ریاست جونا گڑھ سے جاری ہونے والا پوسٹل ٹکٹ

بھارت کی سب سے بڑی غلطی ، اثرات کیا مرتب ہوں‌ گے؟

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

عبیداللہ عابد :

وزیراعظم پاکستان عمران خان نے کہا ہے کہ نریندر مودی نے پانچ اگست دوہزار انیس کو سب سے بڑی غلطی کردی، اس غلطی کے بعد اب کشمیر آزاد ہوگا۔ یادرہے کہ پانچ اگست دو ہزار انیس کو بھارت نے اپنے آئین کی دفعہ 370 ختم کرکے مقبوضہ کشمیر کی نیم خودمختارانہ حیثیت بھی ختم کردی تھی۔

سوال یہ ہے کہ مقبوضہ کشمیر کی نیم خودمختارانہ حیثیت ختم کرنا بھارت کے وزیراعظم نریندرمودی کی سب سے بڑی غلطی کیسے ثابت ہوگی؟

پانچ اگست دو ہزار انیس تک بھارت نے مقبوضہ کشمیر کو جو نیم خود مختارانہ حیثیت دی تھی ، وہ واقعی نام نہاد تھی۔ وہ دراصل کشمیریوں‌ کی آنکھوں پر ایک پٹی تھی۔ کشمیریوں کو پاس کوئی اختیار نہیں‌تھا۔ سارا اختیار بھارت کے پاس تھا۔

انیس سو سنتالیں میں جب بھارتی افواج نے کشمیر پر قبضہ کیا تو اس کے بعد قریبا ڈیڑھ عشرہ تک مقبوضہ کشمیر میں‌ایک وزیراعظم ہوا کرتا تھا لیکن پھر اسے وزیراعلیٰ کا نام دیدیا گیا۔ اگرچہ ریاست کا وزیراعظم بھی بھارت ہی کی ہدایات کے مطابق کام کرتا تھا تاہم بھارت کو ریاست کے منتظم کے لئے ’ وزیراعظم ‘ کا نام بھی گوارا نہیں‌ تھا۔

مقبوضہ کشمیر میں ‌ریاستی عام انتخابات بھی ایک ڈھونگ ہوتے تھے، وہاں ‌کس گروہ کو اقتدار دینا ہے، یہ پہلے سے طے ہوتا تھا۔ جو گروہ بھارت کو ہدایات پر زیادہ بہتر طریقے سے عمل کرنے کی یقین دہانی کراتا، اقتدار اسے دیدیا جاتا۔ آنے والے برسوں میں یہ ڈھونگ بھی ختم ہوگیا۔

اب وہاں گورنر راج ہی ہوتا ہے اور وہ تمام پردے ہٹادیے گئے ہیں جو کشمیریوں کی آنکھوں کے سامنے تانے گئے تھے۔

کشمیری اس صورت حال کو بخوبی سمجھتے ہیں۔ اب وہ اپنے آپ کو انیس سو سنتالیس کے مقام پر کھڑا پاتے ہیں جب یہ سوال درپیش تھا کہ انھیں بھارت کے ساتھ الحاق کرنا ہے یا پاکستان کے ساتھ ؟

بھارت کے وزیراعظم نریندرمودی نے یہی سب سے بڑی غلطی کی ہے۔ اگرچہ وہ دیگر قوانین بھی منظور کرکے بھارت کے باشندوں کو ریاست جموں ‌وکشمیر میں آباد کرنے کی کوشش میں ہیں، اسی طرح وہ فوج کو بھی اختیارات دے رہے ہیں کہ وہ مقبوضہ کشمیر میں جہاں چاہے چھائونیاں قائم کرے، تاہم ایسے قوانین اور تمام تر تدابیر کشمیر پر بھارت کے قبضے کے خلاف خطرناک بنتے جارہے ہیں۔

چونکہ اب کشمیری انیس سو سنتالیس کی پوزیشن پر پہنچ چکے ہیں، اب وہ بھارتی تسلط کے خلاف دنیا کے سامنے زیادہ یکسوئی کے ساتھ آواز اٹھائیں گے اور اپنا حق خود ارادیت مانگیں‌ گے۔ پاکستان بھی کشمیریوں کو حق ارادیت کا حق دلانے کے لئے زیادہ سرگرم ہوچکا ہے۔ اب وہ دور نہیں‌ رہا کہ جب امریکا جیسے ممالک بھارتی مفادات کی خاطر کشمیریوں اور پاکستان کی نہیں سنتے تھے۔ امریکا میں پہلے جیسا دم خم نہیں رہا، یورپ بھی اپنے معاملات میں پھنسا ہوا ہے۔ وہ بھی کشمیریوں‌ کی خواہشات کے مطابق مسئلہ کشمیر کی راہ میں روڑے اٹکانے کے قابل نہیں۔

کشمیریوں کا زخم ہرا کرنے کا دوسرا سب سے بڑا اثر یہ ہوا کہ خطے کے تمام تنازعات جو دبے ہوئے تھے، وہ ابھر کر سامنے آگئے ہیں۔

پاکستان نے اپنا ایک نیا سیاسی نقشہ دنیا کے سامنے پیش کردیا جس میں نہ صرف مقبوضہ کشمیر کو اپنا حصہ قرار دیدیا ہے بلکہ ریاست جونا گڑھ کو بھی۔

نئے نقشے میں انڈیا کے زیرِانتظام کشمیر کو پاکستان کا حصہ دکھاتے ہوئے اس پر لکھا گیا ہے ’ انڈیا کے غیر قانونی قبضے میں جموں اور کشمیر‘ جبکہ ساتھ ہی سرخ سیاہی میں درج کیا گیا ہے کہ ’ متنازع علاقہ، حتمی فیصلہ اقوامِ متحدہ کی سکیورٹی کونسل کی سفارشات کی روشنی میں ہونا ہے۔‘

وزیرِاعظم پاکستان عمران خان کا کہنا تھا کہ پاکستان نے ہمیشہ کشمیر کو اپنا حصہ سمجھا ہے اور یہ اس جانب پہلا قدم ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ کشمیر کے تنازع کا واحد حل سکیورٹی کونسل کی سفارشات پر عمل درآمد ہے۔

” پاکستان طاقت کے استعمال سے مسائل کے حل پر یقین نہیں رکھتا، ہم سیاسی جدوجہد کریں گے۔ ہم اقوامِ متحدہ کو بار بار یاد دلاتے رہیں گے کہ آپ نے کشمیر کے لوگوں سے ایک وعدہ کیا تھا جو کہ ابھی تک پورا نہیں ہوا۔ “
نئے سیاسی نقشے کی جو تصویر دکھائی گئی اس میں سر کریک اور انڈیا کی ریاست گجرات کے علاقے جوناگڑھ اور مناوادر کو بھی دکھایا گیا ہے۔

پاکستان سے الحاق کے اعلان کے بعد ریاست جونا گڑھ سے جاری ہونے والا پوسٹل ٹکٹ (فائل فوٹو)

سرکریک پاکستان کے صوبہ سندھ اور انڈیا کی ریاست گجرات کے درمیان بہتی یہ ایک ایسی کھاڑی ہے جو بحیرہ عرب میں گرتی ہے۔ تقسیم کے بعد ہی سے مسئلہ یہ چلا آ رہا ہے کہ اس کھاڑی کی کتنی حدود کس ملک کے اندر ہیں ۔ پاکستان کا کہنا ہے کہ سر کریک کی کھاڑی پوری اس کی سرحد کے اندر واقع ہے۔

سر کریک ، نقشہ

رہی بات سابق ریاست جونا گڑھ اور مناودر کی ، انھیں انڈیا نے اپنی ریاست گجرات کا حصہ بنایا ہوا ہے۔ ان کی سرحدیں پاکستان سے نہیں ملتیں۔

پاکستان کا مؤقف ہے کہ جونا گڑھ اور مناودر ہمیشہ سے اس کا حصہ تھے کیونکہ جونا گڑھ کے راجا نے تقسیمِ ہند کے وقت پاکستان کے ساتھ الحاق کیا تھا مگر انڈیا نے بزورِ طاقت اس ریاست پر اپنا قبضہ جما لیا۔ یادرہے کہ سومنات کا مندر اسی علاقے میں موجود ہے۔

پاکستان کے وزیرِاعظم عمران خان کے مشیر برائے قومی سلامتی معید یوسف نے ایک غیرملکی ادارے سے بات کرتے ہوئےکہا ہے ’جونا گڑھ ہمیشہ سے پاکستان کا حصہ تھا اور نئے نقشے پر پاکستان نے اس کو اپنا حصہ ظاہر کیا ہے، جس کا مقصد اپنی پوزیشن واضح کرنا ہے۔‘

ان کا کہنا تھا نئے نقشے میں ’پ اکستان نے کوئی نیا علاقہ اپنے علاقے میں شامل نہیں کیا۔ اس علاقے پر انڈیا نے غیر قانونی قبضہ جمایا تھا اور اس پر کوئی تنازع نہیں ہونا چاہیے، کیونکہ یہ ہمیشہ سے پاکستان کا حصہ ہے۔‘

اُن کا کہنا تھا کہ پاکستان ماضی میں بھی جونا گڑھ کو نقشے پر اپنا حصہ دکھاتا رہا ہے تاہم بعد میں کسی وجہ سے پاکستان کے نقشے سے اسے نکال دیا گیا۔ ’ہم اس کو دوبارہ نقشے پر لائے ہیں اور اس کا مقصد اپنے علاقوں کے حوالے سے پاکستان کی پوزیشن واضح کرنا ہے۔‘

جونا گڑھ پاکستان کا حصہ ہے، اس دعویٰ کی بنیاد وہ قانونی دستاویز ہے جس پر جونا گڑھ کے نواب نے پاکستان کے بانی محمد علی جناح کے ساتھ دستخط کیے تھے۔ انڈیا کی طرف سے جونا گڑھ پر غیر قانونی قبضے کے بعد جونا گڑھ کے نواب اپنے خاندان سمیت کراچی منتقل ہو گئے تھے۔

ریاست جونا گڑھ کے موجودہ نواب جہانگیر

نواب صاحب کے نواسے اب بھی جونا گڑھ کے نواب کا عہدہ رکھتے ہیں اور ساتھ ہی انھوں نے جونا گڑھ کا وزیرِ اعظم یا سینیئر وزیر بھی مقرر کر رکھا ہے۔ نواب کے خاندان کو پاکستان کی ریاست کی طرف سے شاہی وظیفہ اب بھی ملتا ہے اور اُن کی حیثیت پاکستان میں جونا گڑھ کے جلاوطن حاکم کی سی ہے۔

بین الاقومی قوانین کے معروف ماہر احمر بلال صوفی کا کہنا ہے کہ جونا گڑھ اب بھی ایک متنازع علاقہ ہے۔ کچھ عرصہ قبل اقوامِ متحدہ کی سکیورٹی کونسل میں یہ معاملہ اٹھا بھی تھا لیکن بحث کے بعد بھی اس کا تصفیہ نہیں ہو پایا تھا۔

’دوسرے الفاظ میں جونا گڑھ پر انڈیا کا قبضہ بین الاقوامی قوانین کے خلاف ہے، اس وقت تک جب تک کہ جونا گڑھ کے نواب کی طرف سے پاکستان کے ساتھ الحاق کے دستاویز میں ترمیم نہ کی جائے۔‘

احمر بلال صوفی کے مطابق الحاق کا دستاویز ایک بین الاقوامی معاہدہ ہے جس کو انڈیا مسترد کرتا ہے۔ جونا گڑھ پر قبضے کو اس نے جس قانون کے تحت اپنے یونین علاقوں میں شامل کیا ہے وہ اس کے اندرونی یا مقامی قوانین ہیں۔

یہ بھی ایک اہم بات ہے کہ پاکستان میں انضمام کے اعلان کے بعد جونا گڑھ میں کوئی بڑا فساد نہیں ہوا تھا حالانکہ جونا گڑھ کی 80 فیصد سے زیادہ آبادی ہندو تھی۔ اس بات کا اس کے علاوہ کیا مطلب ہوسکتاہے کہ ریاست کے تمام لوگ پاکستان کے ساتھ الحاق کے حامی تھے۔

پاکستان کی طرف سے نیا نقشہ سامنے لا کر کشمیر، جونا گڑھ ، مناودر اور سرکریک سمیت تمام علاقوں کے مقدمات اب ایک میز پر رکھ دیے گئے ہیں۔ اب پاکستان عالمی سطح پر آواز اٹھائے گا کہ وہ یہ تمام مسائل حل کروائیں۔ عمران خان حکومت یہ آواز کس قدر شد ومد سے اور موثر انداز میں اٹھاتی ہے، یہ اگلا موضوع ہے۔

واضح رہے کہ بھارت کے چین اور نیپال کے ساتھ بھی سرحدی تنازعات چل رہے ہیں، نیپال نے گزشتہ دنوں ملک کا نیا نقشہ دنیا کے سامنے پیش کردیاہے جس میں متنازعہ علاقوں کو نیپال میں‌ شامل کیا ہے۔ چین نے لداخ میں ‌متنازعہ علاقے سے بھارتی فوج کو بھگا دیا ہے۔ ہوسکتاہے کہ وہ باقی تنازعات بھی اسی انداز میں حل کرلے۔


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں