’او بابو۔۔۔۔ ‘
رک جانا۔۔۔ رک جانا۔۔۔ بس چھوٹی سی بات سننا۔ یہ دیکھو! میرے ہاتھوں’ میں یہ تصویر جس میں زخمی بچہ۔۔۔۔۔۔۔۔ روئے جا رہا ہے۔۔۔۔۔ روئے جا رہا ہے۔ اس کی پیشانی لہو لہو ہے۔۔۔۔۔ اب مرہم پٹی کی جا رہی ہے۔۔۔۔۔۔ بچے کے دائیں بائیں خون کے دھبے بھی دکھائی دے رہے ہیں۔ ‘
’دکھی ہوگئے نا آپ بھی۔۔۔۔‘
’یہ تصویر دکھانی ہے انھیں ۔۔۔۔۔۔۔۔‘
’ہاں! مجھے ان کا پتہ بتا دو بابو ۔۔۔۔‘
’نہیں جانتے ۔۔۔۔۔‘
’آہ ۔۔۔۔۔۔۔۔‘
’اے یونیورسٹی بس میں سوار ہوتے نوجوان! ‘
یہ تصویر دیکھ رہے ہو نا میرے ہاتھ میں، یہ غزہ کے تباہ شدہ ہسپتالوں کی تصویر ہے۔ ہسپتالوں میں زیر علاج مریضوں پر بمباری کی تصویر ہے اور۔۔۔۔اور نومولود بچوں کی نعشوں کی تصویر ہے۔ کٹے بھٹے لاشے بچوں کے، خون میں لت پت درد اورتکلیف سے کراہتی ان کی ماؤں کی تصویر ہے۔‘
اور یہ۔۔۔ یہ دیکھو پناہ گزیں کیمپوں پر اندھا دھند بمباری اور چیختے’ بلکتے بچوں، بوڑھوں، جوانوں کی تصویریں ۔۔۔۔۔۔‘
’اب مجھے، ان، کا کچھ پتہ چاہیے تاکہ وہ آواز اٹھائیں گی اس ظلم پر ۔۔۔۔۔
کیا کہا؟۔۔ ان سے آن لائن رابطہ کروں؟ بھئی کیاتھا رابطہ، انھوں نے میری فرینڈ شپ کی ریکوسٹ رد کر دی۔‘
ارے بھائی! گاڑی سٹارٹ کرنے لگے ہو نا ،پڑھے لکھے لگ رہے ہو۔ تم’ جانتے ہوگے۔‘
’او میم ! آپ رکیے گا ذرا۔۔۔۔۔۔‘
’ او اخبار والے! دکھاؤ ذرا آج کے بڑے اخبار شاید، ان کا اتہ پتہ مل جائے۔۔۔۔‘
’آہ ۔۔۔۔۔۔۔ مایوس ہوجاؤں؟ پلٹ جاؤں کیا؟ الہٰی! یہ قصہ کیا ہے؟‘
’ اے ۔۔۔ ارے او بچے ۔۔۔ بیٹا!
سنو ۔۔۔ ایک بات سنو گے؟ ‘
یہ ۔۔۔ یہ تصویریں دیکھو ۔۔۔۔ اور مجھے بتاؤ ۔۔۔ تم ‘انھیں’ جانتے ہو جن کا’ اتہ پتہ میں ڈھونڈتے ڈھونڈتے تھک گئی۔ ‘
نام پوچھ رہے ہو ان کا ۔۔۔۔۔۔؟بھئی ساری دنیا جانتی ہے انسانی حقوق کی’ تنظیموں کو، این جی اوز کو کون نہیں جانتا؟ انہی کا پتہ پوچھ رہی ہوں اپنے ملک میں درجنوں تو ہیں فعال و متحرک۔۔۔‘
’آپ ان کے دفتر نہیں گئیں؟؟‘
’بند پڑے ہیں دفتر ان کے۔‘
’ہا ہا ہا ہا‘
’ہائیں ! تم تو ہنس رہے ہو ۔۔۔۔ ‘
’آپ ان کے علاوہ دوخواتین کے نام لے رہی تھیں۔‘
’ہاں ہاں ۔۔ وہ دو خواتین ہیں۔ ‘
ایک گل مکئی ۔ پتہ ہے نا گل مکئی کو افغانستان کی "مظلوم” عورتوں’ کی بڑی فکر رہتی ہے اور بلوچستان میں ان پڑھ بچوں کی بھی اور یہ جو ہیں شرمین عبید چنائے ان محترمہ نے تو خواتین پہ تشدد کے بارے ڈاکومینٹری بنائی۔‘
’ہا ہا ہا ہا ۔۔۔۔۔۔ !‘
’تم پھر ہنس دیے ۔۔۔۔۔۔۔‘
’دیکھیے! بات ساری کیمپ کی ہے۔‘
’کیمپ کی ؟؟؟ سمجھی نہیں ۔۔‘
جی ہاں ایک کیمپ ہے انکل سام کا تو اس میں جو متاثرین انکل سام ہیں،’ وہ ظلم اسے کہیں گے جسے انکل سام ظلم کہے گا اور حقوق کا تعین بھی انکل سام کی مرضی سے ہو گا۔۔۔‘
’اوہ میرے اللہ ۔۔۔۔‘
اور دوسرا کیمپ ہے ان کا جو انکل سام کو ایک آنکھ نہیں بھاتے۔ دنیا’ مانے نہ مانے حقیقت یہی ہے کہ انکل سام اور اس کے کیمپ نے یک طرفہ جنگ۔۔۔۔ باقاعدہ جنگ شروع کر رکھی ہے 1992 سے۔ ‘
اللہ واحد پہ ایمان اور اسلامی تہذیب کے خلاف جنگ۔۔۔اللہ پہ ایمان رکھنے والوں کے خلاف جنگ۔۔۔
’ یہ جن کی تلاش ہے نا آپ کو، ان کو منظر عام پر دیکھنا چاہتی ہیں تو بس ایک چھوٹی سی خبر پاکستان کے کسی شہر میں کسی چھوٹے سے محلے میں کسی گھر میں چولہا پھٹنے کی ان این جی اوز تک پہنچا دیجیے، پھر دیکھیے گا انسانی حقوق اور خواتین اور بچوں کے حقوق کے یہ علمبردار کیسے چھلانگیں لگاتے متعلقہ جگہ پر پہنچ جائیں گے اپنے کیمرے اور دیگر ساز و سامان سمیت۔۔۔۔۔‘
اور یاد آیا افغانستان میں طالبان کی پچھلی حکومت کے دوران انھوں نے’ وہاں کابل میں مرکزی چوک میں نصب مہاتما بودھ کا مجسمہ مسمار کرنے کا فیصلہ کیا تھا تو آپ جانتی ہیں یہ مغرب و یورپ سے انسانی حقوق کی ’ڈگریاں‘ پانے والے سب چیخ اٹھے تھے۔۔۔۔‘
’۔۔۔ فلسطین میں ہر روز سینکڑوں خواتین اور بچے اسرائیل کے وحشیانہ تشدد کا شکار ہو رہے ہیں۔ ان کے بارے یہ لوگ ڈاکومینٹری نہیں بنائیں گے کیا؟ وہاں یہ لوگ نہیں پہنچیں گے کیا؟ اس درندگی اور سفاکیت پہ گل مکئی کا دل نہیں تڑپتا کیا ؟؟؟؟ خون میں لت پت خواتین کی کوئی وقعت نہیں شرمین عبید چنائے جیسے لوگوں کی نظر میں کہ وہ اس پر چند منٹ کی ہی ڈاکومنٹری بنا لیں۔۔۔۔؟؟؟؟؟‘
نہیں پہنچیں گی یہ این جی اوز وہاں۔۔۔۔ اور نہ ہی کوئی ڈاکومنٹری بنائے’ ‘گا۔۔۔۔۔
’مگر۔۔۔۔۔ کیوں ؟ کیوں؟ کیوں؟؟؟؟؟؟؟؟؟‘
’وجہ صاف ظاہر ہے کہ
۔۔۔۔ضمیر مغرب ہے تاجرانہ ضمیر مشرق ہے راہبانہ۔۔۔۔۔
فلسطین پہ ٹوٹنے والے غم کے پہاڑ کو فلمانے والے کو آسکر ایوارڈ کبھی’ نہیں ملے گا۔۔۔۔اور ۔۔۔۔۔۔ انکل سام کی نگاہوں کی شاباش اور اس کے دیس کے، نظارے اور عیش کے پروانے، کبھی نہیں ملیں گے۔۔ آپ جانتی ہیں نا‘
لمحے کی خطا ۔۔۔۔ اس امت وسط نے کی کہ جہد وعمل کا میدان اہل’ مغرب کے حوالے کیا اور خود تسبیح پکڑ لی تو آج صدیوں کی سزا بھگت ‘رہی ہے امت ۔۔۔۔۔
‘آہ۔۔۔۔ مغرب کے ذہنی غلاموں کی ذہنیت بھی تاجرانہ بن چکی ہے ان کا اصل ہدف آسکر ایوارڈ ہے، نوبل پرائز ہے۔۔۔۔ دنیا کی واہ واہ ہے‘
جی ہاں ۔۔۔۔ اور آپ نے دیکھا نہیں؟ حال ہی میں یو این او میں، فلسطین’ میں جاری اسرائیلی درندگی کے خلاف قرار داد کو انکل سام کے گماشتوں نے ویٹو کر دیا۔۔۔۔۔ایک بار نہیں، بار بار۔۔۔ وہ یو این او کس کے لیے آسکر ایوارڈ کا اعلان کرتا ہے تو بات تو ساری واضح ہے۔۔۔۔‘
’اب۔۔۔ یہ ۔۔۔۔ یہ جو دل غم سے بوجھل ہے اس کا کیا۔؟؟۔۔۔’
آپ دل کو تسلی دیجیے کہ آپ کے جگر گوشے اپنی سی کوشش میں لگے’ ہیں سوئے ہوؤں کو جگا رہے ہیں۔ علاوہ ازیں آج مسلم غیر مسلم ہر حساس دل فلسطینیوں کے ساتھ ہے۔ دیکھ لیجیے کہ مغربی ممالک کی یونیورسٹیز میں تسلسل کے ساتھ اسرائیلی سفاکیت کے خلاف بڑی توانا آواز بلند کی جا رہی ہے۔۔۔‘
یہ تو ہے ، مگر بیٹا ! اتنی دیر سے مجھ سے باتیں کررہے ہو ، یہ اتنے بڑے’ ماسک سے چہرہ کیوں چھپا رکھا ہے۔۔۔۔۔۔؟‘
’لیجیے۔۔۔۔ ہٹا دیا ماسک ‘
۔۔۔ آؤ میرے بچے! آج تو ایکٹنگ کر کے ماں کو دھوکہ دے دیا۔ کیا یہ بھی کسی ٹریننگ کاحصہ ہے؟ ‘
’ٹریننگ تو جاری تھی صلاح الدین بٹالین کے ہمراہ۔۔۔‘
’صلاح الدین بٹالین ؟؟ ۔۔۔۔۔‘
’جی ہاں میری یونیورسٹی کے لڑکوں کے گروپ کا نام ہے ۔۔۔۔’
’۔۔۔اور اس وقت کیا ٹریننگ کررہے تھے۔۔؟‘
۔۔۔آج ہم جنگی حالات کے اندر کسی زخمیوں کو فرسٹ ایڈ دینے کی’ ٹریننگ لے رہے ہیں، زخمی کو اٹھا کے پوری رفتار کے ساتھ بھاگنا کہ اسے محفوظ مقام تک پہنچایا جاسکے وغیرہ وغیرہ۔۔۔
‘۔۔ واہ بھئی۔۔’
‘آپ ہی کی تو تربیت ہے سب ’
ہاں بیٹا ! اب ہمیں بیدار ہونا پڑے گا۔ دنیا بھر کی جابر قوتیں ہمارے‘ خلاف ہر طرح سے تربیت یافتہ ہیں۔ جانتے ہو نا ہر یہودی بچے کے لیے فوجی تربیت پانا لازمی ہوتا ہے اور نام نہاد مسلمان ہیں کہ گانے اور ناچنے کی تربیت میں لگے ہیں۔ انکل سام نے مدہوشی میں مست مسلم حکمرانوں کی غفلت کافائدہ اٹھایا اور امت کو بند گلی میں لا کھڑا کیا تو اس لیے بہت ضروری ہو گیا ہے کہ ہم نہ صرف اپنے ایمان کی تربیت کریں بلکہ جسمانی تربیت بھی ہر نوجوان کے لیے ناگزیر ہوچکی ہے تا کہ اگر خدا نخواستہ خونیں دہشت گرد جارحیت کا دائرہ وسیع کریں تو ہمیں تر لقمہ سمجھ کے نگل نہ پائیں ۔۔۔۔‘
’ بالکل بالکل ‘
اور آپ کو بتاؤں ہم کوشش کر رہے ہیں اپنی یونیورسٹی میں ایک بہت بڑی’ الاقصیٰ کانفرنس منعقد کی جائے۔۔‘
’واؤ ۔۔۔۔۔ میرے بیٹے! اللہ کامیاب فرمائے۔‘
’چلیں آپ کو گھر چھوڑ دوں اور پھر میں اپنے گروپ کی طرف چلا جاؤں گا۔‘
’۔۔۔نہیں بیٹا میں خود چلی جاؤں گی، آپ جاؤ ۔۔۔۔‘
میرے ہاتھوں کا پیالہ اور اس کے چہرے کی معصومیت اور آنکھوں کی روشنی۔۔۔
دن بھر کی تھکن ایک پل میں دور ہوگئی۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
2 پر “کھو گئے تم کہاں؟” جوابات
بہت عمدہ کہانی ۔۔ خوب صورت طنز۔۔ مگر۔۔ مرد ناداں پہ کلام نرم و نازک بے اثر
واہ بہت خوبصورت انداز میں موجودہ حالات پر مسلمانوں کی بے حسی بیان کر دی اور یہ بھی سمجھا دیا کہ ہر قسم کے حالات کے لئے ہمیں پہلے سے تیارہ کرنی ہے ان شاءالله
ما شاءاللہ بہترین تحریر 🤍