بالی ووڈ اداکار عرفان خان

’پان سنگھ تومر‘ کی آخری ٹویٹس

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

لیجنڈری ایکٹر عرفان خان نے اداکاری کی تربیت نئی دہلی کے نیشنل اسکول آف ڈراما (NSD)سے 1989 میں مکمل کی۔ انہوں نے اپنے فلمی کیریئر میں قریباً 90 فلموں میں کام کیا۔ان کی پہلی فلم’ سلام بمبئے‘ تھی۔ یہ 1988 میں ریلیز ہوئی تھی۔ اور آخری فلم ’مرڈر ایٹ تیسری منزل‘ ان کی موت کے بعد ، اگلے برس یعنی 2021 میں ریلیز ہوئی۔انھوں نے زندگی میں 100 کے لگ بھگ فلمیں کیں جن میں سے بڑی تعداد میں ایسی فلمیں تھیں جنھیں لوگ کبھی نہیں بھولے۔ ان میں سے ایک ’پان سنگھ تومر‘ بھی تھی۔ یہ فلم ایک بھارتی ایتھلیٹ کی زندگی پر بنی تھی۔

فلم پان سنگھ تومر کے ایک صحافی سے انٹرویو سے شروع ہوتی ہے۔ وہ ایک باغی ہوتا ہے، 9 افراد کو قتل کرچکا ہوتا ہے۔ انٹرویو میں پان سنگھ تومر اپنے بارے میں بتاتا ہے، اس کے بعد فلیش بیک پر اس کی زندگی کی کہانی چلتی ہے۔ یہ 1950 سے شروع ہوتی ہے۔ وہ بھارتی فوج میں ہوتا ہے، اس کی ماں اور بیوی بھارتی ریاست مدھیہ پردیش میں رہتی ہیں۔ فوج میں رہ کر وہ مختلف نیشنل اور انٹرنیشنل مقابلوں میں حصہ لیتا ہے۔ ایک دن اسے خبر ملتی ہے کہ اس کے ایک رشتہ دار نے  بھنور سنگھ نے ان کی زمین پر قبضہ کرلیا ہے۔ چنانچہ وہ فوج سے ریٹائرمنٹ لیتا ہے اور سیدھا گاؤں پہنچ جاتا ہے۔ وہ زمین کے تنازعات کو حل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ وہ مقامی سرکاری انتظامیہ اور پولیس سے مدد لینے کی کوشش کرتا ہے لیکن اسے مدد نہیں ملتی۔ وہ اپنے بیٹے سے کہتا ہے کہ وہ اس جھگڑے سے دور رہے اور فوج میں بھرتی ہوجائے۔ دوسری طرف بھنور سنگھ اور اس کے غنڈے پان سنگھ تومر کو قتل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ایک روز وہ اس کے گھر والوں پر حملہ کرتے ہیں۔ خاندان کے باقی لوگ بھاگ کر اور چھپ کر اپنی جانیں بچا لیتے ہیں لیکن پان سنگھ کی ماں بے دردی سے قتل کردی جاتی ہے۔

پان سنگھ تومر اب انتقام کی آگ میں جلنے لگتا ہے۔ وہ ایک بڑا گینگ بناتا ہے۔اس کے لیے رقم درکار ہوتی ہے چنانچہ وہ دولت مندوں کو لوٹتا ہے۔ اس کے بعد وہ بھنور سنگھ پر ایک بڑے حملے کی تیاری کرتا ہے، جو کہ پولیس کی حفاظت میں زندگی گزار رہا ہوتا ہے تاہم وہ بھنور سنگھ کو قتل کرنے میں کامیاب ہوجاتا ہے۔ وہ 9 دیہاتیوں کو بھی قتل کردیتا ہے جو پولیس کے مخبر ہوتے ہیں اور پان سنگھ کی مخبری کرتے ہیں۔

صحافی کے ساتھ انٹرویو ختم ہوتا ہے، وہ اخبار میں شائع ہوتا ہے۔ پولیس اب بھی پان سنگھ تومر کی تلاش میں ہوتی ہے۔ پاان سنگھ اپنی فیملی سے ملتا ہے اور اپنے فوجی کوچ سے بھی۔ کوچ اسے پولیس کے سامنے ہتھیار پھینکنے کو کہتا ہے تاہم وہ انکار کردیتا ہے۔ وہ اس غصہ سے بھرا ہوتا ہے کہ اس نے ملک اور فوج کو اس قدر زیادہ اعزازات جیت کر دیے لیکن جب اسے مسائل کا سامنا کرنا پڑا تو کسی نے اس کا ساتھ نہیں دیا۔ پھر ایک روز اس کے ساتھی نے اس کی مخبری کردی، جس کے بعد ایک پولیس مقابلے میں پان سنگھ تومر اور سب ساتھی مارے گئے۔

بالی ووڈ اداکار عرفان خان پان سنگھ تومر

یہ فلم جس نے بھی دیکھی، وہ مسلسل اس کے نشے میں رہا بالخصوص عرفان خان کے جاندار کردار نے  دیکھنے والوں پر سحر طاری کردیا۔

عرفان خان  29 اپریل 2020 کو 53 برس کی عمر میں خالق حقیقی سے جاملے۔ 2018 میں انہیں کینسر کی تشخیص ہوئی تھی جس کی اطلاع انہوں نے بذریعہ ٹوئیٹ خود اپنے مداحوں کو دی تھی۔ ذیل میں ان کی وہ ٹویٹس دی جا رہی ہیں جو انھوں نے اپنی زندگی کے آخری دو ماہ کے دوران لکھی اور ٹویئٹر پر پوسٹ کیں۔ ان ٹویٹس سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ ان دنوں کیا سوچ رہے تھے؟ کون سے خیالات ان کے دامن گیر تھے؟ موت سے پہلے انھیں کیا کچھ دکھائی دے رہا تھا جو کسی اور کو دکھائی نہیں دے رہا تھا؟

’کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ آنکھ اس جھٹکے سے کھلتی ہے جو زندگی تمہیں جگانے کے لیے دیتی ہے۔ پچھلے 15 دن سے میری زندگی ایک تجسس بھری کہانی بنی ہوئی ہے۔ مجھے اندازا نہیں تھا کہ انوکھی کہانیوں کا پیچھا کرتے کرتے میں خود ایک انوکھی بیماری کا شکار ہو جاؤں گا۔ میری فیملی اور دوست احباب میرے ساتھ ہیں، اور کسی مناسب علاج کی تلاش میں ہیں۔ میں ہفتے یا 10 دن بعد خود آپ کو تشخیص سے آگاہ کروں گا، آپ کی دعاؤں کا طالب!

’زندگی میں اچانک کچھ ایسا ہو جاتا ہے جو آپ کو آگے لے کر جاتا ہے۔ گزشتہ چند دن ایسے ہی رہے ہیں۔ مجھے نیورو اینڈوکرائن ٹیومر نامی مرض لاحق ہوگیا ہے، لیکن میرے آس پاس موجود لوگوں کے پیار اور طاقت نے مجھ میں امید پیدا کی ہے۔ مجھے علاج کے لیے بیرون ملک جانا پڑے گا۔ دعاؤں میں یاد رکھیے گا۔‘

چند ماہ قبل معلوم ہوا تھا کہ میں نیورو اینڈوکرائن کینسر (neuroendocrine cancer) میں مبتلا ہوں۔ میرے لیے یہ ایک بالکل نیا نام تھا۔ پھر پتا چلا کہ یہ بیماری ہی انوکھی ہے، کم معلومات اور زیادہ خدشات اس سے جڑے ہیں۔ گویا میں اس ‘Trial and Error’ کھیل کا حصہ بن چکا تھا۔

میں تو کسی اور سمت گامزن تھا۔ ایک تیز رفتار ریل پر سوار، جس میں میرے پاس خوابوں، منصوبوں، توقعات اور خواہشوں جیسا رختِ سفر تھا۔ لیکن اچانک ٹکٹ چیکر نے میرا کاندھا تھپتھپایا؛
’آپ کی منزل قریب ہے، اترنے کی تیاری کیجیے۔‘
میں بوکھلا گیا، میری سمجھ میں کچھ نہیں آیا۔
نہیں نہیں، ابھی میرا اسٹیشن نہیں آیا۔
’نہیں، اس ریل کا یہی اصول ہے، اگلے اسٹیشن پر ہی اترنا ہی پڑے گا۔‘

اور پھر اسی لمحے مجھے احساس ہوا کہ ہم کسی بے وزن کارک کی طرح کسی انجان سمندر میں بے سمت لہروں پر بہہ رہے ہیں، اس خوش فہمی میں کہ ہم ان لہروں پر مکمل اختیار رکھتے ہیں۔ اسی بدحواسی، ہڑبڑاہٹ اور خوف میں گھبرا کر اپنے بیٹے سے کہتا ہوں کہ میں بس اتنا چاہتا ہوں کہ سراسیمگی، ڈر اور بدحواسی کو خود پر طاری نہ ہونے دوں۔ مجھے دکھ، تکلیف رنج و الم کو اپنے اعصاب پر مسلط نہیں کرنا۔ میری تو بس یہی خواہش اور ارادہ تھا۔

چند ہفتوں کے بعد اسپتال میں داخل ہوگیا۔ بے انتہا درد میرے وجود میں تھا، اس کا تو اندازا تھا ہی لیکن اس کی شدت سے واقفیت اب ہوئی۔ سب کچھ بے سود رہا، نہ کوئی تسلی نہ دلاسہ، یوں کہ جیسے پوری کی پوری کائنات نے درد کا روپ دھار لیا ہو۔ درد اس لمحے خدا سے بھی بڑا محسوس ہوا۔

میں ناتواں، بے کس، بیزار حالت میں جس اسپتال میں پہنچا وہاں اسی بے پروائی کے عالم میں معلوم ہوا کہ میرے اسپتال کے بالکل سامنے لارڈز کرکٹ اسٹیڈیم ہے۔ میرے بچپن کے خوابوں کا محور، جان لیوا درد کے حصار میں، میں نے دیکھا کہ وہاں ووین رچرڈز کا مسکراتا پوسٹر ہے جس کی جھلک میرے اندر کوئی بھی احساس پیدا نہ کرسکی۔ یوں کہ جیسے وہ دنیا کبھی میری تھی ہی نہیں، میں بالکل اس سے بے نیاز ہوں۔

اسی درد کی گرفت میں جب میں اپنے اسپتال کی بالکنی میں کھڑا تھا تو یہ احساس ہوا، جیسے موت اور زندگی کے اس کھیل کے درمیان صرف ایک سڑک کا فاصلہ ہے، سڑک کے اُس پار کھیل کا میدان ہے اِس طرف اسپتال ہے، میں ان میں سے کسی ایسی چیز کا حصہ نہیں جو دائمی ہونے کا دعویٰ کرے، نہ ہاسپٹل اور نہ ہی اسٹیڈیم۔ دل بول اٹھا؛
’صرف بے ثباتی کو ہی ثبات ہے۔‘

اسی احساس نے مجھے سپردگی اور بھروسے کے لیے تیار کیا۔ اب چاہے جو بھی نتیجہ ہو، یہ چاہے جہاں لے جائے، آج سے 8 مہینوں کے بعد، یا آج سے 4 مہینوں کے بعد، یا پھر 2 سال بعد۔ فکر رفتہ رفتہ معدوم ہونے لگی اور پھر میرے دماغ سے جینےمرنے کا کانٹا نکل گیا۔ پہلی بار مجھے لفظ ’آزادی‘ کا احساس ہوا، صحیح معنوں میں ایک کامیابی کا احساس۔

اس کائنات کا یہ سچ میرے یقین کو کامل کرگیا اور اس کے بعد لگا کہ وہ یقین میری نس نس میں سرایت کر گیا ہے۔ وقت ہی بتائے‌گا کہ وہ ٹھہرتا ہے کہ نہیں، فی الحال میں یہی محسوس‌کر رہا ہوں۔

اس سفر میں دنیا بھر سے خیرخواہ میری صحت مندی کی دعا کر رہے ہیں، میں جن کو جانتا ہوں اور جن کو نہیں جانتا، وہ سب الگ الگ مقامات اور ٹائم زون سے میرے لیے دعائیں کر رہے ہیں۔ مجھے لگتا ہے کہ ان کی دعائیں مل‌ کر ایک بڑی طاقت میں تبدیل ہوگئی ہیں۔ جو تیز رفتار زندگی کی مانند میرے دھڑ سے ہوتے ہوئے سر سے پھوٹنے لگی ہے۔ کبھی کلی بن کر، کبھی پنکھڑی کی طرح، کبھی ٹہنی اور کبھی شاخ کی طرح۔

میں ایک حسین اور پُرلطف احساس کے تابع انہیں دیکھتا ہوں۔ لوگوں کی نیک خواہشات، پرخلوص الفاظ سے پھوٹتی ہر ٹہنی، ہر پتی، ہر پھول، میری زندگی کو حیرتوں، خوشیوں اور تجسس سے سرشار کیے جاتی ہے۔ اب احساس ہوتا ہے جیسے ضروری نہیں کہ لہروں پر تیرتے کارک کا ان پر اختیار بھی ہو۔ یہ تو یوں ہے کہ جیسے آپ فطرت کی آغوش میں جھول رہے ہوں۔

25 اپریل 2020 کو عرفان خان کی والدہ سعیدہ بیگم جے پور میں انتقال کرگئی تھیں تاہم کورونا وائرس کی وجہ سے ملک گیر لاک ڈاؤن کے باعث وہ اپنی والدہ کے جنازے میں شریک نہیں ہوسکے تھے۔

انہوں نے ویڈیو کال کے ذریعے والدہ کے جنازے میں شرکت کی، وہ اس محرومی کے باعث سخت تکلیف اور کرب میں مبتلا تھے۔ اسی دوران ان کی طبیعت اچانک بگڑ گئی اور انہیں اسپتال منتقل کردیا گیا تھا۔

بالی ووڈ اداکار عرفان خان اور اہلیہ

عرفان خان کو 28 اپریل 2020 کو ممبئی کے کوکیلابین اسپتال میں داخل کیا گیا تھا۔ 29 اپریل 2020 کی صبح عرفان خان نے اپنی اہلیہ ’سوتاپا سکدر‘ کو مخاطب کرکے کہا کہ دیکھو ماں آئی ہے، وہ میرے بستر پر بیٹھی ہے، مجھے لینے آئی ہے۔ یہ سن کر ان کی اہلیہ زار و قطار رونے لگیں۔


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں

ایک تبصرہ برائے “’پان سنگھ تومر‘ کی آخری ٹویٹس”

  1. نگہت سلطانہ Avatar
    نگہت سلطانہ

    یقین کس قدر بڑی دولت ہے اسکی ایک لہر عام آدمی کو زندگی کے آخری ایام میں شدید تکلیف میں سرشاری کی کیفیت دے سکتی ہے تو اندازہ کریں جو فرد شعور کی آنکھ کھولتے ہی صراط مستقیم کاراہی بنتاہے اور یقین کو ،ایمان، میں بدل دیتاہے اسکی زندگی کا پل پل کیسے کامیابی کی منازل طے کرتاہے کہ اسے پان سنگھ کی طرح گینگ نہیں بنانا پڑتااور عرفان احمد کی طرح تجسس لاینحل کاشکار نہیں ہونا پڑتا۔اس کادرد خدا سے بڑا نہیں ہوتا بلکہ اس کاخدا ہی سب سے بڑا ہوتاہے درد بھی اسی خدا کا عطیہ ۔۔۔ شفا کی امید بھی اسکا عطاکردہ سہاناخواب

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے