تزئین حسن، پاکستانی نژاد کینیڈین صحافی، تجزیہ نگار

”روایتوں کو چیلنج کرنا امی ابو دونوں کی تعلیمات تھیں“

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

ہارورڈ یونیورسٹی سے نمایاں اعزاز حاصل کرنے والی پاکستانی نژاد طالبہ، تجزیہ نگار اور صحافی تزئین حسن سے انٹرویو

انٹرویو/ صائمہ اسما :

محترمہ تزئین حسن نے اس سال ہارورڈ یونیورسٹی سے صحافت میں ماسٹرزامتیازی اعزاز کے ساتھ مکمل کیا۔
ان کا نام ان بارہ نمایاں طلبہ میں شامل تھا جن کے کام کا تذکرہ خصوصی طور پر مستقبل اور موجودہ طلبہ کے لئے مثال کے طور پر کانووکیشن کے موقع پر کیا گیا۔ زیرنظر انٹرویو محترمہ صائمہ اسما نے کیا۔

محترمہ تزئین حسن کا یہ انٹرویو بتاتا ہے کہ کس ماحول میں پرورش پاکر لوگ بڑے اور باصلاحیت بنتے ہیں۔ انھوں‌نے نہایت خوبصورت اور پرتاثیر انداز میں پاکستانی قوم اور امت کے اصل مسئلہ کی نشان دہی کی اور اس کا حل بھی بتایا۔ اس انٹرویو میں ایک فرد اور ایک قوم، دونوں کے لئے بہت سے اسباق موجود ہیں:

کامیابی پر آپ کے احساسات کیا ہیں؟

” گریجویشن بلاشبہ میرے علمی سفر کا ایک اہم سنگ میل تھا، جس کا میں شدت سے انتظار کر رہی تھی۔ مگر ڈین لسٹ نام آنا یعنی کانووکشن کے موقع پر میرے کام کا تذکرہ بہت بڑا اعزاز ہے۔ سچی بات ہے، میں نے خواب میں بھی یہ نہیں سوچا تھا۔ اس لئے بہت زیادہ خوشی کا احساس ہوا۔ بلا شبہ یہ اللہ ہی کی مہربانی ہے۔ مجھے جس ای میل کے ذریعے ہارورڈ اسپاٹ لائٹ کے اعزاز کی اطلاع دی گئی اس کے مطابق

” ہم ہر سال ان گریجویٹس کو ماڈل بناتے ہیں جو غیر معمولی وسیع اور گہرا تجربہ لے کر ہارورڈ آتے ہیں۔ یہ منتخب گریجویٹ ہمارے موجودہ اور مستقبل کے طلبہ کا جذبہ بڑھانے کے لئے حقیقی زندگی سے ایسی مثالوں کی حیثیت رکھتے ہیں جنہوں نے اپنے مقصد کو حاصل کرنے کے لئے رکاوٹیں توڑیں اورقربانیاں دیں۔ یہ اعزازحاصل کرنے پر ہم آپ کو مبارکباد دیتے ہیں۔“

” یہ سطریں صرف میرے لئے نہیں بلکہ میرے ملک اور ہراس ادارے اور فرد کے لئے اعزاز ہے جس سے میرا تعلق رہا ہے۔ ہارورڈ سے ماسٹرز مکمل کرنے میں شاید میری محنت کا کوئی دخل ہو لیکن ہارورڈ کی ویب سائٹ پر میرے انٹرویوکی اشاعت اللہ کے فضل اور والدین کی دعاؤں کے بغیر ممکن نہیں تھا۔ “

ایں سعادت بزور بازو نیست
تا نہ بخشد خدائے بخشندہ

” پروردگار کی بہت شکر گزار ہوں اور آگے کے سفر میں ہدایت کی طلب گار۔ اللہ نے اگر کوئی صلاحیت دی ہے تو وہ سیدھے راستے پر رکھ کر اپنے کام میں ہی استعمال کروالے۔ یہ سب ظاہری کامیابیاں ہیں، اصل کامیابی یہی ہے کہ ہماری حقیر کوششوں کو اللہ قبول کرلے اور ان میں برکت ڈال دے اور معاشرے میں مثبت تبدیلی کا با عث بنا دے ۔ ربّنا تقبّل منا۔ “

اس سفر میں اپنی کامیابی کا کریڈٹ کس کودیتی ہیں؟

” سب سے پہلے تو اللہ تعالیٰ کو جنہوں نے سب کچھ پلان کیا۔ اگر میں اپنی زندگی پلان کرتی تو ٹیلی کام میں پی ایچ ڈی کے بعد کسی انجینئرنگ یونیورسٹی میں پڑھا رہی ہوتی۔ میں شعوری طور پر یہ محسوس کرتی ہوں کہ ایک ٹیکنولوجسٹ کے مقابلے میں ایک صحافی اور لکھاری کے طور پر میں امت کے لئے زیادہ مؤثر طور پر کام کر سکتی ہوں۔ ہمیں اس شعبے میں با صلاحیت اور محنتی لوگوں کی بہت ضرورت ہے۔“

تزئین حسن والدین کےساتھ

” الله کے بعد بلاشبہ اس کامیابی کا سب سے زیادہ کریڈٹ میرے والدین کو جاتا ہے جنہوں نے دین اور علم سے محبت کی بنیاد ڈالی کیونکہ میرے کام کے پیچھے ہمیشہ یہی دو قوتیں غالب رہیں۔ اس کے بعد میرے شریک حیات جنہوں نے شادی کے بعد سے اب تک ہرطرح سے میری علمی اور فکری سرگرمیوں میں تعاون کیا۔ اپنے بچوں کی جنہوں نے اپنی تعلیمی مصروفیات سے وقت نکال کر کچن اورگھرکی ذمہ داریوں اور پڑھائی میں بھی میری مدد کی۔“

” یہ پیچیدہ سفرتھا اور اس مرحلے پر مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ صرف ماسٹرز کی تعلیم پرمحیط نہیں تھا۔ میں نے بچپن سے لے کر آج تک جو کچھ سیکھا، جوعلم حاصل کیا، جن کتابوں کو پڑھا، جن رویوں کا مشاہدہ کیا، جو تجربات حاصل کیے، جو مشکلات اور رکاوٹیں عبور کیں، جن مخالفتوں کا سامنا کیا اور جو دعائیں کیں وہ سب اس سفر میں شامل تھیں ۔ “

” میری پھوپھو بتاتی تھیں کہ میری دادی کی جس وقت شادی ہوئی وہ پڑھنا لکھنا نہیں جانتی تھیں۔ میرے دادا کی پہلی مرحومہ بیگم کے بچے اسکول سے آتے تو دادی ان سے سبق لیتیں یعنی اپنی سوتیلی اولاد کو انہوں نے سیکھنے کا ذریعہ بنایا۔ میری والدہ بتاتی ہیں کہ پچھتر سال کی عمر میں جب دادی کا انتقال ہوا تو ان کا یہی شوق تھا کہ وہ فارغ وقت میں رسائل کا مطالعہ کرتیں۔ کبھی کبھی ایسا محسوس ہوتا ہے کہ میرے اپنے حصول علم کا سفر بھی اس وقت شروع ہوا جب میری دادی نے اپنی خواندگی کے لئے کوششیں شروع کیں ۔ “

” بیسویں صدی کی تیسری چوتھی دھائی میں انڈیا سے حج پر جانے والے مرد بھی انگلیوں پر گنے جاتے تھے۔ دادا جب دوسرے حج پر جانے لگے تو دادی نے کہا میں بھی ساتھ چلوں گی، میں نے گھر کے خرچ سے پیسے جوڑے ہیں۔ سب سے چھوٹے دودھ پیتے بیٹے کو ساتھ لیا اور باقی بچوں کو اپنی بہن کے گھر چھوڑا۔ مجھے آج بھی سفر کے حوالے سے اپنے رویہ میں اپنی دادی کی جھلک نظر آتی ہے۔ “

” کچھ اور لوگوں کا تذکرہ بھی یقیناً ضروری ہے۔ میرے مرحوم ماموں ظفر سلمان نے مجھے چار سال کی عمر میں ” بانگ درا “ تحفے میں دی، بہت چھوٹی عمر سے ابو اور امی دونوں گاہے بگاہے مجھے کلام اقبال مطالب کے ساتھ سناتے تھے۔ کبھی اے نوجواں مسلم تدبر بھی کیا تو نے، یارب دل مسلم کو وہ زندہ تمنا دے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ بچپن ہی سے دل میں آگ لگ گئی تھی۔ آٹھ سال کی عمرمیں ماموں جو سعودی عرب میں رہتے تھے پاکستان آئے تو مجھ سے کلام اقبال سنتے۔ ان کی پڑھائی ہوئی ایک فارسی ہدی (شاعری کی ایک صنف جس میں صحرائی سفر کے دوران اونٹوں پر سوار قافلے گیت گاتے ہیں)

تیز ترک گامزن منزل ما دور نیست

مجھے آج تک یاد ہے۔ میرے پھوپھا کہیں بھی جاتے میرے لئے کتابیں لانا نہیں بھولتے تھے۔ میرے نانا جنہوں نے مجھے قران پڑھایا۔ قران پڑھنے والی میری پہلی استاد رابعہ آپا، میرے چچا جن کی لائی ہوئی پاکٹ کہانیاں وہ اولین کتابیں تھیں جو میں نے پڑھیں۔ “

”اب یہ لوگ دنیا میں نہیں لیکن ان سب لوگوں نے بے انتہا محبت اور لگن کے ساتھ میری ذہنی تربیت میں حصہ لیا۔ دیگر کتنے ہی عزیز جنہوں نے بچپن سے میرے رحجان کو بھانپ کر میری حوصلہ افزائی کی۔ کتنے ہی مصنفین جن کی کتابوں نے علم و حکمت کے موتیوں سے نوازا۔ “

” اس موقع پر ڈائجسٹ لٹریچر، کرمے فکشن، ڈرامے اور فلمیں کا بھی تذکرہ کرنا چاہوں گو جنہوں نے حقیقتوں کو نئے زاویوں سے دکھایا اور inspiration کا با عث بنیں۔ قلیل تعداد میں سہی، لیکن میرے وہ دوست (جن میں ایڈیٹرز بھی سرفہرست ہیں) جنہوں نے ایسے بیانیہ پر بھی میرا ساتھ نہیں چھوڑا جو دنیا کے لئے قابل قبول نہیں تھا۔ میں ان سب مساعی کا مرکب ہوں، اس لئے اس کامیابی کا کریڈٹ میں اکیلے نہیں لے سکتی ۔“

حالات زندگی، شادی، بچوں کے بارے میں کچھ بتائیں؟

” میں نے حیدرآباد سندھ کے ایک متوسط گھرانے میں آنکھ کھولی۔ ہم چار بہنیں ہیں اور میرا نمبر دوسرا ہے۔ امی ابو دونوں نے اپنے بچپن میں بالترتیب بھوپال اور جودھپور انڈیا سے ہجرت کی تھی۔ ابو یونیورسٹی میں فلسفہ کے پروفیسرتھے اور دو کتابوں کے مصنف تھے۔ اسکولنگ برٹش راج کے زمانے کے ایک کیتھولک کانونٹ میں ہوئی جسے بھٹو کے زمانے میں نیشنلائز کر لیا گیا تھا۔ انٹرتک تعلیم حیدرآباد میں ہی حاصل کی۔ “

” اس کے بعد ماموں اور نانا کے اصرار پر کراچی سے انجینئرنگ کی. اس دوران ایک پولی ٹیکنک ادارے میں اور بعد ازاں دو انجینرنگ یونیورسٹیز میں مختصر عرصے تدریس بھی کی۔ مجھے اس بات پر فخر محسوس ہوتا ہے کہ پرائمری اسکول سے لیکر انجینئرنگ اور بزنس کے اعلیٰ ترین اداروں میں تدریس کا موقع ملا۔ “

” کچھ عرصے آئی ٹی کنسلٹینسی اور کارپوریٹ ایجوکیشن کا ذاتی بزنس بھی کیا۔ اس دوران ورلڈ بینک کے منصوبوں کے اسٹاف کی ٹریننگ پروجیکٹ آزادانہ طور پر ڈیزائن کرنے اور اپنی نگرانی میں مکمل کروانے کا بھی اللہ نے موقع دیا۔ میں سمجھتی ہوں ان تمام تجربات سے کچھ ٹرانسفر ایبل اسکلز حاصل ہوئیں یعنی ایسی اسکلز جو دوسرے شعبوں میں بھی کارآمد ہو سکتی ہیں۔“

شریک حیات کے ساتھ

” شادی مکمل ارینج تھی۔ حسن ڈاکٹر تھے اور چیسٹ میڈیسن میں اسپیشلائزیشن تھی۔ ہم نے شادی کے بعد ہی ایک دوسرے کو دیکھا۔ شادی کے بعد جیسا کہ ہوتا ہے، سسرال میں میری زندگی مکمل طور پر تبدیل ہو گئی۔ میرے گھر کے برعکس سسرال کا ماحول بہت روایتی تھا لیکن میرے سسر بہت ویژن والے انسان تھے۔ انہوں نے بیٹوں کے ساتھ ساتھ بیٹیوں کو بھی بہترین تعلیم دلا کر اپنے پیروں پر کھڑا کیا۔ “

” ایک حادثہ یہ ہوا کہ شادی کے بعد اچانک بلا ارادہ ان سے عشق ہوگیا۔ ان کی پسند کے کھانے بنانے سیکھے اور بہت جلد سیکھے، میک اپ کی بھی کلاسز لیں، انہیں روایتی کھانوں کے ساتھ چائنیز اور کانٹیننٹل فوڈ بھی پسند تھا۔ اسی زمانے میں نیشنل فوڈز کے ایک کھانا بنانے کے مقابلے میں چائنیز رائس پر دوسرا انعام حاصل کیا۔ بعد ازاں اے آر وائی کے مارننگ شو میں بھی ایک کوکنگ کمپیٹیشن میں پہلا انعام حاصل کیا۔ “

” الحمدللہ میرے شریک حیات کی ترجیح بھی پڑھائی کا شوق رکھنے والی لڑکی ہی تھی۔ میرے کیرئیر کو پہلا بریک اس وقت لگا جب پہلی بیٹی پیدا ہوئی۔ لوگوں نے کہا کہ اپنا کیرئیر کیوں خراب کرتی ہو؟ ڈے کئیر کس لئے ہوتے ہیں مگر اس وقت سوچا ، کیا قدرت نے یہ قیمتی پروڈکٹ ڈے کئیر کے لئے لانچ کروائی ہے ؟ اگلے تین سال میں اللہ نے تین سیزیرین آپریشنز سے تین بیٹیاں دیں جو قدرت کا بہت قیمتی سرمایہ محسوس ہوتی ہیں۔“

تزئین حسن

” پہلی بیٹی پانچ سال کی ہوئی تو آئی بی اے انسٹیٹیوٹ آف بزنس ایڈمنسٹریشن، کراچی میں ٹیلی کمیونیکیشن کی تحقیق اور تدریس کا موقع ملا لیکن ابھی تین سیمسٹر ہوئے تھے کہ شوہر نامدار کو سعودی منسٹری آف ہیلتھ میں ایک اچھی آفر ہوئی۔ حسن کا کہنا تھا پہلے تم اپنی تحقیق مکمل کرو پھر چلیں گے لیکن حجاز میں رہائش میری دیرینہ خواہش تھی اور مجھے لگا بچے اس وقت چھوٹے ہیں تو وہاں کچھ سال گزارنا بچوں کے لئے اچھا ثابت ہو گا۔ “

” وہاں جس شہر میں ہم رہے وہاں کوئی انگلش یا اردو میڈیم اسکول نہیں تھا۔ یہ بڑا چیلنج تھا تو ہوم اسکولنگ شروع کی۔ لوگ ڈراتے تھے کہ آپ کے بچے جاہل رہ جائیں گے مگر مجھے اعتماد تھا۔ الحمدللہ جب کینیڈا آ کر بڑی بیٹی پہلے دن اسکول گئی تو ہسٹری کے ٹیسٹ میں چوبیس میں سے پچیس نمبر آئے۔ پوچھا کیسے؟ تو کہنے لگی ایک بونس سوال تھا جو اور کوئی نہ کر سکا۔ الحمدللہ میرٹ پر کینیڈا کی بیسٹ اکیڈمک رینکنگ کے اسکول میں بیٹیوں کا ایڈمشن ہوا۔ دو بڑی بیٹیاں یونیورسٹی کے پہلے سال میں ہیں۔ چھوٹی ابھی ہائی اسکول میں ہے۔ “

” شمالی امریکا منتقل ہونے کے بعد 2015 میں، ہارورڈ کیمپس میں ایک سیمسٹر گزارا اور باقاعدہ ڈگری پروگرام میں ایڈمشن کے بعد کوئی چار سال میں ڈگری مکمل کی۔ اتنا وقت لینے کی ایک وجہ تو گھریلو ذمہ داریاں تھیں، دوسری وجہ یہ تھی کہ میں اس تمام عرصے میں مسلسل مختلف اخبارات اور رسائل میں سنجیدگی سے لکھتی رہی۔ الحمدللہ جنوبی ایشیا، مشرق وسطیٰ اور شمالی امریکا تینوں خطوں کے میڈیا میں اپنا حصہ ڈالا اور بہت مختلف النوع موضوعات پر ایک ساتھ کام کیا۔ کینیڈا میں امیگرنٹ تجربے پر ایک مجموعے کی تصنیف میں حصہ لیا جو ٹورنٹو سے شائع ہوا۔ “

یہ بھی کہنا چاہوں گی کہ اس سفر میں لا تعداد مشکلات، رکاوٹیں، تلخ رویئے اور ناکامیاں بھی ہم رکاب رہیں مگر
یہ تو ہوتی ہیں تجھے اونچا اڑانے کے لئے

والدین کی تربیت میں کون سا عنصرغالب محسوس ہوتا ہے؟

” روایتوں کو چیلنج کرنا امی ابو دونوں کی تعلیمات تھیں۔ پھر سید مودودی کی تحریروں نے تو ذوق کو دو آتشہ کر دیا۔ والدہ بہت سیدھی سادھی گھریلو خاتون تھیں۔ ان کی سوچ گھسی پٹی نہ تھی۔ ارد گرد کے سماجی مسائل پر غور و فکر کی اہلیت تھی اور ہرمعاشرتی روایت کو اسلام کی کسوٹی پر پرکھتیں اور یہ اکثرکہتیں کہ ہماری سوچ ہندوؤں کے ساتھ رہنے کی وجہ سے ایسی ہو گئی ہے۔“

” اسلام کی حقانیت کا شعور انھوں نے اس طرح گھٹی میں ڈال دیا کہ ہمیشہ اسی عینک سے ہر نظریے کو دیکھنے کی عادت ہے۔ ایک اور چیز جو امی سے ورثے میں ملی، وہ یہ کہ جس چیز کو حق سمجھو، اس کے لئے آوازاٹھاؤ۔ قرآن پر سنجیدگی سے غور و فکر کا موقع ملا تو بار بار انصاف کی بات کرنے کا حکم نظر آتا ہے؛ چاہے اس کی زد اپنے والدین پر ہی کیوں نہ آتی ہو۔ اسی سبب نظریاتی طور پر میرے مسلک کے لوگ ناراض بھی ہو جاتے ہیں۔ میرے پیاروں کا اصرار یہ ہوتا ہے کہ دوسروں میں کوئی خرابی ہو تو اس کا ڈنکا پیٹا جائے لیکن اپنی نظریے کے ماننے والوں کی خرابیوں کی پردہ پوشی کی جائے۔ میرے نزدیک یہ بنی اسرائیل کا رویہ ہے، پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا نہیں ۔ “

” امی، ابو جتنی انٹلیکچوئل نہیں تھیں، پڑھنے کا بہت شوق تھا لیکن بی اے کے فوراً بعد شادی ہو گئی۔ انہیں ہم بہنوں کو اعلیٰ ترین تعلیم دلانے کا بہت شوق رہا۔ دوسرے مقصد کو حاصل کرنے کی لگن اور اس کے لئے انتھک محنت بھی انہی کا ورثہ ہے۔ مجھے ڈاکٹر بنانا چاہتی تھیں، مگرمجھے ہر روایتی چیز سے چڑ تھی۔ میری بے چین فطرت نے انجینرنگ کا انتخاب کیا تو تھوڑی رد و کد کے بعد مان گئیں۔ کبھی کبھی افسوس ہوتا ہے کہ محض اپنے آپ کو منوانے کے لئے بھیڑ چال میں آ کر انجینئرنگ کا انتخاب کر بیٹھی۔ انجینئرنگ کی تعلیم کے دوران اسلامی جمیعت طالبات کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا۔ سید مودودی اور تحریک اسلامی کے لٹریچر سے وہ کچھ سیکھنے کا موقع ملا جو آج بھی زاد راہ کی طرح ساتھ ہے۔“

” مجھے یاد نہیں امی نے سونے سے پہلے کبھی پریوں کی کہانیاں سنائی ہوں۔ وہ ہمیشہ ہندوستان پر مسلم دورحکومت اور تقسیم ہند کے قصے سناتیں۔ انڈین پارلیمنٹرین اور مصنف شسی تھرور کی کتاب کا آج کل بہت تذکرہ ہوتا ہے جس میں انھوں نے اعداد و شمار کے ساتھ ثابت کیا کہ انگریزوں نے ہندوستان کو کتنا لوٹا۔ یہ باتیں بغیر اعداد و شمار امی نے بچپن میں بتائیں، کس طرح بنگالی ململ بنانے والوں کے انگھوٹے کاٹ ڈالے گئے۔ بنگال کے مصنوعی قحط کے بارے میں بتایا۔ “

” ایک کہانی جو مجھے یاد ہے وہ ملک ٹوٹنے کی تھی کہ بنگلادیش کیسے بنا؟
گو امی کی حقیقتیں بہت سادہ ٹیکسٹ بک بیانیہ پر مشتمل ہوتیں مگر آج جب ان موضوعات پرکام کرتی ہوں تو احساس ہوتا ہے کہ بچپن میں ہی ان سے جذباتی طور پر جڑ چکی تھی۔ البتہ ایک صحافی کے طورپر غیر جانبداری اور توازن ترجیح رہتا ہے۔ گرمیوں کی ایک رات ایک مرتبہ چھت پر مجھے وائرلیس کے بارے میں بتایا کہ بغیر تار کے پیغام رسانی ممکن ہے۔ حساب کرنے کے اپنے اختراع کیے ہوئے کچھ ایسے انوکھے طریقے بچپن میں بتائے جو آج ریاضی کے الٹرا ماڈرن تعلیمی نظام کا حصہ سمجھے جاتے ہیں۔ ان طریقوں کی بدولت میری کوئیک میتھس اتنی اچھی تھی کہ میں ہمیشہ اینٹرینس ٹیسٹ میں ٹاپ کرتی رہی۔ “

” میرے والد کا رحجان بائیں بازو کی طرف تھا لیکن ان کے ذاتی نظریات سے قطع نظر انھوں نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی طرح ہر نظریے کو شک کی نظر سے دیکھ کر پرکھنے کا سبق دیا۔ علم کی محبت دل میں ڈالنے میں سب سے بڑا کردار انہی کا تھا۔ ہم نے انہیں ہمیشہ کتابیں پڑھتے دیکھا۔ ایک دفعہ مجھے کہا کہ کتابیں پڑھتے ہوئے سطور کے درمیان پڑھنے کی عادت ڈالو۔

Read Between the lines

یعنی ساتھ ساتھ تجزیہ کرتی رہو کہ مصنف جو کچھ کہہ رہا ہے وہ عقل اور دلیل کے معیار پر پورا اتر رہا ہے یا محض لفاظی اور جذباتیت ہے۔ شاید اسی لئے جب سید مودودی کو پڑھنے کا موقع ملا تو دلیل نے عقل کو چیلنج کیا اور اسلام شعوری طور پر قبول کیا۔ میرے انداز تحریر میں بھی شاید اس نصیحت کا اثر ہے۔ “

” اس کے ساتھ دوسرے کے جوتے میں اپنے پیر ڈال کر دیکھنے کی بھی تعلیم دی کہ مخالفین کے نظریات اور موقف کو ان کی نظر سے حقیقت پسندی کے ساتھ دیکھنے کی بھی کوشش کرو۔ رنگ ، نسل اور مذہب کی تفریق کے بغیر انسان کی عزت بھی انھوں نے سکھائی۔ کبھی نمبروں میں دلچسپی نہیں لی مگر اپنی علمی مصروفیت کے باوجود ویک ڈیز میں روز عصر سے مغرب تک ہمیں پڑھاتے۔ تاریخی حقائق کا بیک گراؤنڈ بتاتے، ہر چیز کا مطلب سمجھاتے۔ یہی وجہ تھی کہ کبھی رٹا نہیں لگایا اور نہ کبھی نمبروں پر توجہ رہی۔ بغیر سمجھے کوئی بات نہ کبھی لکھی نہ بولی۔ “

” دوسرا سبق یہ تھا کہ خود کو دوسرے کی جگہ رکھ کر دیکھو۔ اس نصیحت کا یہ اثر ہوا کہ کبھی اللہ کے بندوں سے نفرت نہیں کی چاہے، ان کا تعلق کسی بھی قوم یا مذہب سے ہو۔ سید مودودی نے شاید اسی چیز کو ایسے بیان کیا کہ نفرت مرض سے ہونی چاہیے مریض سے نہیں۔ “

” تاریخ سے شدید لگاؤ بھی ایسا لگتا ہے خون میں دوڑ رہا ہے۔ تاریخ سے محبت کا بیک گراؤنڈ بھی ابو کے سنائے ہوئے چھوٹے چھوٹے دلچسپ قصے رہے جو وہ غیر رسمی گفتگو میں سنا جاتے تھے۔ مجھے اپنی زندگی کی پہلی کہانی یاد ہے جو ابو نے مجھے چھوٹے کوٹھے پر ایک بان کے پلنگ پر لیٹ کر سنائی، وہ کہانی حضرت یوسف علیہ السلام کو کنویں میں ڈالنے سے متعلق تھی۔ ان کا فلسطین سے مصر پہنچنا اور بنی اسرائیل کو وہاں منتقل کروانا اور پھر حضرت موسیٰ کا سمندر کے راستے واپس بنی اسرائیل کو صحرائے سینا کے راستے فلسطین تک لانا انسانی تاریخ کا ایسا واقعہ ہے جو آج بھی قوموں کی زندگی پر اثر انداز ہو رہا ہے۔“

”ایک چھوٹے بچے کو اس کے والدین سے الگ کر کے کنویں میں ڈال دینے پر جو تکلیف اس تین سالہ ننھی بچی کو ہوئی اس کی پھانس آج بھی چبھتی ہوئی لگتی ہے۔ انصاف کے لئے آواز اٹھانا اور دائیں بائیں دیکھے بغیر حق کا ساتھ دینا میں نے امی سے سیکھا۔ سماجی نا انصافی اور تفریق کے رویوں پر ہمیشہ تکلیف بلکہ اذیت محسوس کی۔ “

بچپن کی کوئی خاص بات؟

” دیواروں اور چھتوں پر چڑھنے کا شوق رہا۔ شرارتیں بھی کیں مگر بہت زیادہ نہیں۔ حصول علم ہمیشہ ترجیح رہا اور جیسا کہ ہوتا ہے کتابی کیڑا سمجھی جاتی تھی، مذاق بھی بہت اڑتا تھا، اب بھی اڑتا ہے۔ یہ افسوس بھی دامن گیر رہا کہ دوسری بہنوں کی طرح میک اپ کرنا نہیں آتا، فیشن سینس نہیں ہے۔ ان چیزوں کے لئے والدہ کو مورد الزام ٹھہراتی رہی لیکن آج سوچتی ہوں کہ والدہ نے جو تحفے دئیے ان میں سب سے بڑا حصول علم کا شوق تھا۔ ایک وقت وہ بھی تھا جب اپنے آپ کو دنیا کے سانچے میں ڈھالنے کی کوشش کی، پھر تھک ہار کر چھوڑ دیا۔ “

” آنکھ اس دور میں کھولی تھی جب حصول علم کے ذرائع آج کی طرح میسر نہیں تھے۔ بہت سے سوالات دل میں پیدا ہوتے تھے جن کے جواب نہیں ملتے تھے، بہت تشنگی محسوس ہوتی تھی۔ بچپن میں ایک سوال بار بار دل میں پیدا ہوتا تھا کہ یہودی قوم جو یورپ کے گھیٹوز میں رہتی تھی اسے آج دنیا پرغلبہ کیسے حاصل ہے؟ انھوں نے کیسے طاقت حاصل کی؟ اسی طرح مسلمانوں کے علوم کی دنیا میں کارنامے پڑھتی تو یہ خیال پیدا ہوتا کہ ہم کب تک قرون وسطیٰ کے کارناموں پر فخر کرتے رہیں گے، یہ کب سوچیں گے کہ وہاں تک پہنچنے کا راستہ کیا تھا اورایسی کون سی غلطیاں ہیں جن کی وجہ سے آج ہم اس پستی اور ذلت کا شکار کیوں ہو گئے ہیں کہ
بت صنم خانوں میں کہتے ہیں مسلمان گئے

مجھے آج بھی بچپن کا وہ دور یاد ہے جب شعوری طور پر ” رب زدنی علماء “ کواپنی دعاؤں میں شامل کیا اور سچی بات ہے حضرت زکریا کی طرح پروردگار نے دعاؤں کے جواب میں کبھی مایوسی نہیں کیا۔ انٹرنیٹ کی آمد کے بعد پروردگار کا شکر لب پر جاری رہتا ہے کہ یہ دور نصیب کیا جب جس موضوع پر تجسس ہو معلومات چند کلکس کے فاصلے پر موجود ہوتی ہیں۔ “

” شمالی امریکا منتقل ہونے کا سب سے بڑا فائدہ یہاں کی لائبریریز سے استفادہ محسوس ہوتا ہے۔ یہ یہاں کی سب سے قیمتی سوغات ہے۔ ابن سینآ یاد آتے ہیں جنہوں نے طبیب کے طور پر اپنی خدمات کے معاوضے کے بجائے شاہی لائبریری سے استفادے کو ترجیح دی۔ “

انجینرنگ، بزنس اور ٹیلی کمیونیکیشن کے بعد اچانک صحافت کیسے؟

” حسن کی ملازمت ( اور اس سے زیادہ میرے شوق کے باعث) ہم شمالی سعودی عرب کے ساحلی شہر ضبا منتقل ہو گئے۔ مجھے یہ بات بہت پسند ہے کہ یہ علاقہ قرآن میں مذکور مدین کا حصہ تھا جہاں حضرت موسیٰ نے مصر سے ہجرت کے بعد سکونت اختیار کی۔ قریہ شعیب کے نام سے ایک بستی میری رہائش سے کوئی ڈیڑھ سو کلومیٹر شمال میں موجود ہے۔ یہاں مجھے مشرقی اور مغربی ماخذین دونوں سے خطے کی تاریخ تفصیل سے پڑھنے کا موقع ملا۔ “

” اس سے قبل شوق کے باوجود بزنس اور ٹیکنالوجی نے کبھی تاریخ کی سنجیدہ تعلیم کے قریب نہیں پھٹکنے دیا تھا۔ اب تاریخ کے گہوارے میں بیٹھ کر اس کے مطالعہ نے مجھے اندر سے تبدیل کر دیا۔ وہیں پہلی دفعہ سنجیدگی سے لکھنے کا آغاز کیا۔ عرب نیوز کے ایک اردو میگزین میں تاریخ اور سیاحت پر فیچر لکھنے سے فری لانسنگ شروع کی۔ مضامین چھپنا شروع ہوئے تو ایسا لگا کہ زندگی میں شاید کوئی کام اتنا اچھا نہیں لگا جتنا لکھنا اور لکھنے کے لئے تحقیق کرنا لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ بات بھی شدت سے محسوس ہوئی کہ اس میدان میں سیکھنے کی ضرورت ہے۔ “

مطالعہ کتاب کا گھر کے صحن میں

” اس وقت بچے اتنے چھوٹے تھے کہ صحافت کے لئے نئے سرے سے تعلیم تو نا ممکن سی بات لگتی تھی۔ پھر اتنا مشکل سے کمایا ہوا ٹیکنالوجی کیرئیر چھوڑنے کی بھی ہمت نہیں تھی۔ میں آئی بی اے سے چھٹی لے کر گئی تھی۔ یہ وہ دور تھا جب افغانستان اورعراق بری طرح تباہ ہو چکے تھے۔ مزید تباہی عرب بہار کی صورت میں جمہوریت کی بقا کے نام پر مغرب اپنی مرضی کے ممالک میں برپا کر رہا تھا اور ساتھ ساتھ مسلمانوں کو دہشت گرد ثابت کرنے کا سلسلہ بھی جاری تھا۔ مجھے شدت سے اس بات کا احساس بھی ہوتا تھا کہ آج کے دور میں تحریری جہاد کی بہت ضرورت ہے۔ مطالعہ کے دوران بعض موضوعات پر اپنے ذاتی خیالات شئیر کی خواہش پیدا ہوتی۔ اقبال کا شعر یاد آتا:

دیکھا ہے جو کچھ میں نے اوروں کو بھی دکھلا دے

سماجی، اور سیاسی اور عالمی سیاست کے حوالے سے دل میں ہمیشہ سے اضطراب تھا، مضبوط رائے ہوتی تھی مگر اظہار کی طاقت مفقود تھی۔ اپنا مدعا صفحہ قرطاس پر لانے کی اہلیت بہت کم تھی۔ ان چار سالوں کے دوران جب کعبہ کے قریب جانے کا موقع ملا ، اس کا غلاف پکڑ کر یہ دعا ضرور کی کہ اللہ جو کچھ دل میں ہے، اس کےمؤثر اظہار کا سلیقہ دیدے اور اگر کوئی صلاحیت دی ہے تو اسے امت کی بھلائی کے لئے استعمال کروا لے۔ “

” کینیڈا منتقلی کے بعد مجھے پہلے ہی سال ایک عالمی آن لائن اخبار میں لکھنے کا موقع ملا جسے برطانیہ کے کچھ جرنلزم طلبہ کامیابی سے چلا رہے تھے اور پوری دنیا میں ان کا نیٹ ورک تھا۔ میرا رضاکارانہ تقرر مشرق وسطیٰ کے حوالے سے تھا مگر الیکٹرانک نیوز روم میں دنیا کے جس خطے کے بارے میں ایڈیٹر اسٹوری آئیڈیا ڈالتے، اسے میں جھپٹ لیتی۔“

” اگلے تین مہینے میں میں نے پانچوں براعظموں کے بارے میں کوئی 80 نیوز اسٹوریز اور فیچر لکھے۔ ہر اسٹوری کے لئے متعلقہ موضوع پر ریسرچ کرنا ہوتی۔ اسی دوران شام اورعراق میں داعش اور انتہا پسند گروپوں کے پھیلاؤ، شامی مہاجرین، مصر میں اخوان پر مظالم، فلسطین، عرب بہار کے نتیجے میں پیدا ہونے والی صورتحال، افغانستان میں نیٹو آپریشن کے خاتمے، چارلی ہیبڈو اور آرمی پبلک اسکول پر حملے پر اور بیشمار دوسرے موضوعات پر لکھنے کا موقع ملا۔ “

” مجھے اعتراف ہے کہ محنتی ہونے کے باوجود میں اس وقت میں صحافتی اخلاقیات کے بارے میں کم جانتی تھی۔ سیکھنے کی خواہش فطری تھی۔ سیکھنے کا یہ سفر آج تک جاری اور آخری سانس تک جاری رہے گا۔ اصل میں تو یہ الله کی پلاننگ تھی۔ اسی نے راستے دکھائے اور ہارورڈ تک پہنچا دیا۔ “

اپنی صحافتی زندگی کا کوئی دلچسپ واقعہ بتائیں؟

” شاید سب سے زیادہ دلچسپ مرحلہ ایغور قوم پر چینی مظالم کو کور کرنے کی کہانی ہے جو آج تک جاری ہے۔ والدین کی دعاؤں کے علاوہ میری اس کامیابی میں ایغور بھائی بہنوں کی دعاؤں نے بھی یقیناً حصہ ڈالا ہے جو اپنے ساتھ ہونے والے ظلم پر، امت مسلمہ کی بے حسی پر بہت تکلیف محسوس کرتے ہیں۔ میں نے ستمبر 2018 میں اس موضوع پر ریسرچ شروع کی تھی۔ میرے والد ٹانگ کے آپریشن کے باعث یونیورسٹی آف البرٹا ہسپتال میں قریب ایک مہینہ ایڈمٹ رہے میں ان کے ساتھ تھی۔ مجھے یاد ہے میں تیمارداروں کے مخصوص کمرے میں کلاسز اور ٹیچرز کے ساتھ آن لائن میٹنگز اٹینڈ کرتی، رات کے وقت میں ہاسپٹل کے لاؤنج میں اپنے اسائنمنٹس کرتی۔ “

” ایک فیس بک لائیو سیشن بھی ہاسپٹل کے ایک خالی ہال میں رات کے وقت کیا، وہیں ایغور بھائیوں پر چینی مظالم کے بارے میں پہلا مضمون تحریر کیا۔ کچھ لوگوں نے کہا یہ پاکستان میں چھپے گا نہیں۔ یہاں چین کے بارے میں سنسر بہت سخت ہے لیکن ایکسپریس کے سینئر ایڈیٹر عبید اللہ عابد بھائی کا شکریہ کہ انھوں نے چھاپ دیا۔ میں اس سے قبل کشمیر، فلسطین، روہنگیا، اور شام کے مسلمانوں پر بھی لکھتی رہی تھی لیکن میں نے محسوس کیا کہ دیگر موضوعات پر مسلم دنیا میں لکھنے والے بہت ہیں۔ ایغور معاملے پر سنسر کی وجہ سے معلومات کی کمی ہے، اور بوجوہ مصنفین لکھنا نہیں چاہتے۔ “

” ریسرچ رائٹنگ کے کورس میں فائنل پروجیکٹ میں نے ایغور مسئلے پر پروپوزل جمع کروایا تو ٹیچر راضی نہیں تھا کہ جب آپ وہاں موجود نہیں، جا نہیں سکتیں تو کیسے تحقیق کریں گی؟ میں نے صورتحال بتائی کہ جو لوگ وہاں جا بھی سکتے ہیں وہ بھی آزادانہ ایغور اور ترک نسل کے لوگوں سے بات نہیں کرسکتے۔ محض سرکاری دورہ کر کے ہی واپس آ جاتے ہیں۔ پروپوزل منظور کروانے کے لئے میں نے ٹیچر سے یہاں تک کہہ دیا کہ اگر وہ کم نمبر بھی دینا چاہے تو مجھے منظور ہے لیکن میں اپنی دلچسپی کے موضوع پر ہی کام کرنا چاہتی ہوں۔ “

” ٹیچر نے اجازت تو دے دی مگر مجھے اس کورس میں بے انتہا ریسرچ کے بعد بھی ” بی “ گریڈ ملا، جس کا کوئی افسوس نہیں۔ اس کے علاوہ کینیڈا اور بیرون ملک مقیم جن ایغور بھائی بہنوں، اور ایغور خواتین کے پاکستانی شوہروں سے انٹرویو کا موقع ملا ، انھیں ریسرچ پیپر میں شامل کرنے کی اجازت انھیں لاحق خطرات کی وجہ سے ہارورڈ کے ریسرچ بورڈ نے نہیں دی۔“

” کورس ختم ہونے کے دوران ہی بہت سے ایغور بھائی بہنوں سے میرا رابطہ ہو چکا تھا۔ اس سے اگلا مرحلہ فائنل کیپ اسٹون پروجیکٹ کا پروپوزل جمع کروانے کا تھا۔ میں نے ایغور نسل کشی کے حوالے سے پروپوزل جمع کروایا جو منظور ہو گیا۔ اس کورس میں مجھے براہ راست انٹرویو شدہ ڈیٹا ہی استعمال کرنا تھا۔ اسی رات امریکا میں مقیم ایک ایغور طالبہ سے بات ہوئی جس کے والد اور بھائی چینی کنسنٹریشن کیمپ جسے حکومت اصلاحی کیمپ کہتی ہے میں قید تھے۔ اس نے مشورہ دیا کہ اگرآپ تحقیق کے لئے سنجیدہ ہیں تو ترکی چلی جائیں وہاں بہت بڑی تعداد میں چینی مظالم سے بھاگے ہوئے ایغور پناہ گزین موجود ہیں۔ “

” بس اسی رات میں نے سیٹ بک کروالی۔ اگلا مرحلہ ترکی میں ایغور گھرانوں سے رابطہ تھا۔ ترجمان القران کے نائب ایڈیٹر سلیم منصور خالد بھائی اور عبدالغفار عزیز بھائی کو اللہ بہت خوش رکھے، ان کے تعاون سے استنبول میں موجود ایغور قیادت سے پہلے ہی رابطہ ہو چکا تھا۔ الحمدللہ سارے مرحلے اللہ نے آسان کر دیئے۔ یہاں تک کہ وہاں مترجمین کا انتظام بھی الله کرواتا رہا۔ استنبول کے دوعلاقوں زیتین برنو اور سفا کوئی کے علاوہ مرکزی ترکی کے شہر قیصری میں بھی انٹرویوز کا موقع ملا۔ “

” ایک دلچسپ واقعہ یہ ہوا کہ ایک دفعہ استنبول میں ایک افطار کی دعوت کے دوران ایک ایغور خاتون کو مجھ پر چینی جاسوس ہونے کا شک ہوگیا۔ وہاں موجود سب لوگ ایک دوسرے سے ایغورزبان میں بات چیت کر رہے تھے لیکن میں سمجھ گئی کہ گفتگو کا موضوع میں ہوں۔ مجھے دعوت میں لے جانے والی قازقستان سے تعلق رکھنے والی خاتون گلبہار جیلی لووا تھیں جنہوں نے خود بھی پندرہ مہینے چینی کیمپ کی صعوبتیں جھیلی تھیں۔ اسی صبح ان کا انٹرویو کیا تھا۔ “

” انٹرویو کے بعد مترجم نے مجھے بتایا کہ یہ آپ کو اپنے ساتھ لے جانا چاہتی ہیں تاکہ مزید ایغور لوگوں سے آپ کو ملوائیں لیکن مسئلہ یہ ہے کہ میں آپکے ساتھ نہیں جا سکتا اور کوئی مترجم نہیں ہو گا۔ میں نے کہا کوئی بات نہیں، اللہ انتظام کرے گا۔ افطار کے دوران جن خاتون سے میری گفتگو ٹوٹی پھوٹی انگلش میں ہوئی، وہ خود بڑی دکھی خاتون تھیں۔ انہیں ایک مرحلے پر یہ اشکال ہو گیا کہ میں پاکستانی ہوں اور پاکستان اور چین کی بہت دوستی ہے تو خدا نخواستہ ایسا تو نہیں کہ میں چینی جاسوس ہوں اور ان سے معلومات اکٹھی کرنے کے لئے بھیجی گئی ہوں۔ “

”چینی جاسوسی نیٹ ورک پوری دنیا میں بہت فعال ہے اور ایغور لوگ اس سے اس لئے ڈرتے ہیں کہ خدا نخواستہ سنکیانگ میں مقیم ان کے خاندانوں پر مزید آفت نہ آ جائے۔ میرے لئے فوری طور پر صورت حال بہت عجیب ہو گئی۔ ان خاتون نے مجھ سے سوال جواب کرنے کے بجائے فوری طور پر ہالینڈ میں مقیم ان ایغور بھائی سے بات کی جنہوں نے گلبہار سے میرا رابطہ کروایا تھا۔ “

” کافی دیر تک ان کے یقین دلانے کے باوجود خاتون مطمئن نہیں ہو پا رہی تھیں۔ وہ سنکیانگ میں رہ جانے والی اپنی بچی کے لئے بہت تشویش زدہ تھیں جس سے ان کا رابطہ دو سال سے ختم ہو گیا تھا لیکن آخر میں انھوں نے اور دیگر تمام افراد نے مجھ سے معذرت کی تو ایک صحافی کو معلومات اکٹھی کرنے کے لئے بسا اوقات ایسے حالات سے گزرنا پڑتا ہے۔“

” ایسا ہی ایک واقعہ مرکزی ترکی کے قیصری نام کے شہر میں ہوا۔ یہاں ترک حکومت نے تھائی لینڈ میں قید ایغور بھائیوں کی فیملیز کو ریڈ کراس کی مدد سے آزاد کروا کر بسا رکھا ہے۔ وہاں میری میزبان ایک ایسی چھبیس سالہ خاتون تھیں جن کا تیسرا بیٹا تھائی لینڈ کی جیل میں پیدا ہوا۔ ان کے شوہر سینکڑوں ایغور بھائیوں کی طرح اب بھی غیر قانونی طور پر سرحد پار کرنے کے جرم میں تھائی لینڈ میں قید تھے جو انھوں نے چینی مظالم سے بچنے اور اپنی اگلی نسلوں کو الحاد سے بچانے کے لئے کی۔ “

”اس کمپلیکس میں بڑی تعداد میں بچیاں اورعورتیں مقیم تھیں۔ اسی کمپلیکس کے ایک اپارٹمنٹ میں ایک صاحب نے مجھے کہا کہ ” اگر آپ ہم سے معلومات اکٹھی کر رہی ہیں تو آپ کے پاس ترک حکومت کا اجازت نامہ ہونا چاہیے۔ اس سے قبل یہاں ایک الجزیرہ کی صحافی بھی آئی تھیں لیکن ہم نے انہیں معلومات اکٹھا نہیں کرنے دی۔“

” مجھے معلوم تھا میں کوئی غیر قانونی کام نہیں کر رہی تھی لیکن صورتحال یہ تھی کہ دو دن پیشتر میں عفسوس کے کھنڈرات کے قریب سلجوق نامی شہر میں اپنا پرس کھو چکی تھی جس میں کیش، کریڈٹ کارڈ اور پاسپورٹ چلا گیا تھا اور میرے پاس فی الوقت کوئی شناختی دستاویز نہیں تھی۔ دیارغیر میں میرے لئے کوئی چھوٹی سی پیچیدگی خطرناک ثابت ہو سکتی تھی خصوصا ً اس صورت میں کہ اس شہر میں دور دور تک کوئی پاکستانی موجود نہیں تھا۔ “

” میں نے فوری طور پر مترجم کے ذریعے اپنی میزبان سے کہا کہ اگر آپ چاہیں تو میں اسی وقت یہاں سے نکل جاؤں۔ بس اسٹاپ قریب ہی تھا لیکن کسی پیچیدگی کی صورت میں رات زیادہ ہونے پر میرا وہاں سے نکلنا نا ممکن ہو جاتا۔ مترجم نے مجھے یقین دلایا کہ آپ یہاں محفوظ ہیں۔ اس کے باوجود کہ وہ میرے بارے میں شک کا شکار رہے، میرے میزبانوں نے مجھے انتہائی محبت سے مجھے رکھا۔ “

” ایک بچی کی محبت مجھے نہیں بھولتی جس نے مجھے میرے کپڑے نہیں دھونے دیئے، نہ ہی استری کرنے دیئے۔ وہیں ناشتے پر میری ملاقات ایسی چھے بہنوں سے ہوئی جن کے والدین انھیں ترکی چھوڑ گئے تھے۔ میرے استفسار پر کہ نو عمر بچیوں کو والدین کیوں چھوڑ گئے، ان کا کہنا تھا کہ ’ تاکہ ہم دین کا علم حاصل کر سکیں اور ہماری آئندہ نسلیں مسلمان رہ سکیں۔‘ چین کے زیر انتظام مقبوضہ مشرقی ترکستان (سنکیانگ) میں ایسا ممکن نہیں، اس لئے والدین نو عمر بچیوں تک کی جدائی برداشت کر لیتے ہیں۔ ہم پاکستان اور دنیا کے دوسرے حصوں میں مذہب پر عمل کی آزادی کو taken for granted لیتے ہیں۔ اس لئے ان کی تکلیف کا اندازہ نہیں کر سکتے۔ “

گھر، بچوں، پڑھائی اور صحافت میں توازن کیسے ممکن ہوا؟ بڑے ہوتے ہوئے بچوں کے ساتھ خود پڑھنے کا تجربہ کیسا لگا؟

” جہاں تک توازن کی بات ہے تو میں نے تین ترجیحات واضح کر لی تھیں: والدین، شوہر، بچے اور پڑھائی۔ اس عرصے میں، میں نے سوشل لائف کو اور شاپنگ وغیرہ کو ’ انتہائی ضروری‘ کی حد تک محدود کر لیا تھا بلکہ گھر سے بھی صرف ضرورت کے تحت نکلتی تھی۔ “

” میری والدہ اس دوران کئی مرتبہ ہاسپٹلز میں ایڈمٹ رہیں۔ ایسا بھی ہوا میں ان کے قریب بیٹھ کر پوری رات کمپیوٹر پر کام کرتی رہتی۔ وہ تکلیف میں ہوتیں۔ میں وقفے وقفے سے گرم پانی کی بوتل دیتی یا تیل کی مالش کرتی تو انھیں آرام آ جاتا اور وہ سو جاتیں۔ تکلیف کے باوجود میرے مضامین سن کر بہت خوش ہوتیں۔ ان کی دعائیں اس سفر میں بہت قیمتی رہیں۔ “

” میں نے سعودی عرب میں قیام کے دوران اپنے بچوں کو ہوم اسکولنگ کروائی تھی۔ یہ وقت جو بچوں کو دیا، یہ دو طرح سے ہارورڈ کی تعلیم کے دوران میرے بہت کام آیا۔ ایک تو یہ کہ کینیڈا آ کرجب بچوں نے اسکول جوائن کیا تو وہ اپنی تعلیم اور ذاتی ضرورتوں کے حوالے سے خود کفیل تھے۔ دوسرے یہ کہ ہوم اسکولنگ کی تعلیم زیادہ تر کچن یا گھر کے دوسرے کاموں کے دوران ہوتی تو اس کا ایک فائدہ یہ ہوا کہ بچے بہت جلد کوکنگ سیکھ گئے۔ “

” میں نے دس سال کی عمر تک چولہا جلانے پر پابندی لگائی تھی لیکن دیگر کاموں میں، میں نے شروع سے ان کی مدد لی۔ جس وقت میں پہلا سیمسٹر اٹینڈ کرنے امریکا گئی، الحمدللہ بڑی بیٹی جونیئر ہائی اسکول میں تھی۔ میری تقریباً روز بات ہوتی، لیکن مجھ سے کبھی یہ نہیں پوچھا گیا کہ فلاں چیز کہاں رکھی ہے یا گھر کا فلاں مسئلہ حل نہیں ہو رہا۔ “

” یہاں حسن کا تذکرہ بھی ضروری ہے، ویسے توانہوں نے ہمیشہ روایتی جنوبی ایشیا کے مرد بننے کی ایکٹنگ کی لیکن میرے ماسٹرز کے دوران خاموشی سے ہر ممکن تعاون کیا۔“

امت مسلمہ کے مستقبل کو کیسا دیکھتی ہیں؟

” ہمارا دنیا کو دیکھنے کا طریقہ یہ ہے کہ ہم مسلمان ہیں اور ہم بہت معصوم اور اچھے ہیں۔ اس لئے ساری دنیا ہمارے خلاف سازشیں کرتی ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ہر قوم دوسرے سے طاقت چھینے کی کوشش کرتی ہے لیکن کامیاب صرف وہ ہوتے ہیں جن کی کوششوں کے پیچھے تحقیق اور طویل المدت پلاننگ ہوتی ہے۔ “

” دنیا جذباتی باتوں سے نہیں چلتی کہ فلاں ہمارا دوست ہے، اس لئے اس کی ہر بات اچھی ہے۔ امریکا، روس، چین، اسرائیل کبھی ہمارے دوست نہیں ہو سکتے لیکن صرف انھیں برا بھلا کہہ کر ہم کیا حاصل کر رہے ہیں؟ مجھے تو بہت سوچ بچار کے بعد یہ بات سمجھ آئی ہے کہ جس چیز کو ہم یہودی اور مغربی سازش کہتے ہیں یہ در اصل ان کے ہاں تحقیق کی مضبوط روایت ہے۔ یہی راستہ چین اور بھارت نے اپنایا۔ یہی ہماری بھی بقا کا راستہ ہے جسے ہم اپنانے سے گریزاں ہیں۔ اس کی بات کی جائے تو ہمارے لوگ کہتے ہیں کہ یہ حکومت کا کام ہے۔ “

” میرا ماننا یہ ہے کہ حکومت تک بات پہنچنے سے پہلے کسی بھی قوم کی intellegensia یعنی دانشور طبقے کو اس چیز کا شعور ہونا چاہیے، جو اس کی اہمیت کو عوام میں منتقل کرتی ہے۔ میری رائے میں اصل تبدیلی حکومت سے نہیں ذہنوں کو تبدیل کرنے سے شروع ہوتی ہے اور یہ دانشور طبقے کا کام ہے جس میں علمی اشرافیہ، فکشن اور نان فکشن رائیٹر، فلم میکر، ڈرامہ رائیٹر، صحافی، مذہبی علماء اور مقریرین سب شامل ہیں جو کسی بھی قوم میں تبدیلی کا ہراول دستہ ہوتے ہیں۔ بد قسمتی سے ہمارے ہاں اس طبقے کو تحقیق کے عمل کی اہمیت کا اندازہ نہیں۔ “

” دوسرا ایک بہت اہم مسئلہ یہ ہے کہ ہم دنیا سے سیکھنے کو تیار نہیں۔ ہمارا خیال ہے باقی دنیا کے مقابلے میں ہم بہت عقل مند ہیں اور دنیا سے سیکھنے میں ایمان جانے کا خطرہ ہے۔ اپنے عروج کے زمانے میں ہم اس احساس کمتری کا شکار نہیں تھے۔ ہم نے یونانی، ایرانی، ہندوستانی، رومی، اور چینی ہر قوم سے علم کی دولت حاصل کی۔ اس کے بعد مغرب نے اس وقت ترقی کی جب انھوں نے بغیر احساس کمتری کے مسلمانوں کے مرتب کردہ علمی کام سے استفادہ کیا۔ کیا وہ ہمارے کام سے استفادے کے نتیجے میں مسلمان ہو گئے؟ “

” قائد اعظم اور علامہ اقبال دو مثالیں ہمارے پاس موجود ہیں جنہوں نے مغرب سے تحصیل علم کے بعد اپنے لوگوں کے لئے خلوص سے کام کیا لیکن ہم میں نہ مانوں پر اڑے ہوئے ہیں۔ تحقیق اور دور رس پلاننگ کے بغیر ہم اپنے بقا کی طاقت حاصل نہیں کر سکتے، چاہے کتنے ہی ایٹم بم بنا لیں اور دور رس طویل المدت پلاننگ اور تحقیق ہمیں ان قوموں سے سیکھنی ہوگی جو آج علمی دنیا کے امام ہیں ۔ “

” امت کی تنزلی کا رٹا رٹایا سبب یہ بتایا جاتا ہے کہ ایسا اس لئے ہے کہ قرآن پر عمل چھوڑ دیا ہے لیکن کون سا عمل ہے جو چھوڑا؟ میرا ایمان ہے کہ قران کے ہر دوسرے صفحے پر تخلیق کا ئنات کی نشانیوں میں غور و فکر کا حکم ، در اصل تحقیق کی تاکید ہے جسے ہم نے اجتماعی طور پر نظر انداز کیا ہوا ہے۔ ہم ان آیات کو سنجیدگی سے لینے پر تیار نہیں، اور یہی ہماری پستی کی وجہ ہے۔ “

ثریا نے زمین پر آسمان سے ہم کو دے مارا

اپنے عروج کے زمانے میں مسلمانوں کے ایک طبقے نے ان احکامات پر سنجیدگی سے عمل کیا اور اقتدار میں موجود طبقے نے ان کی سرکاری سرپرستی بھی کی لیکن جہاں سرکاری سرپرستی نہ بھی ہوئی وہاں بھی غیر سرکاری اداروں کا قیام پبلک فنڈنگ سے وجود میں لیا گیا جہاں علمی سرگرمیوں کی سرپرستی کی گئی۔ “

” مدرسوں کا پورا نیٹ ورک غیر سرکاری فنڈنگ سے چلایا جاتا تھا۔ ان مدرسوں کو آج کے مدرسوں کا جد امجد قرار دینا غلط ہے۔ وہاں تو یونان کی اقلیدس بھی پڑھائی جاتی تھی، حوالہ نہیں ہے مگر ابن سینا کے حوالے سے ایک واقعہ مجھے بہت پسند ہے کہ ریاضی اور میڈیسن کے بعد جب فلسفے کی تعلیم پر پہنچے تو ارسطو کے فلسفے کی چند گتھیاں انھیں سمجھ نہیں آتی تھیں۔ ان کی بے چینی اور تکلیف اتنی بڑھی کہ مسجد جا کر سجدے میں گر کر رو رو کر الله سے مدد مانگتے۔ “

” بالآخر ایک پرانی کتابوں کے اسٹال پر ارسطو کے فلسفے پر الفارابی کی لکھی ہوئی شرح نظر آئی، جسے پڑھ کر ان کا اشکال دور ہوا۔ سوچیں یہ عروج کے زمانے کے مسلمانوں کا رویہ تھا۔ البیرونی نے علم کی تلاش میں ہندوستان کا سفر کیا، سنسکرت زبان سیکھی۔ تلاس کی جنگ میں پکڑے گئے چینی قیدیوں سے کاغذ بنانا سیکھا۔“

” حضرت عمر نے عراقی انجنیئرز سے زمین کی پیمائش کے اصول دریافت کیے اور ان کی مہارت کی قدر کرتے ہوئے ان کی ملازمت پر برقرار رہا۔ بغداد میں بلا تفریق مذہب، رنگ اور نسل علماء کو اتنا نوازا گیا کہ ساری دنیا سے اہل علم کھنچ کر بغداد میں جمع ہو گئے۔ آج ہمارے قائدین جذباتی تقریریں کر کے قوم کو ٹرک کی بتی کے پیچھے لگا کر اندھوں کی طرح اپنے پیچھے چلا رہے ہیں۔ اور قوم اپنے اپنے لیڈر کی عقیدت میں ڈوب کر ایک کلٹ cult بنتی جا رہی ہے۔ آزادانہ سوچ کو نہ اسکول میں پروان چڑھایا جاتا ہے نہ مدرسے میں۔ “

” ایک اور جملہ تواتر کے ساتھ بولا جاتا ہے کہ ” فرض صرف دین کا علم ہوتا ہے۔“ ہمیں اس جملے نے تباہ کر دیا۔ یہ جملہ بولتے ہوئے دین کا جو تصور ہوتا ہے وہ چند ظاہری اعمال تک محدود ہوتا ہے، جبکہ دین پوری زندگی کا احاطہ کرتا ہے۔ یہ جملہ بولنے والے در اصل خود دین اور دنیا کو الگ الگ چیز سمجھتے ہیں۔ “

” سید مودودی، یوسف قرضاوی نے اس نظریے پر ضرب لگانے کی کوشش کی لیکن بہ حیثیت مجموعی مسلم دنیا جن طبقات کے نرغے میں ہے وہ اس چیز کو سمجھنے پر تیار نہیں۔ کیا دفاع کے لئے طاقت پکڑنے کی کوشش دین کا حصہ نہیں؟ روایتی ہتھیاروں کے علاوہ ، آج کی دنیا کے اصل ہتھیارعلم اور تحقیق ہیں۔ کوئی قوم ان کے بغیر اپنا دفاع نہیں کر سکتی۔ یہ بات ہمیں سمجھنا ہو گی۔ “

” ایسے لیڈران جو تحقیق کی ضرورت کا ویژن نہیں رکھتے، اپنے متبعین کو اس کے شعور سے دور رکھنے کا با عث ہوتے ہیں، وہ امت کی زبوں حالی کے سب سے زیادہ ذمہ دار ہیں۔ میرا ماننا ہے کہ دنیا کو تبدیل کرنے کے لئے، دنیا کو سمجھنا لازمی ہے اور دنیا کو سمجھنے کے لئے تحقیق لازمی ہے۔ یہی بات سید مودودی رحمۃ اللہ علیہ نے کہی کہ ہم دنیا کے امام بننے کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتے جب تک علم اور تحقیق کے امام نہ بن جائیں۔ “


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں