خلیل جبران

زندگی آمد برائے بندگی

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

کہانی: خلیل جبران
ترجمہ۔۔۔۔ مدثر محمود سالار
بلاشبہ انسانوں نے زندگی کو معبود بنا رکھا ہے،زندگی کی غلامی کرتے کرتے انسانوں کے دن ذلت اور بدبختی میں گھر گئے ہیں اور ان کی راتیں آنسو اور خون کے دریا میں غلطاں ہیں۔

گو کہ میری پہلی ولادت کو سات ہزار سال ہوچکے ہیں مگر ابھی تک مجھے ایک بھی ایسا انسان نہیں ملا جو زندگی کا پجاری اور نفس کا قیدی نہ ہو۔

میں نے مشرق سے مغرب ساری دنیا کا چپہ چپہ چھان مارا اور زندگی کے ہر رنگ کو ہر زمانے میں دیکھا، میں قوموں کے عروج و زوال اور عزت و ذلت کے ہر سفر کا شاہد ہوں۔

مگر افسوس اپنی اس ساری مسافتِ حیات میں، میں نے کوئی شخص ایسا نہیں دیکھا جس کی گردن غلامی کے طوق کی وجہ سے جھکی ہوئی نہ ہو، نہ کوئی ایسا فرد ملا جس کی کلائیاں زنجیروں سے جکڑی ہوئی نہ ہوں اور نہ کوئی ایسا انسان آج تک ملا جس کے گھٹنے بتوں کے سامنے جھکے رہنے سے چِھلے نہ ہوں۔

میں نے بابل سے پیرس اور نینوی سے نیویارک تک انسانوں کا پیچھا کیا، میں نے آثار قدیمہ کے اطراف بکھری ہوئی ریت پر انسانوں کے احوال منقش پائے۔
میں جنگلوں اور وادیوں میں قدیم نسلوں کی صدیوں سے محفوظ آوازیں سنتا آرہا ہوں۔

میں نے بڑے بڑے عظیم الشان محلوں میں بھی جاکر دیکھا ، میں نے خود کو بارہا عبادت گاہوں ، منبروں اور قربانی کے استھانوں کا مشاہدہ کرتے ہوئے پایا۔ پس میں نے دیکھا کہ مزدور نے تاجر کی غلامی اختیار کررکھی ہے اور تاجر شہر کے کوتوال کی پوجا کر رہا ہے۔ کوتوال نے اپنا سر حاکمِ شہر کے سامنے سجدہ ریز کیا ہوا اور حاکمِ شہر نے بادشاہِ مملکت کی بندگی اختیار کی ہوئی ہے۔

سونے پر سہاگہ کہ بادشاہ بھی غلامی اختیار کیے ہوئے ہے، بادشاہ نے کاہن کو معبود بنارکھا ہے اور کاہن نے بتوں کو خدا سمجھا ہوا ہے، اور کیا کہنے ان بتوں کے جو شیطانی جبلت سے معمور مٹی کے بنے ہوئے ہیں اور انہیں انسان نما مردہ ڈھانچوں پر نصب کر دیا گیا ہے۔

میں نے امیروں کے کوٹھیوں کی سیر کرکے دیکھا اور غریبوں کی کٹیا میں جاکر زندگی کی اونچ نیچ کا مشاہدہ کیا۔ چلتے چلتے میں نے قہوہ خانوں میں بھی رک کر قہقہے بکھیرتے چہروں کو بغور دیکھا اور نانبائی کے تندور کے گرد کھڑے عمر بھر کے تھکے ہوئے زندگی کے پجاریوں کو امید و یاس کے دھویں میں غرقاب دیکھا۔میں نے دیکھا کہ چھوٹے بچے دودھ کے ساتھ بندگی پی رہے ہیں اور غلامی ان کی رگوں میں ابتدا سے ہی دوڑنے لگی ہے۔

مدرسوں میں بچے حروف تہجی کے ساتھ ساتھ احساس کمتری کا سبق پڑھ رہے ہیں، بچیاں اور بچے نت نئے ملبوسات کے ساتھ اطاعت اور عاجزی کا لباس بھی پہننے لگے، اور خواتین نے گھروں کو بندگی اور اطاعت سے بھررکھا ہے۔

میں نے دیکھا
فرات کے ساحلوں سے نیل کے کنارے تک، جبلِ سینا سے روم کے کنیساوں تک، قسطنطنیہ کی تنگ گلیوں سے لندن کے چوباروں تک ہر طرف بندگی چھائی ہوئی ہے۔

غلامی نے جاہ و جلال کے ساتھ انسانوں کو مسحور کررکھا ہے، انسان اپنے بچوں اور بے کسوں کو غلامی کے بتوں کی بھینٹ چڑھا کر غلامی کو پروان چڑھارہے، دلچسپ بات تو یہ ہے کہ بےوقوف انسان زندگی کی غلامی اختیارکرکے زندگی کو ہی رب مانے ہوئے ہیں۔ اپنے ہاتھوں سے بھدے کریہہ الشکل بت تراش کر ان کی پوجا کرتے ہیں اور پھر انہی بتوں پر شراب اور خوشبو کے مٹکے بہاتے ہیں، اور ساتھ ساتھ ان بتوں کو اپنا مالک بھی پکارتے ہیں۔ پھر کئی لوگ تو ان بتوں کی دیکھ بھال کرنے والوں کو ہی اعلی و ارفع سمجھ کر ان کی محفل میں عود و بخور جلا کر ان کی تعظیم کرتے ہیں اور انہیں بھی اپنے بتوں کا منظور نظر سمجھ کر اپنا مالک و حاکم سمجھنے لگتے ہیں۔

ان پتھر کے اصنام کو سجدہ کرتے ہیں اور ان اصنام کے پنڈتوں کی کہی ہوئی باتوں کو شریعت بناکر معاشرے میں غلامی ہی کو ترویج دیتے ہیں۔ پھر ان بتوں اور پنڈتوں کی خاطر لڑائیاں کرتے ہیں، جنگ کرتے ہیں اور اپنے دل کو بہلانے کے لیے ان جنگوں کو وطنیت کی جنگ قرار دیتے ہیں۔

زمین کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک قتل و غارت گری کا طوفان برپا کرکے یہ انسان جب کسی شہر کو فتح کرلیتے ہیں تو ظل اللہ علی الارض کا نعرہ لگتے ہیں۔ مغلوب اقوام کے گھروں کو تہس نہس کرکے پھر ان ہی سے نام نہاد اخوت و مساوات کا رشتہ بھی بنالیتے ہیں۔

یہ بندگی قرنوں سے انسانوں کو وراثت میں ملتی آرہی ہے اور غلامی کی روح اپنے آباء و اجداد سے لیکر آگے اپنی اولاد میں وہی غلامی منتقل کرنا انسان کا مقبولِ عام پیشہ سمجھا جاسکتا ہے ، غلامی کو کاشتکاری کی طرح اپنی نسلوں میں بوتے جارہے ہیں۔

غلامی کی چند اقسام تو بہت ہی عجیب ہیں جیسے کہ
اندھی تقلید:اس غلامی میں انسان عصرِ حاضر میں رہتے ہوئے بھی اپنے آباء کا بتایا ہوا طریقہ اپنائے ہوئے ہے، ماضی کی خرافات اور رسومات کو سینے سے لگائے جہالت کی اندھا دھند تقلید کررہا ہے۔ گویا ان کے جسم تو نئے ہیں مگر اندر وہی بوسیدہ پرانی روحیں بھٹک رہی ہیں۔

خاموش غلامی: غلامی کی اس نوع کا تعلق مرد اور عورت کے رشتے سے ہے، اس غلامی میں عورت اپنے احمق شوہر کے ساتھ یہ جانتے ہوئے بھی چپکی رہتی ہے کہ اس کا شوہر اس سے نفرت کرتا ہے اور اس کی زندگی کو اجیرن بنائے ہوئے ہے۔

گونگی بندگی: اس غلامی میں بسنے والے لوگ وہ ہوتے ہیں جنہیں اپنا آس پاس کا معاشرہ اور روایت سخت ناپسند ہیں مگر ان میں بولنے کی ہمت نہیں اور وہ خیالوں کی دنیا میں رہتے ہوئے معاشرے کے ہر ظلم کو خاموشی سے سہتے جاتے ہیں۔

لولی لنگڑی غلامی: اس غلامی میں لوگ اپنے اوپر ظلم کرنے والوں کو خود سے زیادہ قوی مان کر مقابلے کا خیال چھوڑ دیتے ہیں اور لولے لنگڑے معذور افراد کی مانند بس ظلم کی چکی میں پستے چلے جاتے ہیں۔

چڑیلوں کی غلامی: بچوں کی کہانیوں میں خیالی جنوں اور چڑیلوں کے کردار بچوں کو اپنے سحر میں جکڑ لیتے ہیں اور کئی بچے ان احمقانہ خیالات کے زیر اثر ساری عمر مایوسی اور خوف میں گزار دیتے ہیں۔

بھیڑ چال والی غلامی:
اس حالت میں لوگ کسی منصوبے اور متوقع نتیجے کے بغیر جدھر کی ہوا ہو وہاں ہی چل پڑتے ہیں، ایسے لوگ بزدل بھی ہوتے ہیں اور جہاں ہجوم دیکھیں وہیں کا رخ کرلیتے ہیں۔

خوف کی غلامی: اس غلامی میں انسانوں کو کسی بھی دیدہ یا نادیدہ قوت کا خوف ڈرا کررکھتا ہے اور اس حالت میں یہ اول فول بکتے رہتے ہیں اور تیز ہوا میں پھڑپھڑاتے ہوئے کپڑے کی مانند لرزتے رہتے ہیں۔

کوڑھ مغز بندگی: اس بندگی میں لوگ دماغ کا استعمال نہیں کرتے اور اسی غلامی کی بدولت بادشاہوں کی اولاد بھی بادشاہ بن کر انسانوں کو اپنا تابع بناتی ہے۔

سیاہ بندگی: ایسی بندگی جس میں بااثر مجرم کو سزا دینا عارسمجھا جائے۔

سب سے بدترین غلامی وہی ہے جس میں آزادی کی خواہش پروان نہ چڑھ سکے۔

آخرکار نسلوں کی اس غلامی کا مشاہدہ کرتے کرتے میں تھک کر ایک ایسی وادی میں جابیٹھا جہاں صرف بھوت آباد تھے۔ میری نظروں کے سامنے قوموں کے عروج و زوال اور بندگیِ حیات کے مناظر چل رہے تھے۔ میں اپنے خیالات میں گم ادھر اُدھر دیکھ رہا تھا کہ میں نے ایک منحنی سے بھوت کو سب سے الگ تھلگ اس حالت میں کھڑا ہوا پایا کہ وہ مسلسل سورج کو گھورے جارہا تھا۔

میں نے اس سے استفسار کیا
تم کون ہو اور تمہارا نام کیا ہے؟
وہ بولا: میں آزادی ہوں۔

میں: آہا تو آزادی تمہاری آل اولاد کوئی بیٹے بھی ہیں؟ اور اگر ہیں تو تمہارے بیٹے کہاں ہیں؟
وہ: ایک کو پھانسی دے کر ماردیا گیا، ایک پاگل ہوکر مرگیا اور اور اس کے بعد والا پیدا ہی نہیں ہوا۔
اتنا کہہ کر وہ بھوت دھند بن کر غائب ہوگیا۔


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں

3 پر “زندگی آمد برائے بندگی” جوابات

  1. ھنادی Avatar
    ھنادی

    کس کا انتخاب ہے ؟ خلیل جبران کی کون سی کتاب سے لیا گیا ہے ؟

  2. مدثر محمود سالار Avatar
    مدثر محمود سالار

    کتاب کا نام ہے العواصف
    دارالعرب قاہرہ سے پبلش شدہ ہے

    1. مدثر محمود سالار Avatar
      مدثر محمود سالار

      کہانی کا عربی عنوان
      العبودیة
      ہے