تزئین حسن، اردو کالم نگار

دین دار گھرانوں میں‌ پڑھی لکھی بیوی سے نوکروں جیسا سلوک

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

تزئین حسن:
پچھلے دنوں جماعت اسلامی سے تعلق رکھنے والی ایک معروف سینئیر لکھاری نے رابطہ کیا۔ پاکستانی معاشرے اور بیرون ملک مقیم پاکستانی کمیونٹیز پرگہری نظر رکھنے والی ان بہت محترم خاتون کا کہنا تھا کہ وہ اپنے ارد گرد ایسے متعدد پڑھے لکھے خاندانوں کو جانتی ہیں جہاں شوہر گھر کے اندر اپنی پڑھی لکھی بیوی سے نوکروں سے بد تر سلوک کرتے ہیں۔

چھوٹی چھوٹی باتوں پر بچوں کے سامنے بیوی کو بے عزت کیا جاتا ہے۔ اس کی عزت نفس کو پامال کیا جاتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ وہ ایسے کٹر مذہبی لوگوں سے بھی واقف ہیں جو دین کا نام لیکر اپنی بیویوں کے حقوق سلب کرتے ہیں اور خود غیر اسلامی افعال کو اپنے لئے جائز سمجھتے ہیں۔ اسلام میں شوہر کے حقوق یاد دلا کر شادی کی پہلی رات ہی مہر معاف کروا لیا جاتا ہے (کیا واقعی شوہر کی اطاعت کو بہانہ بنا کرمہر معاف کروا لینا دینی لحاظ سے جائز ہے؟)

بیوی سے خوش گوار گفتگو یا محبت کے اظہار نہ کرنے میں کوئی شرعی قباحت محسوس نہیں کی جاتی لیکن خود گھر آنے والی عقیدت مند خواتین سے ہنس ہنس کر باتیں کی جاتی ہیں۔ بیوی کو دین کے نام پر گھر سے باہر جانے کی اجازت نہیں ہوتی۔ اسے پردے کی خلاف ورزی کو بہانہ بنا کر مخلوط دعوتوں اور شادیوں میں نہیں لے جایا جاتا لیکن انہی دعوتوں میں خود شرکت کی جاتی ہے۔

اس کے ساتھ ساتھ طعنے تشنے بھی جاری رہتے ہیں اور دین میں شوہر کے حقوق کی تکرار پر مبنی دروس بھی۔ بیوی سے یہ توقع بھی رکھی جاتی ہے کہ وہ روبوٹ کی طرح صبح سے شام تک ہر طرح کی خدمت بھی کرے اوران سے محبت کا فریضہ بھی انجام دے۔ آخر میں خاتون لکھاری کا استفسار تھا کہ ایسے حالات میں بیوی کے دل میں محبت کیسے رہ سکتی ہے؟

یہ صحیح ہے کہ یہ رویہ دین کی وجہ سے نہیں بلکہ دین کے باوجود ہے لیکن کیا یہ صحیح نہیں کہ دین کے نام پر ہی روا رکھا جاتا ہے اور دین کے نام لیوا اسے دیکھ کر خاموش رہتے ہیں؟

اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی حقیقت ہے کہ ایسے روئیے کے خلاف معاشرے میں کوئی رد عمل موجود نہیں بلکہ اسے نارمل سمجھ کر نظر انداز کیا جاتا ہے۔ کہیں شوہر کا دینی حق، کہیں میاں بیوی کا آپس کا معاملہ سمجھ کر ان معاملات کو نظر انداز کیا جاتا ہے۔ کہیں بچوں کا مستقبل یاد دلا کر بیوی کو صبر کی تلقین کی جاتی ہے۔

ازدواجی معاملات میں خواتین کوبہت نصیحتیں کی جاتی ہیں لیکن شوہر کواس کی غلطیوں کا احساس دلانے کا معاشرے میں کوئی رواج نہیں اور اس سارے معاملے میں دین کے نمائندوں کو دینی شعائر کی خلاف ورزی نظر آتی ہے نہ ہی معاشرے میں برائی پنپتی ہوئی نہ ہی معاشرتی انصاف کی عدم موجودگی عذاب کا پیش خیمہ محسوس ہوتی۔

یہ بات بھی مسلسل دہرائی جاتی ہے کہ اسلام نے عورت کتنا بڑا مقام دیا کہ ماں کے پیروں تلے جنت رکھی گئی لیکن اپنے بچوں کی جنت کو طعنوں، تشنوں، برے سلوک کا نشانہ بنانے کو نمازی پرہیزگار دیندار افراد بھی اپنا حق سمجھتے ہیں۔

تعجب کی بات یہ نہیں کہ معاشرے میں ایسے لوگ موجود ہیں، ستم ظریفی یہ ہے کہ بہ حیثیت مجموعی معاشرہ کو شوہر کے اس طرز عمل میں کوئی دینی اور دنیاوی قباحت نظر نہیں آتی۔


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں