سلامہ محمد، ثنا جاوید، کوئین دارو

خاندان، نسل اور معاشرہ کی بقا کیسے ممکن ہے؟

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

سوشل میڈیا اسٹار، وی لاگر کوئین دارو کی علیحدگی اور دوسری شادی، خالد الامیری اور سلامہ کی علیحدگی ،کرکٹر شعیب ملک کی پہلی بیوی سے علیحدگی کے بعد اداکارہ ثناء جاوید سے شادی۔۔۔۔سوشل میڈیا پر ہاٹ ٹاپک ہے۔

اس سے قبل بھی کئی اچھی سوچ کے مالک، خوش و خرم رہنے والے، میڈیا و کھیل کے میدان کے جوڑوں میں علیحدگی اور ناچاقی کی خبریں گردش کرتی رہتی ہیں۔

میڈیا ہو یا سوشل میڈیا یا پھر کھیل کا میدان۔۔۔۔۔ یہاں بننے اور ٹوٹنے والے جوڑے عام لوگوں کی تعریف و تنقید کا نشانہ بنتے رہتے ہیں۔

کچھ چیزیں بہرحال عوام کے لیے سبق ہوتی ہیں اور کچھ ناگزیر چیزوں کو عوام کے لیے قابل قبول بنایا جارہا ہوتا ہے۔

سلامہ طلاق کے بارے میں اظہار خیال کررہی ہیں تو خالد الامیری ہندوستان میں رمضان المبارک منا رہے ہیں۔

کوئین دارو نے خاموشی توڑی ۔۔۔۔ جس بیوٹی پارلر سے دوسری شادی کے لیے تیار ہوئیں اس بیوٹی سیلون نے ان کی دلہن بنی ویڈیو جاری کی۔

جسے دیکھ کر میں بہت کچھ سوچنے پر مجبور ہوگئی۔

ان کا چلبلا پن۔۔۔ان کی معصومیت۔۔۔۔ان کا بےساختہ انداز نظر نہیں آرہا تھا۔۔۔ میک اپ کی دبیز تہوں میں اداس آنکھیں۔۔۔۔افسردگی اور حزن میں ڈھلا ہوا انداز لگا۔۔۔۔ وہ مانیں یا نہ مانیں لیکن شکست و ریخت کے عمل سے گزرتے خود کو نارمل شو کرنے میں ناکام تھیں۔

شادی ایک مسنون عمل ہے۔ مسلمان کیسا بھی ہو، شادی طلاق حرام و حلال کاموں میں قوانین کی  ممکنہ حد تک پابندی کرتا ہے۔

عورت مرد کی نسبت  اس معاملے میں فطرتاً بہت حساس واقع ہوئی ہے۔

پہلے تو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ جائز اور ناجائز کیا ہے؟!!!!

شادی شدہ زندگی میں مرد و عورت دونوں اسے چلانے کے ذمہ دار ہوتے ہیں، کوئی ایک نہیں۔

اسی طرح شادی ختم ہونے میں بھی دونوں کا کردار ہوتا ہے۔

دوسری چیز 

نکاح  کے بغیر تعلقات

اور

نکاح کے ساتھ تعلق

میں فرق ہے۔

شوہر یا بیوی کسی کے ہوں

اور ازدواجی تعلقات کسی اور سے ہوں

کیا یہ درست ہے؟

یا یہ کہ پہلی شادی ختم ہوجائے تو دوسری کرسکتے ہیں بجائے اس کے کہ دل میں کوئی اور گھر میں کوئی اور ہو۔

جیسا کہ ایک مقولہ مشہور ہے کہ فلاں عورت کو چار بچوں کے بعد بھی پیار نہیں ملا اور آشنا کے ساتھ بھاگ گئی۔

 تو پیار نہ دینے والے مرد کو کوئی کیوں ذمہ دار قرار نہیں دیتا؟

اور اصل مجرم جس نے ایک شادی شدہ عورت سے تعلقات بنائے اسے ریجھایا۔۔۔سچے جھوٹے خواب دکھائے ۔۔۔۔ بھگا کر لے گیا اسے کوئی کیوں مورد الزام نہیں ٹھہراتا؟

اصل مسئلہ یہ ہے کہ اسلامی تعلیمات کے درست فہم و تدریس کا فقدان ہے۔

اسلام نے مرد و عورت دونوں کو ایمان اور شرم و حیا کا پابند بنایا ہے۔

دونوں کو اپنی باؤنڈریز کا پابند رہنے کا حکم دیا

لیکن ہمارے ہاں سورہ النساء، سورہ النور، سورہ الاحزاب کا بتاتے ہوئے عورت کو تو بہت پابند کیا جاتا ہے 

مگر مرد کے شرم و حیا پر بات بہت کم  ہوتی ہے۔۔۔۔۔

جیسا کہ سورہ النور پڑھاتے ہوئے عورت کے محرم رشتوں کا مفصل تذکرہ ہوتا ہے

لیکن سورہ النساء کی 23،24 آیت میں مرد کے محرم رشتے بھی بتائے گئے ہیں جن کا تذکرہ اس طرح شدت سے نہیں کیا جاتا۔۔۔۔

اسی آیت میں مرد کو واضح بتایا گیا ہے کہ محرم خواتین کون ہیں۔۔۔۔ مرد کی سگی خواتین رشتہ داروں کے ساتھ آخر میں لکھا ہے

دوسروں کے نکاح میں موجود عورتیں بھی تم پر حرام کی گئی ہیں۔۔۔۔۔۔

معروف اسکالر مولانا عطا الرحمان صاحب نے اس کی تفسیر بیان کرتے فرمایا کہ یہ بنی اسرائیل کے گناہوں میں سے ایک گناہ تھا جس پر  عذاب نازل ہوا۔۔۔۔

سوشل میڈیا کے آنے کے ساتھ جو غلیظ چیز عام ہوئی ہے وہ شادی شدہ عورتوں سے تعلقات بنانا۔۔۔۔۔۔جس میں ایک مردانہ گروپ میں کی گئی بات پہنچی کہ کنواری لڑکیوں کے بہت نخرے ہوتے ہیں اور شادی، شادی کی ضد بھی کرتی ہیں۔۔۔۔۔شادی شدہ آنٹیوں کو پھنساؤ۔۔۔۔۔لاڈ بھی اٹھاتی ہیں اور وقت گزار کر چھوڑ دو، شوہر بچوں کی خاطر چپ بھی رہتی ہیں(استغفراللہ انتہائی کریہہ اور اللہ کو غضبناک کرنے والے جملے)۔

ایک اور چیز کہ میاں بیوی کے درمیان فاصلے بڑھنے سے ہی کسی باہر کے فرد کی جگہ بنتی ہے ۔۔۔۔

شوہر اور بیوی ایک دوسرے کو وقت دیں۔۔۔۔آپس کے معاملات میں ایک دوسرے کی مدد سے کریں۔۔۔۔ایک دوسرے کی مشکل میں ساتھ دیں۔۔۔۔۔تو کسی تیسرے کو ہمدردی جتا کر ناحق بات کرنے کا بھی موقع کیوں ملے۔۔۔۔۔۔

گھر دراصل ایک فیملی ایک خاندان کا مرکز ہے

جو کہ ایک خاص پرائیویسی کا حق رکھتا ہے۔

اس گھر و خاندان کو چلانے کے کچھ اخلاقی اصول ہیں تبھی وہ چلتا ہے۔۔۔۔۔۔

سوشل میڈیا ٹک ٹاکرز اور یوٹیوبرز نے اپنے گھروں کو کھول کر چوراہے میں رکھ دیا ہے

جہاں حسد اور نظر کے کھلے امکانات سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔۔۔۔۔وہیں کسی دوسرے/غیر کا حد درجہ انوالو ہونا بھی حقیقی رشتوں، باہمی تعلقات اور محبتوں کے خاتمے کا باعث ہے۔

اجنبی لوگ حسرت کرنے لگتے ہیں اور کسی بھی طرح وہ حاصل کرتے ہیں جن پر ان کا کوئی حق نہیں ہوتا۔ 

 جب شوہر یا بیوی اپنے گھر میں اپنے تعلقات میں ایک دوسرے سے زیادہ باہر کے لوگوں کو اختیار دیتے ہیں تو یہ چیز گھر ٹوٹنے کا باعث بنتی ہے

جب اسلام نگاہیں نیچے رکھنے اور شرمگاہوں کی حفاظت کرنے کا حکم دیتا ہے تو پہلا مخاطب مرد ہے

پھر عورت۔

جب اسلام عباد الرحمن کی صفات بتاتا ہے تو بھی یہی تلقین مختلف انداز میں کرتا ہے۔

تبرج جاہلیہ کی مثال دیتے قرآن میں فرمایا گیا

گھروں میں ٹک کر بیٹھی رہو۔

اب عورت گھر میں رہ کر بھی گھر میں نہیں

اس نے خود اپنا گھر کھول کر بازار میں رکھ دیا۔

عورت و مرد کو ان کی باؤنڈریز ان کے اپنے ہی ایمان و حیا کی حفاظت کے لیے بتائی گئیں۔۔۔۔۔

مرد کو بےجا دولت کی نمود نمائش کی بجائے ضرورت سے اضافی رقم کے خرچ کے مصارف بتائے گئے۔

گھر والوں پر خرچ کرنا افضل قرار دیا۔ خرچ میں اعتدال ۔۔۔اصراف سے گریز۔۔۔نمود و نمائش کی حوصلہ شکنی کی گئی ۔۔۔۔۔فلاح معاشرہ کے خرچ کے طریقے بتائے گئے ہیں۔۔۔۔

تعریف و خوشامد کو وبال، ہلاکت، تباہی قرار دیا گیا۔ صحابہ کے منہ پر تعریف کرنے والے کے منہ پر صحابہ مٹی مار دیا کرتے تھے جبکہ سوشل میڈیا کی مصنوعی زندگی میں بےجا تعریف و خوشامد عام ہے۔

اسی طرح عورت کوخوشبولگا کر، بجتا زیور پہن کر ، لوچ دار آواز میں بات کرنے سے ممانعت کی جو حکمت بتائی گئی وہ یہ ہے کہ دل کی خرابی میں مبتلا شخص کسی لالچ میں نہ آجائے۔۔۔۔۔

مردوں میں عام رائے ہے کہ جو عورت ہنس گئی، وہ پھنس گئی۔۔۔ انتہائی شرمناک ہے۔۔۔۔۔

ہمارے معاشرے کا ایک تاریک پہلو یہی ہے کہ عورت معتوب ہوتی رہتی ہے مرد مرد بنا پھرتا رہتا ہے۔۔۔۔۔ جبکہ دل کی خرابی میں مبتلا شخص کا لالچ خود اللہ نے بتادیا۔۔یہ لوگ ذواقین ۔۔۔۔جگہ جگہ منہ ماری کرنے والے  آوارہ مزاج کہلاتے ہیں۔۔۔۔۔

یہ سب اسلامی تعلیمات ایک خاندان کی حفاظت کے لیے ہیں

جسے آج سوشل میڈیا کی دنیا نے دھندلا دیا ہے۔

اگر اپنی نسلوں کو صحت مند دماغ ۔۔۔۔مثبت ماحول اور اچھی بااعتماد ،محفوظ شادی شدہ زندگی دینا چاہتے ہیں تو ان پر عمل کرنا لازم ہے۔

باقی اپنی تباہی اگر آپ خود ہی کرنا چاہیں تو ہزار رستے کھلے ہیں۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ مسلمان مرد و عورت خود کو اسلام کی بنیادی تعلیمات کا پابند بنائیں۔۔۔۔۔آپس کے تعلقات ایمان،محبت ،مودت اور اخلاص کے ساتھ نبھانا سیکھیں۔

خاندان کی حفاظت مرد و عورت کو مل کر کرنا ہوتی ہے۔۔۔بالفرض اگر نہیں بن رہی تو الگ ہونے کی گنجائش آخری اور ناپسندیدہ حل ہے۔

اسی طرح معاشرے کو چاہیے کہ حرام تعلقات کی قطعی حوصلہ شکنی کی جائے اور حلال تعلقات کا رواج عام کیا جائے۔۔۔۔۔

جب بیوی ہی یہ کہے کہ گرل فرینڈ جتنی مرضی بنالو۔۔۔خبردار! شادی کی تو میں بچوں کو لے کر چلی جاؤں گی۔۔۔۔۔لاحول ولاقوہ اپنے ہی شریک حیات کو حرام کی اجازت دینا اور حلال سے روکنا۔۔ یہ رویہ آخر کیا ہے۔۔۔۔۔۔

اور حرام تعلقات کی سخت حوصلہ شکنی کریں۔

ایسے کاموں کے مرتکب مردوں اور عورتوں کی معاشرے میں قبولیت معاشرے کی تباہی ہے۔

 بطور مسلمان ہمیں زندگی کے اہم معاملوں میں شعائر دین کی پابندی کرنا ہوگی، یہی ہمار ے خاندانوں،نسلوں اور معاشرت کی بقا ہے۔۔۔۔۔


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں