھے؟

نہیں، وہ بھی اول الذکر سبھی کی طرح ایک عام کارکن تھے۔

نعیم صدیقی (رحمہ اللہ علیہ) اپنی تصنیف ’المودودی‘ میں لکھتے ہیں:

’۔۔۔کتنا سخت لمحہ ہے کہ اس شخص کے جسد کی امانت کو مٹی کے حوالے کرنے کے بعد میں اسی کی جدائی کاذکر چھیڑ رہا ہوں۔ترجمان القرآن کی ادارت کرنے اور اس کے ذریعے دور دراز تک ایمان وحکمت کا نور پھیلانے والی ہستی نگاہوں سے اوجھل ہوچکی ہے۔اس کی کرسی خالی ہے۔ وہ اپنے تاریخی کمرے میں بھی موجود نہیں اور اہل خانہ کی مجلس میں بھی شریک نہیں۔اس کی کتابیں جیسے آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر اسے ڈھونڈ رہی ہیں۔۔۔‘

قارئین! نعیم صدیقی کا کرب جب ان الفاظ میں ڈھل رہاتھا تو شاید انھیں بھی اندازہ نہیں تھا کہ یہ تحریک پھل پھول لائے گی ، وسعت اختیار کرے گی۔ بلاشبہ سید مودودی (رحمہ اللہ علیہ) ایک عالم کوسوگوار کر کے چلے گئے مگر دیکھیے، محسوس کیجیے، جانیے کہ تقویٰ، احساسِ ذمے داری، نصب العین کی خاطر سب کچھ تج دینا، معاش کے حلال ذرائع اختیار کرنا اور جماعت کے اندر موروثیت یا گدی نشینی کا نہ ہونا ایسی خصوصیات ایک تسلسل کے ساتھ آج بھی جماعتِ اسلامی کو دوسری جماعتوں سے ممیز کرتی ہیں۔ اور یہ فرق محض انیس، بیس کا نہیں بلکہ یہ وہی فرق ہے جو رات اور دن میں ہوتا ہے یا موجِ نکہت اور بادِ صَرصَر میں ہوتا ہے یا مٹی کے ڈھیر اور ہیروں کی تجوری میں ہوتا ہے۔۔۔۔

قارئین! ایک سوال ہے آپ سے، کیا کسی ایسی پارٹی کا نام بتا سکتے ہیں جس کے مرکزی قائدین نے اپنی رات کی نیند اور دن کا چین تو تج ہی دیا، اچھے خاصے چلتے کاروبار سے  بھی الگ ہوگئے، اچھی ملازمت کوخیر باد کہہ دیا۔۔۔

بڑی جماعتوں میں ہے یہ خصوصیت؟؟

نہیں نا۔۔

ہم بتاتے ہیں۔۔

سید مودودی کا تو خیر کیا تذکرہ کریں، اس تذکرے کے لیے یہ بلاگ انتہائی ناکافی ہے۔۔

جماعت اسلامی کے دوسرے امیر میاں طفیل محمد وکالت کرتے تھے ، چھوڑ دی۔ اس کے بعد ان کے گھر میں سادگی، قناعت اور توکل علی اللہ ہی کے ڈیرے تھے۔۔

جماعت اسلامی کے تیسرے امیر قاضی حسین احمد(رحمہ اللہ) کا اپنے بھائیوں کے ساتھ مشترک کاروبار تھا۔ امارت ملنے پہ بھائیوں سے مشاورت کرکے کاروباری مصروفیات سے الگ ہوگئے۔۔ اور جماعت اسلامی سے ایک پائی لیے بغیر جماعت کے لیے کام کرتے رہے۔ اپنے ذاتی کاروبار سے جماعت اسلامی کے بیت المال میں رقم جمع کراتے تھے۔ اور پھر برسوں تک پاکستان کی پارلیمان کے ایوان بالا کے رکن رہے، جتنی دیر سینیٹر رہے، ملنے والی تنخواہ کی ایک پائی بھی اپنی ذات یا اہل خانہ پہ خرچ نہیں کی۔ ساری رقم اللہ کی راہ میں خرچ کردیتے تھے۔

جماعت اسلامی کے چوتھے امیر سید منورحسن(علیہ الرحمہ) ستر کی دہائی میں کراچی کے مشہور سیاست دان تھے، انیس سو ستتر میں ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کے تحت کروائے گئے دھاندلی زدہ عام انتخابات میں ، پیپلزپارٹی کی تمام تر دھونس دھاندلی کے باوجود کراچی سے رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے۔ وہ ساری زندگی بس ایک چھوٹے سے فلیٹ ہی کے مالک رہے جس کے اندر مادی سامان کی بھرمار نہیں تھی، صرف سادگی، خشیت الہٰی، اور صبر وشکر کی دولت ضرور تھی۔

 جب جماعت اسلامی کے پانچویں امیر سراج الحق اس منصب کے لیے منتخب ہوئے تو تاریخ گواہ ہے، جماعت اسلامی کے ارکان گواہ ہیں کہ اس مرد قلندر نے شب و روز خدمت حق کے لیے ایک کردیے۔عزم و استقامت، صداقت و دیانت کی مثال سراج الحق یہ بھاری ذمے داری ملنے سے پہلے دیر میں اپنا ایک اسکول چلا رہے تھے، امارت کی ذمے داریاں اٹھاتے ہی اسکول چھوڑ دیا۔

اب نومنتخب اور چھٹے امیر جماعت حافظ نعیم الرحمان انجینئر ہیں، اچھی بھلی جاب ہے ان کی۔ اب وہ اسے چھوڑ کے اپنے شب وروز اقامت دین کے لیے لگادیں گے۔ سندھ کے بڑے بڑے جاگیرداروں کو للکارنے والا، مافیاز سے کبھی نہ مرعوب ہونے والا، عوام کے مسائل کے حل کے لیے ڈٹ جانے والا، بنو قابل پروگرام کا خالق، کراچی کے سب مظلوموں اور محروموں کا سہارا بن جانے والا حافظ نعیم الرحمان اب پورے پاکستان میں ظلم اور ناانصافی کے اندھیاروں میں امید کی کرن بنے گا۔ ان شااللہ۔

حیران ہوں کہ باقی پارٹیوں میں لوگ آتے ہیں کمائی کرنے اور مفادات سمیٹنے۔ صرف ایک جماعت اسلامی ایسی جماعت ہے جس میں شامل ہوکر لوگ مفادات دیتے ہیں، سمیٹتے نہیں۔ آخر یہ کس قسم کے لوگ ہیں!!


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں

6 پر “نایاب ہیں ہم” جوابات

  1. Iram Zaheer Avatar
    Iram Zaheer

    انتہائی شاندار۔۔ ہر بات بلکل سچائی پر مبنی۔۔۔ سراج الحق صاحب جہاں سب کے دلوں میں گھر کر کے گئے ہیں ۔۔ وہاں حافظ نعیم الرحمن صاحب امید کی نئی کرن بن کر جلوہ افروز ہوئے ہیں ۔۔ یہ تمام ارکان جماعت سیسیہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح ہیں جو ایک دوسرے کو مضبوط کرنے میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں ۔۔ اللّٰہ تعالیٰ ہم سب کو استقامت نصیب فرمائے آمین

    1. نگہت سلطانہ Avatar
      نگہت سلطانہ

      ارم بہت شکریہ۔۔
      امید ہے میرے بلاگز کے ساتھ آپ کا تعلق قائم رہے گا

  2. راشدہ قمر Avatar
    راشدہ قمر

    بہت خوب
    درست فرمایا آپ نے
    یہ نایاب لوگ ہیں
    آج کے دور میں اجنبی

    1. نگہت سلطانہ Avatar
      نگہت سلطانہ

      راشدہ قمر آپ نے بلاگ پڑھا بہت شکریہ۔ پڑھنے کا ذوق رکھنے والے کم ہوتے جارہے ہیں شائد۔
      کوشش کیجیے گا یہ شرح بڑھے
      شکریہ

  3. کلثوم رضآ Avatar
    کلثوم رضآ

    سچائی پر مبنی شاندار تحریر۔۔

  4. جاوید اصغر Avatar
    جاوید اصغر

    خوب صورت ،مختصر اور جامع انداز میں جماعت اسلامی کے امرا کا تذکرہ،ان کے ایثار ،خشیت الہی،تقوی،اخلاص اور جماعت اسلامی کے لیے ان کی خدمات کا تذکرہ،دیگر نام نہاد جمہوری جماعتوں کا بھی”ذکر خیر”….کاش کوئی دل کے کانوں سے سنے۔۔۔۔۔۔۔

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے