بہاول نگر واقعہ، فوج اور پولیس کے افسران گفتگو کر رہے ہیں

بہاولنگر واقعہ، پولیس اور فوج کا کردار کیا رہا؟

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

بہاول نگر واقعہ کسی بھی طرح قرین انصاف نہیں ہے لیکن یہ روایتی پولیس کلچر کا ردعمل ہے جو بہرحال کسی طاقتور کی طرف سے ہی آسکتا تھا۔

ایسا نہیں ہو سکتا کہ پولیس شریفانہ طریقے سے تفتیش کی غرض سے وہاں گئی ہو اور جواب میں فوج نے ان پر لشکر کشی کردی ہو۔

اطلاعات کے مطابق پولیس نے متاثرہ گھر میں زبردستی داخل ہو کر مرد و خواتین کو تشدد اور بدتہذیبی کا نشانہ بنایا۔ فوجی حوالدار کی بوڑھی والدہ کو زدو کوب کیا حتیٰ کہ سینے میں ٹھڈے مارے۔ متاثرہ فیملی کے فوج میں ملازم ایک فرد نے اپنے سینئر فوجی افسر کو اپنے ساتھ ہونے والے ظلم کی اطلاع دی۔ متعلقہ آفیسر نے معلومات کے حصول کے بعد اپنے بالائی افسر کو اعتماد میں لیا اور پولیس کو جوابی ردعمل دیا جس کامشاہدہ پوری قوم کر چکی ہے۔

مشاہدہ کیا جائے تو پنجاب میں شاید ہی کوئی پولیس اسٹیشن ایسا ہو جو قانون کے مطابق ایمانداری سے اپنے فرائض سر انجام دے رہا ہو۔ یہاں آسانی سے ایف آئی آر درج ہوتی ہے نہ بروقت اور میرٹ پر شکایات کا ازالہ ہوتا ہے۔ ایس ایچ او سے لے کر کانسٹیبل تک سب رشوت کی دلدل میں گردن تک دھنسے ہوتے ہیں۔ ایک فریق سے پیسے لے کر دوسرے کو تشدد کا نشانہ بنانا کوئی انہونی بات نہیں ہے۔ یہاں مدعی کارروائی کے لیے اور ملزم بچاؤ کے لیے پولیس کو نذرانہ پیش کرنے پر مجبور ہوتا ہے۔ پولیس کی وردی اہلکاروں کی اے ٹی ایم بنی ہوئی ہے۔

پولیس کا رشوت کلچر انصاف کی راہ میں بہت بڑی رکاوٹ بنا ہوا ہے۔ بروقت اور درست زاویے سے شہادت اکٹھی ہو کر عدالت میں پیش نہیں ہوتی جس کی وجہ سے مظلوم کی داد رسی نہیں ہو پاتی۔ ایسی کہانیاں بھی سننے میں آتی ہیں کہ تفتیشی افسر بڑی مہارت سے مدعی اور ملزم دونوں سے نذرانہ وصول کرتا ہے۔

ہمارے ایک ڈاکٹر دوست ہیں جن کا گھر پولیس تھانے اور ڈی ایس پی آفس سے چند گز کے فاصلے پر ہے۔ کچھ عرصہ پہلے ان کے گھر مسلح افراد نے ڈکیتی کی واردات کی۔ راقم نے خود ان کی درخواست لکھی اور فرنٹ ڈیسک میں جمع کرائی۔ متعلقہ ایس ایچ  او نے فرمایا کہ آپ لوگ بالکل بے فکر ہو جائیں، ہم دیکھتے ہیں۔ یوں مدعی کو لولی پاپ دے کر درخواست کو فریقین کے درمیان لین دین کا تنازع بنا کر نمٹا دیا گیا۔ پولیس نے کلینک کے سی سی ٹی وی کیمرہ کے ریکارڈ کا مشاہدہ کرنے اور محلے سے شہادت جمع کرنے کی بھی زحمت گوارا نہ کی۔ پولیس کے اس رویے سے ایماندار اور انسان دوست ڈاکٹر صاحب بہت دل گرفتہ ہوئے۔ 

ہماری نظر میں سماج میں مجرم ذہنیت کی پرورش میں روایتی پولیس کلچر کا بہت دخل ہے۔ اگر کسی کو یقین نہیں آتا تو معاشرے میں موجود بدمعاشوں کی آپ بیتیوں کا مطالعہ کر کے دیکھ سکتا ہے۔

ہماری نظر میں بہاول نگر واقعہ نے پولیس کلچر کو بری طرح ایکسپوز کیا ہے۔ فوج کا ردعمل مثبت تھا یا منفی، سوال یہ نہیں ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا پولیس بطور ادارہ اس واقعے سے سبق حاصل کرکے اپنا قبلہ درست کرنے کے لیے تیار ہوگی؟

رہی بات فوج کے خلاف پروپیگنڈے کی ، فوج کی سابق بینیفشری سیاسی جماعت کے فالوورز کے علاوہ عام شہری اس واقعے سے بہت خوش ہیں جو ریاست اور قانون نافذ کرنے والے اہم ترین ادارے کے لیے انتہائی لمحہ فکریہ ہے۔

ہم پولیس کو درپیش اندرونی و بیرونی مسائل سے بھی انکاری نہیں ہیں۔ ہم ان کے جلد از جلد حل کے لیے آواز بلند کرتے آ رہے ہیں۔

ہم سمجھتے ہیں کہ پولیس اور فوج کے درمیان معاملات طے ہو جانے کے بعد زندہ باد کے نعروں کا تبادلہ کافی نہیں ہے۔ اصل کام ادارے پر عوام کے اعتماد کی بحالی ہے جو  دراصل انصاف کی فراہمی کی طرف اہم پیش رفت ہو گی۔


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے