رضوان رانا، اردوکالم نگار

جھوٹ، اس کے نقصانات اور ہمارا معاشرہ

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

رضوان رانا :

ہم جھوٹ کیوں بولتے ہیں ؟ جھوٹ ہے کیا اور یہ کیسے ہماری دنیا اور آخرت کو برباد کر دیتا ہے؟ یہ ایسے سوالات ہیں جس کا جواب تلاش کرنا ہمارے لیے انتہائی ضروری ہے کیونکہ اس وقت جھوٹ نہ صرف ہمارے معاشرے میں انتہائی گہرائی میں اتر چکا ہے بلکہ ہر انسان انفرادی اور اجتماعی طور پر اس برائی میں مبتلا نظر آتا ہے.

ہمارے ملک پاکستان میں اگر جائزہ لیں تو آپ یہ جان کر حیران ہوں گے کہ بدقسمتی سےاکثریتی مسلم معاشرہ ہونے کے باوجود یہاں ہر طرف جھوٹ نظر آتا ہے جو ایک فرد سے لے کر خاندان ، گھر سے لے کر ادارے اور غریب سے امیر تک ہر ایک پاکستانی کو اپنی لپیٹ میں اس حد تک لے چکا ہے کہ اب لوگ اسے برائی نہیں سمجھتے.

دیکھا جائے تو اس کی کچھ وجوہات ہیں مثلاً جھوٹ بعض اوقات لوگ اپنے کسی غلط کام کو چھپانے کے لیے بولتے ہیں کیونکہ اُنھیں ڈر ہوتا ہے کہ اگر اُن کا غلط کام ظاہر ہو گیا اور غلط کام کی سچائی سامنے آگئی تو اِس صورت میں لوگوں میں اُن کی عزت نہیں رہے گی.

بعض اوقات لوگ اپنی شان و شوکت قائم رکھنے کے لیے بھی جھوٹ بولتے ہیں اور مثال کے طور پر اُن کے پاس دولت نہیں ہوتی، گاڑی نہیں ہوتی، بنگلہ نہیں ہوتا اور بنک بیلنس نہیں ہوتا لیکن لوگ اپنے دوستوں، یاروں اور اپنے رشتے داروں کو متاثر کرنے کے لیے جھوٹ بولتے ہیں کہ اُن کے پاس دولت، گاڑی، بنگلہ اور بنک بیلنس سب کچھ موجود ہے.

اسی طرح بعض اوقات لوگ اپنی عادت کے ہاتھوں مجبور ہوتے ہیں اور وہ عام طور پر ہنسی مذاق میں یا بغیر کسی وجہ کے بے اختیار مختلف قسم کا جھوٹ بولتے ہیں. اس قسم کا جھوٹ اکثر ہر گھر ، گلی محلوں ، محفلوں اور ٹی وی ٹاک شوز میں بولا جاتا ہے جیسا کہ سیاسی جلسوں میں حاضرین کی تعداد کو کم یا زیادہ کرکے بتایا جاتا ہے. مذاق میں جھوٹے قصے بیان کیے جاتے ہیں اور ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لیے وہ بات بھی کہہ دی جاتی ہے جس کا حقیقت سے کوئی واسطہ نہیں ہوتا۔

اس کا سب سے افسوسناک پہلویہ ہے کہ ہم سب سمجھ رہے ہوتے ہیں، جھوٹ بولا جا رہا ہے لیکن کسی کی جرات نہیں ہوتی کہ کوئی کھلے لفظوں میں کہے کہ اللہ کے بندو! جھوٹ نہ بولو اور اپنے ضمیر کی آواز کو سنو جو چیخ چیخ کر آپ کو جھوٹ بولنے سے منع کر رہی ہوتی ہے.

اللہ تعالیٰ اور ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نزدیک جھوٹ معاشرے کی سب سے بڑی برائی اور کبیرہ گناہ ہے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دور میں ایک شخص آپ کے پاس آیا اور کہنے لگا کہ میں اسلام لانا چاہتا ہوں لیکن مجھ میں بہت سی برائیاں ہیں جنہیں میں چھوڑ نہیں سکتا۔ آپ مجھے فرمائیے کہ میں کوئی ایک برائی چھوڑ دوں تو وہ میں چھوڑ دوں گا۔ آپ نے اُس شخص سے فرمایا کہ جھوٹ بولنا چھوڑ دو اُس شخص نے وعدہ کر لیا اور جھوٹ بولنا چھوڑدیا تو اِس کے جھوٹ چھوڑنے کے سبب اُس کی تمام برائیاں چُھٹ گئیں.

ایک دفعہ رسول اللہ سے پوچھا گیا کہ مومن بزدل ہو سکتا ہے ؟
آپ نے فرمایا :ہاں
پھر عرض کیا گیا :کیا مومن بخیل ہو سکتا ہے ؟ فرمایا ہاں۔
پھر پوچھا گیا :کیا مومن کذاب (جھوٹا) ہو سکتا ہے؟
آپ نے فرمایا: بالکل نہیں، مسلمان جھوٹا نہیں ہو سکتا۔

ہمارے دین اسلام میں جھوٹ بہت بڑا عیب اور بد ترین گناہ کبیرہ ہے۔ جھوٹ کو ”ام الخبائث“ کہا گیا ہے کیونکہ اس سے معاشرے میں بے شمار برائیاں جنم لیتی ہیں.
جھوٹ بولنے والا ہر مجلس میں اور ہر انسان کے سامنے بے اعتبار و بے وقار ہو جاتا ہے.
جھوٹے آدمی پر اللہ تعالیٰ کی لعنت ہوتی ہے.

جھوٹ بولنے والے کا دل سیاہ اور چہرہ بے رونق ہو جاتا ہے.
رزق میں برکت ختم ہو جاتی ہیں اور جھوٹ غم و فکر پیدا کرتا ہے کیونکہ ایسا آدمی وقتی طور پر مطمئن ہوجاتا ہے لیکن بعد میں اس کا ضمیر اسے ہمیشہ ملامت کرتا رہتا ہے جس کے نتیجے میں وہ اطمینان قلب کی دولت سے بھی محروم ہو جاتا ہے.

سب سے بڑھ کرجھوٹ برائیوں اور گناہوں کا دروازہ ہے کیونکہ ایک جھوٹ بول کر اسے چھپانے کےلئے کئی جھوٹ بولنے پڑتے ہیں.

قرآن و حدیث اس میں جھوٹ کی بری عادت کو چھوڑنے کی سختی سے تاکید کی گئی ہے.
قرآن حکیم میں اللہ تعالی ارشاد فرماتے ہیں :
فی قلوبھم مرض فزادھم اللّٰہ مرضا۔ ولھم عذاب الیم بما کانوا یکذبون
”ان کے دلوں میں مرض ہے تو اللہ نے ان کے مرض میں اضافہ کر دیا اور ان کے جھوٹ بولنے کی وجہ سے ان کے لئے درد ناک عذاب ہے۔“

ایک اور مقام پر فرماتے ہیں:
ان اللّٰہ لایھدی من مسرف کذاب
”بے شک اللہ تعالیٰ اس شخص کو ہدایت نہیں دیتا جو حد سے بڑھنے والا جھوٹا ہو“

قیامت کے دن جھوٹوں کے چہرے سیاہ ہوں گے ،اس بارے میں اللہ تعالی ارشاد فرماتے ہیں :
ویوم القیامة تری الذین کذبوا علی اللّٰہ ، وجوھھم مسودة ۔الیس جھنم مثوی لِّلمتکبرین
”اور قیامت کے دن جنہوں نے اللہ پر جھوٹ بولا ہے ان کے چہرے سیاہ ہوں گے . کیا متکبرین کے لئے جہنم کا ٹھکانا کافی نہیں ہے؟“

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں کہ صدق کو لازم کر لو! کیونکہ سچائی نیکی کی طرف لے جاتی ہے اور نیکی جنت کا راستہ دکھاتی ہے. آدمی برابر سچ بولتا رہتا ہے اور سچ بولنے کی کوشش کرتا رہتا ہے . یہاں تک کہ وہ اللہ کے نزدیک صدیق لکھ دیا جاتا ہے اور جھوٹ سے بچو کیونکہ جھوٹ فجور کی طرف لے جاتا ہے اور فجور جہنم کا راستہ دکھاتا ہے . آدمی جھوٹ بولتا رہتا ہے جھوٹ بولنے کی کوشش کرتا رہتا ہے یہاں تک کہ اسے اللہ کے نزدیک کذاب جھوٹا لکھ دیا جاتا ہے.

حضرت عبد اللہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمارے گھر میں تشریف فرما تھے کہ میری والدہ نے مجھے بلایا کہ میرے پاس آﺅ تمہیں کچھ دو ں گی.
آپ نے فرمایا کیا چیز دینے کا ارادہ ہے ؟ انہوں نے کہا کجھوریں تو آپ نے ارشاد فرمایا اگر تو کچھ نہ دیتی تو یہ تیرے ذمہ جھوٹ لکھا جاتا. یعنی اتنی معمولی بات میں بھی جھوٹ بولنے کی ممانعت فرمائی گئی ہے.

فرمان نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے کہ قیامت کے روز اللہ تعالیٰ تین آدمیوں سے نہ کلام کرے گا ،نہ ان کی طرف رحمت کی نظر سے دیکھے گا اور نہ ان کو پاک کرے گا ،بلکہ انہیں درد ناک عذاب دے گا۔
وہ تین آدمی بوڑھا زانی ،جھوٹا بادشاہ اور متکبر فقیر ہیں.

ایک بار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صحابہ سے فرمایا:
کیا میں تمہیں بہت بڑے کبیرہ گناہ کے بارے میں نہ بتاﺅں ؟
تین مرتبہ یونہی فرمایا ،صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم نے عرض کیا :ہاں ،کیوں نہیں یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم۔

پھر آپ نے فرمایا :
اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرانا اور ماں باپ کی نافرمانی کرنا۔
آپ ٹیک لگائے ہوئے تھے ،اٹھ بیٹھے اور فرمایا :
سنو! جھوٹی بات اور جھوٹی گواہی ،آپ مسلسل فرماتے رہے یہاں تک کہ ہم نے سوچا کاش آپ خاموش ہو جائیں.

حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یوں دعا کرتے ہوئے دیکھا کہ
اے اللہ ! میرے دل کو نفاق اور نفس کو برائی سے اور زبان کو جھوٹ سے محفوظ رکھ۔

نبی مکرم کا ارشاد عالی ہے :
اگر تم میری چھ باتوں پر عمل کر لو تو میں تمہیں جنت کی ضمانت دیتا ہوں۔
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وہ کیا ہیں ؟ تو آپ نے فرمایا:

ایک یہ کہ جب بات کرو تو جھوٹ نہ بولو.
دوسری یہ کہ وعدہ کرو تووعدہ خلافی نہ کرو.
تیسری یہ کہ امانت میں خیانت نہ کرو۔
چوتھی یہ کہ بری نگاہ سے کسی کو نہ دیکھو۔
پانچویں یہ کہ کسی کو تکلیف نہ دو۔
چھٹی یہ کہ اپنی شرمگاہ کی حفاظت کرو.

پیارے پاکستانیو…!
قرآن کریم اور سنت نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ جھوٹ بہت بڑا گناہ ہے ،جو انسان کو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بہت دور کردیتا ہے۔ اور یہی وجہ ہے کہ دین و دنیا کے لئے جھوٹ سراسر نقصان اور خسارے کا سودا ہے۔ لہٰذا ہمیں سوچنا چاہئے کہ یہ زندگی چند روزہ ہے ،آخر ایک نہ ایک دن یہاں سے جانا پڑے گا ، پھر ہمارے بولے ہوئے جھوٹ ہمارے کسی کام نہ آئیں گے۔

اس لئے آپ زندگی میں جس مقام پر بھی ہیں ، جس بھی پیشے اور شعبے سے منسلک ہیں آپ اسے جھوٹ کی آمیزش سے پاک کر لیں . اور آج بلکہ ابھی سے جھوٹ بولنے سے توبہ کر لیں۔ اپنے اللہ سے پکا وعدہ کر لیں کہ زندگی بھر جھوٹ کی راہ اختیار نہیں کریں گے. اور آپ دیکھیں گے کہ اس کا ثمر آپ کو فوراً ملنا شروع ہو جاۓ گا۔

آپ کے ہر کام میں برکت ہو گی اور سب سے بڑھ کر آپ کو اطمینان قلب حاصل ہو گا. ایک ایسا سکون اور چین جو نہ صرف آپ کو بہت ہلکا پھلکا کر دے گا بلکہ آپ کی زندگی کو آسانیوں اور شادمانیوں سے بھر کر رکھ دے گا۔

کام تو آسان نہیں ہے مگر بہت زیادہ مشکل بھی نہیں ہے. آپ آج اور اسی وقت جھوٹ سے توبہ کریں اور سچ بولنے اور سچ پر زندگی گزارنے کا ارادہ کریں بلکہ دوسروں کو بھی اس بات کی تلقین اور نصیحت کریں۔ انشاءاللہ آپ کا کریم و حلیم رب آپ کے لیے اسے نہایت آسان کر دے گا …!!!


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں