تنہا خاتون شام کا منظراور سمندر

سکوت

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

فریحہ حسین:

دروازه کھلنے اور بند ہونے کی آواز پر دھیان ضرور گیا تھا میرا مگر میں کتاب میں اتنی گم تھی کہ اسد کے سٹڈی روم میں پہنچ جانے کو محسوس نہ کر سکی۔

”مما“ اس نے دھیرے سے پکارا تو میں چونک گئی۔ آدھی رات بیت گئی تھی۔ ساری دنیا اندھیرے کے غلبے میں تھی۔ تلاش رزق سے بیکل پرندے بھی اپنے گھونسلوں میں جا چکے تھے مگر مجھے اسد کچھ مضطرب لگا۔

”مما میں آپ سے کچھ کہنا چاہتا ہوں“ اس نے میز پر اپنے ہاتھ ٹکائے تو میں نے کتاب بند کر دی۔ اس کے پر اعتماد چہرے پر الجھن تھی اور ذہانت سے چمکتی آنکھوں میں تھکن جیسے کسی بات کو سوچتے سوچتے وہ تھک گیا ہو۔ اسٹڈی روم کی لاٸٹ بند کر کے میرا ہاتھ پکڑا اور وہ مجھے میرے روم میں لے آیا۔ مجھے صوفہ پر بیٹھا کے وہ خود نیچے بیٹھ گیا تھا۔

”مما جو میں کہنے جا رہا ہوں اس کا غلط مطلب نہیں لیں گی آپ۔ میں بہت سوچ سمجھ کے اس فیصلے پر پہنچا ہوں“ اس کا انداز مجھے حیرت میں ڈال رہا تھا۔

”میں کتنے سال کا ہوں؟“ شروعات اتنی سنجیدہ اور سوال اتنا احمقانہ۔ میں مسکرا دی مجھے لگا کوئی روٹین کا معاملہ ہے۔

”23سال3 ماہ 11 گھنٹے۔ اب منٹ اور سیکنڈ مجھے یاد نہیں“

”بابا کی وفات کو 19 سال بیت گۓ۔ ہیں نا“ اس نے مجھ سے تاٸید چاہی تھی۔ اس کا انداز اب مجھے الجھن میں ڈال رہا تھا۔

”اور مما اس عرصے میں آپ نےمجھے بابا کی کمی محسوس نہیں ہونے دی۔ بابا کا بزنس سنبھالا۔ مجھے باہر پڑ ھنے بھیجا۔ کبھی کسی سے مدد نہیں مانگی۔ میری خوداری کو کبھی ٹھیس نہیں پہنچنےدی“ وہ ایک لمحے کو رکا۔

”مام ! آپ نے مجھے بابا کی ہی نہیں بہن، دوست اور ایک بھائی تک کی کمی محسوس نہیں ہونے دی مگر میں آپ کا اچھا بیٹا نہ بن سکا۔ میں آپ کا خیال نہیں کر سکا“ وہ اب میرے ہاتھوں کو اپنےچہرے سے لگائے رو رہا تھا اور میں اس کو رونےسےروک نہ پائی کیونکہ میں سجھ ہی نہ پائی تھی کہ وہ کہنے کیا آیا ہے۔

”میں کبھی کیوں نہیں سمجھ پایاکہ آپ بھی انسان ہیں۔ آپ کوبھی کسی کی ضرورت ہو سکتی ہے“ وہ ایک پل کو رکا۔

”میں آپ کو گزرے ہوئے ماہ و سال تو نہیں لوٹا سکتا مگر آنے والے وقت سے کچھ خوشیاں آپ کے لیے چرانے کی کوشش تو کر سکتا ہوں“ پتہ نہیں کیوں اب مجھے اسد سے خوف آنے لگا تھا۔

”ماما ! آپ انکل حیدر سے شادی کرلیں۔ مجھےان سے مل کے آپ کی تنہائی کا احساس ہواہے۔ آپ کتنی مکمل لگتی ہیں ان کے ساتھ، آپ کو کسی سے ڈرنے کی ضرورت نہیں۔ پلیز! میری بات پر غور کریں“ صدمہ تھا۔ حیرت تھی۔ پریشانی تھی۔ کیا تھی میری کیفیت۔ میں سمجھ نہ پائی تھی اور وہ اطمینان سے اپنی بات کر کے رکا نہیں تھا۔

۔۔۔۔۔

انس سے شادی سے پہلے حیدر یونیورسٹی میں میرا کلاس فیلو تھا۔ ساتھ گزرے وقت نے ہمراہی کے خواب ہم دونوں کی آنکھوں میں چن دیے تھے۔ میں نے بابا سے حیدر کے لیے بات ضرور کی مگر تایا ابو کی طبیت خراب ہونے کی وجہ سے ان کی خواہش پر میرا نکاح میرے کزن انس سے کر دیا گیا۔

میں سب بھلا کے پورے خلوص سے زندگی میں آگے بڑھی۔ اسد کے زندگی میں شامل ہونے کے صرف چند سال بعد انس ایک روڈ ایکسیڈنٹ میں میرا ساتھ چھوڑ گئے ۔ انس کے بعد زندگی تھوڑی مشکل ہو گئی تھی مگر مجھے اپنے بیٹے کے لئے جینا تھا۔

میں نے بزنس سنبھالا ۔ اسد کو باہر پڑھنے کے لئے بھیجا۔ وہ واپس آیا تو میرے ساتھ بزنس سنبھال لیا۔ زندگی رواں دواں تھی مگر پھر اس دن حیدر کی اچانک آمد نے زندگی کے سکوت میں ہل چل مچا دی۔

میں فائل سامنے رکھے بے دھیانی میں اسے دیکھے جا رہی تھی۔ شاید مجھے اس کے اچانک آنے پر حیرت تھی۔

”مجھے پتہ ہوتا کہ تم مجھے دیکھ کے یوں حیران ہو گی تو میں بالکل نہ آتا“ میں کچھ جھینپ سی گئی تو وہ خود ہی کرسی گھسیٹ کے بیٹھ گیا تھا۔

”کیسی ہو تم؟“ وہی بے تکلفی وہی انداز۔ گزرے وقت نے بس اس کی کنپٹیوں کے بالوں کو سفیدکردیا تھا اور تو کچھ نہیں بدلا تھا۔

”تمھیں کیسی لگ رہی ہوں؟ “ میں اب سنبھل چکی تھی سو مسکرا دی۔

”بالکل نہیں بدلی تم اور آداب میزبانی تو اس آفس میں بیٹھ کے بھی نہیں آئے تمھیں“ وہ شرارت سے میرے آفس کو دیکھتے ہوۓ بولا۔

”سوری حیدر! مجھے یاد نہیں رہا“ میں نے ماتھے پر ہاتھ مارتے ہوۓ انٹرکام پر چائے کا آرڈر دیا۔

”تم نے پو چھا ہی نہیں کیا کرتے ہو آج کل۔ چلو میں خود بتا دیتا ہوں۔ MBA کے بعد باہر چلا گیا تھا۔ بابا کے ساتھ بزنس سنبھال رہا تھا۔ تم سے کیا عہد بھی تو نبھاناتھا۔ لیکن ان کی وفات کے بعد میرا وہاں دل نہیں لگ رہا تھا تو واپس آ گیا۔ پھر تمہیں ڈھونڈا اور اب تمہارے سامنے ہوں“ پھر کتنے ہی پل خاموشی کی نذر ہو گئے، جیسے کہنے کو کچھ نہ ہو۔

”سنو! میرے بیٹے سے ملو گے؟“ آخرخاموشی کے قفل کوکسی طرح تو توڑنا تھا۔

”کیوں نہیں۔ اس سے ملنا میرےلیے کسی اعزاز سے کم نہیں ہو گا“ شرارت سے اس کی آنکھیں چمک رہی تھیں۔ پھر تھوڑی دیر میں اسد اندر آ گیا۔ تعارف کا سلسلہ بھی ہو گیا بلکہ اب تواسد حیرانگی سے میری اور اس کی باتیں سننے میں مصروف تھا۔

”اتنا بڑا بزنس کیسے سنبھالتی ہو؟“آفس کے چاروں طرف نظر دوڑاتے ایک اور سوال آیا تھا۔

”کیوں تم جیلس ہو رہے ہو؟“

”ایک تو میں یونیورسٹی میں بھی تمھارے خواتین نامے سے بہت تنگ تھا۔ آج بھی تمھاری وہی باتیں ہیں اور تو اور اپنے بیٹے کو بھی اپنے جیسا سنجیدہ بلکہ رنجیدہ بنا دیا ہے۔“ ہمارے مشترکہ قہقے کے بعد ایک پل کو خاموشی چھائی تو اسے اسد کی آواز نے توڑا۔

”مما! انکل نے آپ سے کچھ پوچھا تھا“ اسد نے مجھے اس کا سوال یاد دلایا تو میں نے گھور کے اسے دیکھا اور میرے گھورنے پر وہ دونوں مسکرادیۓ ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔

پتہ نہیں کیوں پھر میرے اور اسد کے وقت میں اس کا بہت سا حصہ نکل آیا۔ کبھی وہ گھر خالی ہاتھ چلاآتا، کبھی کبھی پورے کا پورا لنچ یا ڈنر لے آتا اور کبھی ہم دونوں کو مختلف جگہوں پر گھسیٹ لیتا اور اگر میں تیار نہ ہوتی تو اسد کو لےکر نکل جاتا۔ اسد اچھا بھلا گروم ہونے کے باوجود اس سے متاثر ہونے لگا تھا، اس کی کوٸی بات حیدر کے ذکر کے بغیر پوری نہ ہوتی تھی۔

موسم اس دن بہت اچھا تھا۔ بادل، بارش اور دھوپ کے سنگھم نے کاٸنات پر عجیب خوبصورتی کے رنگ بکھیرے تھے۔ میں اور حیدر ابھی تھوڑی دیر پہلے اسد کو اٸیرپورٹ سے لے کر آئے تھے وہ دو دن سے کسی میٹنگ کے لیےاسلام آباد میں تھا۔

”شادی کیوں نہیں کی انکل آپ نے؟“ میں لائونج سے باہر کھلنےوالی کھڑکی میں کھڑی چائے پی رہی تھی جب اسد نے اس سے پوچھا۔

”تمھاری مما جیسی کوئی نہیں ملی نا اس لیے“ میں ایک لمحے کو تھم گئی ۔ اسد کی موجودگی میں مجھے اس جواب کی توقع نہیں تھی۔ کبھی کبھی ان کی دوستی سے مجھے ڈر لگتا تھا اور اس دن وہ ڈر میرے سامنے مجسم کھڑا تھا۔

اسد کی آنکھوں میں مجھے کوئی حیرانی نظر نہ آئی بلکہ مجھے لگا اس نے یہ جواب انجوائے کیا تھا۔ یوں جیسے اس کے لیےیہ بات نئی نہ ہو۔ شاید اسی لیے کل رات بہت اطمینان سے اسد مجھے حیدر سے شادی کی تجویز دے گیا تھا۔ میں اپنے بیٹے کو بہت سمجھدار سمجھتی تھی، مجھے اس سے اس بیوقوفی کی توقع نہ تھی ۔ مجھے اگر شادی ہی کرنا ہوتی تو اس وقت کرتی جب میرے سامنے میری پوری زندگی پڑی تھی۔ اسد کو تو میں سمجھا لوں گی کہ میری زندگی کا محور اس کے سواء اب کوٸی نہیں ہو سکتا۔ ہاں مگر حیدر کی کلاس لینے کی ضرورت تھی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اتنی خاموش کیوں ہو؟ “ حیدر دس منٹ سے میرے آفس میں میرے سامنے بیٹھا تھا اور میں لیپ ٹاپ پر مصروف نظر آنے کی کوشش کر رہی تھی کہ اس کی آواز نے سکوت کو توڑا۔

”کیا چھوڑا ہے تم نے میرے بولنے کے لیے“ بات کو کہیں سے تو شروع کرنا تھا تو یہیں سے سہی۔
” کیا مطلب۔ میں سمجھا نہیں“ اس کا انداز مجھے آگ لگا گیا۔

”اسد کو میری شادی کا مشورہ کیوں دیا؟ “ میرے سوال پر وہ قطعاً بھی شرمندہ نظر نہ آیا۔
”تمھیں لگتا ہے وہ چھوٹا سا بچہ ہے“ اس کا انداز ایک بار پھر مجھے آگ لگا گیا۔

” آ ج سے پہلے تو اس بچے کے ذہن میں یہ فضول بات کبھی نہیں آئی “ میں نے لیپ ٹاپ کو ایک طرف رکھتے ہوۓ طنزیہ کہا تو وہ کرسی سے کھڑا ہو گیا۔

”کیونکہ آج سے پہلے اس نے تمھیں کبھی خوش نہیں دیکھا“اس نے ٹیبل پر دونوں ہاتھ ٹکاتے ہوۓ کہا تو اب خاموش ہونے کی باری میری تھی۔

”میں اپنی زندگی سے خوش ہوں اور اور تمہیں اس بات کی اجازت نہیں دوں گی کہ تم میرے سکون کو تباہ کرو“ میں نےاسے خبردار کرتے ہوا کہا۔

” بیالیس سال کی عمر میں ساٹھ سال کی عمر گزارنےکو خوش ہونا کہتےہیں تو شاید تم واقعی خوش ہو“ وہ میری وارننگ کو خاطر میں نہیں لایا تھا۔

”بچوں جیسی باتیں مت کرو۔ لوگ ہنسیں گے ہم پر“ میں اسے کیسے بتاتی کہ انس کے بعد لوگوں کا خوف کیسے میرے اندر پنجے گاڑے بیٹھا ہے۔ میں نے تو سارے رنگوں کو اپنی زندگی سے کب کا نکال باہرکیا تھا۔

”یہ لوگ تب کہاں تھے جب میرے ساتھ دیکھے خواب توڑ کے تم آگے بڑھ گئی تھی، تب کیوں نہیں بتایا تھا کہ لوگ اور محبت میں سے ایک کا انتخاب کرنا پڑاتو دونوں بار لوگوں کو چنو گی“ میری آنکھوں میں دیکھتے ہوۓ اس نےمجھےلاجواب کیا تو میں نظریں چرا گئی ۔ وعدہ خلافی میں بڑی طاقت ہوتی ہے کہیں نہ کہیں آپ کو چت کر دیتی ہے۔

” میں تمھارے کسی سوال کے لیے جوابدہ نہیں ہوں۔پلیز لیو“ میں نے دروازہ کھولتے ہوئے اسے جانے کا کہا تو وہ بے یقینی سے مجھے دیکھتے ہوئے آفس سے نکل گیا اور اس کے جانے کے بعد میں نے اپنا سر ہاتھوں پر گرا لیا ۔ مجھے اس کے اس طرح جانے پر دکھ ہوا تھا مگر میرے پاس اور کوئی حل نہیں تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

فجر کی اذانوں کی آواز سے مجھے رات کے گزر جانے کا احساس ہوا۔ یہ دوسری رات تھی جو جاگتے ہوئے گزری تھی۔ سر کچھ بھاری محسوس ہو رہا تھا۔ نماز کے بعد چائے کے خیال آیا تھا۔ میں کچن کی طرف جا رہی تھی کہ مجھے اسد کے روم کی لا ٸٹ جلتی نظر آئی۔ میں نے ناک کر کے دروازہ کھولا تو وہ مجھے جائے نماز پر بیٹھا نظر آیا۔ نجانے کون سی دعا وہ اتنے انہماک سے مانگ رہاتھا۔ اسے دعا کرتے دیکھ کرمیں جائے نماز کے ساتھ پڑے صوفے پر بیٹھ گئی۔

”اسد “میں نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھ کے اسے پکارا تو اس نے فوراًآنکھیں کھول دیں۔
”رات بھر سوئے نہیں“
”بہت اچھی نیند آئی، بس فجر کی اذان کے ساتھ اٹھا ہوں۔ آپ ٹھیک ہیں“ میری آنکھوں میں دیکھتے ہوئے اس نے مجھ سے پوچھا تو میں نے اثبات میں سر ہلایا تھا۔

“ مما میں بچپن میں کیسا بچہ تھا“ اس کے سوال سے مجھےاندازہ ہوا کہ جو بات میں کرنے آٸی تھی اسے شروع کرنے کا کوٸی موقع مجھے وہ نہیں دے گا۔

“تم عام بچوں سے کافی مختلف تھے۔ سوال سے سوال نکالنا تم پر ختم تھا۔ پورے آئن سٹائن تھے“ ایک پل میں اس کا بچپن میری نظر میں گھوم گیا۔

”اچھا پھر تو مجھے ساٸنسدان ہونا چاہیے تھا۔ آپ نے مجھے بزنس لائن میں کہاں لگا دیا“ اس نے برا سا منہ بناتے ہوئے کہا تو مجھے ہنسی آ گئی۔

“ اور دیکھیں میری عادت آج بھی نہیں بدلی“ اس نے مسکراتے ہوۓ کہا تو میں حیران رہ گئی۔
"کون سی عادت؟“
”یہی سوال میں سے سوال نکالنے کی عادت“ میں اس کے جواب پر اس کے سر کے بال منتشر کرتے ہوئے مسکرا دی۔

”بابا آپ سے بہت محبت کرتے تھےنا“اس نے ایک اور سوال داغا تو مجھے احساس ہوا یہ لڑکا آج مجھے الجھاۓ رکھنا چاہتا ہے۔

” تمھارے بابا کے ساتھ میں نے اپنی زندگی کا بہترین وقت گزارا ہے“ انس کے ذکر پر میری آنکھیں جانے کیوں نم ہوگئیں۔

”جو ہم سے محبت کرتے ہیں وہ ہمیں خوش بھی دیکھنا چاہتے ہیں“ بات سے بات نکا لتے وہ بات کو کہاں لے گیا تھا اور یہ موقع میں گنوانا نہیں چاہتی تھی۔

”میں اپنی زندگی سے بہت خوش ہوں اسد۔ “ پتہ نہیں یہ میں نے اسے باور کرایا تھا یا خود کو۔

”مما خوش ہونے اور خوش نظر آنے میں بہت فرق ہوتا ہے“ میری نم آنکھیں اس وقت اس کے حصار میں تھی۔
”اسد! تم سمجھنے کی کوشش کیوں نہیں کر رہے“ میں اسے باور کرا رہی تھی کہ جسے وہ اتنا آسان سمجھ رہا ہے وہ سب اتنا آسان بھی نہیں ہے۔

”انکل حیدر کا کیا قصورہے۔ وہ آج بھی آپ کا انتظار کر رہے ہیں “میرے پاس اس کے سوال کا کوئی جواب نہیں تھا۔

” میں نے اسے نہیں کہا تھا کہ میرا انتظار کرے“ میں نے اس کی سوالیہ نظروں کو نظر انداز کرتے ہوئے کہا۔

”مما ! زندگی میں کبھی نہ کبھی مشکل فیصلے کرنے پڑتے ہیں مگر ان مشکل فیصلوں کے بعد زندگی آسان ہو جاتی ہے۔ آپ بھی اپنے لیے زندگی آسان کر لیں۔اپنے لیے نہیں تو میرے لیے انکل حیدر کو ہاں کر دیں۔ مجھے اس تکلیف سے آزاد کر دیں کہ میں زندگی میں آپ کے لیے کچھ نہیں کر پایا۔پلیز مجھے یہ خوشی دے دیں“ اس نے میرے ہاتھوں کو تھام کر کچھ اس طرح التجا کی کہ میں گھبرا کر کھڑی ہو گئی۔ مجھے لگا اگر میں مزید اس کے پاس بیٹھی رہی تو اپنا بھرم کھو دوں گی۔

اس کے کمرے سے باہر نکلتے ہوۓ میں سوچ رہی تھی کہ میں اسد کو کیسے سمجھاؤں کہ ہمارا سنگدل معاشرہ صرف مرد کو فراخدلی سے نئے رشتے بنانے کی اجازت دیتا ہے، عورت کو اپنے بارے میں سوچنے تک کا حق کوئی نہیں دیتا، اور اگر کوئی باہمت اپنا حق استعمال کر لے تو اس کی ہمت نشان عبرت بنا دی جاتی ہےمگر شاید اسد کا ساتھ میرے لیے یہ فیصلہ آسان کر دے، شاید۔۔۔۔۔


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں