مردہ خاتون کا خون آلود ہاتھ

میں کس کے ہاتھ پہ اپنالہو تلاش کروں۔۔۔!!!

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

قدسیہ ملک، شعبہ ابلاغ عامہ، جامعہ کراچی :

”تمہاری کس عمر میں شادی ہوئی تھی؟“ میں نےکرب سےروتی بلکتی سکینہ کا ذہن ہٹانےکے لئے اس سےکچھ پوچھناچاہا۔ کہنےلگی:

”باجی! میری شادی تو 17 سال میں، صحیح عمر میں ہی ہوگئی تھی لیکن میری بیٹی کی تو شادی کی نوبت ہی نہیں آئی، وہ تو جوان ہوتے ہی اپنے سوہنے رب کے پاس پہنچادی گئی“۔ وہ پھرپھوٹ پھوٹ کررونے لگی۔

واقعہ کچھ یوں ہے کہ ہماری یہ ماسی جو اندرون سندھ سے تعلق رکھتی تھی، کچھ سالوں سے ہمارے ہاں کام کررہی تھی۔ محنتی اور ایماندار ہونے کے باعث ہم اس کی غیر موجودگی میں بہت پریشان ہوجایا کرتے تھے۔

اس دن بھی کچھ یوں ہوا کہ گھر میں نند اور اس کی نئی دیورانی کی دعوت تھی۔ کام کی بہتات پہلےہی بہت تھی۔اکیلی بہو کے جہاں فائدےدنیاکونظرآتے ہیں۔ وہیں کچھ نقصانات بھی زیادہ ہی ہوتے ہیں۔ایسے مواقع پر اپنا اکیلاپن بہت شدت سے محسوس ہوتاہے۔ گھر کی ساری ذمہ داری ایک ہی کے کاندھوں پر آجاتی ہے۔

گھر کی صفائی ستھرائی، کپڑوں کی دھلائی، کانچ کےتمام برتنوں کو مہمانوں کی آمد سے قبل کھنگالنا،پھرکپڑے سے سکھانا، پھر انہیں سلیقے سے میز پر سجانا، گارڈن مین پودوں کو پانی دینا، پھر گل دانوں میں نئے پھول رکھنا، گھر کی ایک ایک چیز کی صفائی، ڈسٹنگ، کھانا پکانا اور پھر بچوں کو بھی دیکھنا، ان کے آرام اور کھانےکا خیال رکھنا۔ کسی کام میں کوئی کمی بھی نہ آنے پائے اور تمام کام جلد از جلد نمٹ بھی جائیں۔

سکینہ کے آنے کے بعداب میری آدھی پریشانیاں بہ آسانی حل ہوگئی تھیں۔ سکینہ اور اس کی دس برس بیٹی کے آجانے سے میرے آدھے کام بہ احسن خوبی نمٹ جاتے تھے۔

وہ نہیں آئی۔ اب میں نےبھی سوچ لیاتھاکہ وہ آئے گی تو اسےمیں بالکل کام پر نہیں رکھوں گی۔ اس دن جب وہ آئی تو اس کاستایا ہوا اداس چہرہ دیکھ کر بھی میرا دل نا پسیجا۔ میں نے انتہائی درشتگی کے ساتھ اس سےکہا کہ وہ یہاں سے چلی جائے، میں خود سارے کام کرلوں گی۔

وہ بالکل آہستگی سے”اچھا باجی جی“کہہ کر دروازے کی جانب بڑھی۔ اس کو اس طرح جاتے دیکھ کر ناجانے کیوں دیکھ کرمیرا دل بھر آیا۔ میں نے اسے روک کر نہ آنے کی وجہ پوچھی۔

اس نے بتایا کہ اس کے سسرال والوں نے جائیداد کی تقسیم کا لالچ دے کر دونوں میاں بیوی کو گاؤں بلایا۔ اور دوسرے ہی دن زبردستی اس کی بیٹی زرینہ کی قرآن سے شادی کرادی گئی۔ تاکہ جائیداد بہ آسانی تقسیم کی جاسکے۔ شادی کے بعد کیونکہ اب وہ ”پاک“ ہوگئی اس لئے اسے ہمارے ساتھ کہیں بھی آنے جانے پر پابندی لگاکر ایک بڑے سے کمرے میں قرآن کے ساتھ بند کردیا گیا۔

میں نے اسے کہا تم نے اس بات کی اطلاع اپنے گائوں کی پولیس کو دی؟
کہنے لگی:”باجی! پولیس کوکہنے کا مطلب ہے اپنے آپ کو خود کنویں میں دھکا دینا۔ ادی پولیس آکر ہمیں ہی پکڑکر لے جاتی اور جھوٹے مقدمات میں اندر کردیتی ہے“۔

کہنے لگی:”ایک دفعہ ہمارے گاؤں کے اسکول ماسٹر کی بیٹی جو بڑی خوبصورت تھی ، کو کاری کہہ کر ماردیا۔ پورا گاؤں اس واقعے کا چشم دید گواہ تھا کہ وڈیرے کوشادی سے انکار پر اس کے غنڈوں نے آکر ثمینہ کو گولیوں سے بھون ڈالا تھا۔

ماسٹر جی بچی کی تدفین سے پہلے ہی جاکر تھانے میں وڈیرے اور اس کے آدمیوں کے خلاف پرچہ کٹوانے گیا۔ پولیس نے ماسٹر جی کو ہی تھانے میں بند کردیا۔ وہ بدنصیب باپ اپنی بیٹی کے جنازے کو کاندھا بھی نا دے سکا۔ابھی اس واقعے کو پانچ سال ہوگئے ہیں۔ پولیس کہتی ہے اپنا بیان واپس لو گے تو جیل سے چھوٹ جاؤ گے لیکن ماسٹر نہیں مانتا۔

کچھ ماہ کام کرنے کے بعد اسےاپنی بیٹی کی یاد ستائی تو ہمیں اطلاع دے کر اپنے شوہر کے ساتھ گاؤں چلی گئی۔ وہاں جاکر اس پر یہ انکشاف ہواکہ زرینہ دو روز قبل کاری کے الزام میں چچا کے ہاتھوں ماری جاچکی ہے۔اس کی لاش کو بغیر کفن دیئے کاری قبرستان میں زمین برد کردیا گیا ہے۔

سکینہ کو گاؤں والوں نے بتایا کہ اس کے ساتھ گاؤں کے کمہار کے لڑکے کو بھی کارو کہہ کر ماراگیاہے۔سکینہ کی سہیلی نے اسے بتایا کہ تیری بچی کا کوئی قصور نہ تھا لیکن کمہار کے لڑکے سے سکینہ کے دیور کی پرانی دشمنی تھی۔ اس نے دونوں کو کاروکاری کے الزام میں مارڈالا۔ اور دونوں کی لاش کو ایک ساتھ لاکر ڈال دیا۔

اس دن وہ بہت پھوٹ پھوٹ کر رورہی تھی۔وہ بتارہی تھی وہ بلا شرکت غیرے تمام جائیداد کا اکیلا وارث بن بیٹھا ہے، ہمیں تو گاؤں بدر کردیا گیا ہے کہ تم لوگ کاری کے ماں باپ ہو۔ اوراب خود گاؤں میں بڑا معزز بن کر گھوم رہاہے کہ اپنی بھتیجی کو اپنے ہاتھوں مارڈالا۔

میرے پاس اس کو سوائے جھوٹی تسلیاں اور دلاسے دینے کے کچھ بھی نہ تھا۔ میں نے اپنے شوہر سے اس بارے میں بات کی تو کہنے لگے۔ یہ وڈیرے بڑے اثرورسوخ والے ہوتے ہیں۔ان سے پنگالیناعام آدمی کے بس کی بات نہیں۔

سرکاری و نیم سرکاری اداروں میں آج بھی ان کے آدمی بیٹھے ہیں، اسی لئے آج تک ان کاکوئی کچھ نہیں بگاڑ سکا۔ سندھ اور بلوچستان کے دیہی علاقوں میں آج تک لاچار عورت اور مرد کو کبھی جائیداد کے لئے تو کہیں دشمنی نکالتے ہوئےکاروکاری کرکے ماردیاجاتاہے۔

محکمہ صحت کے ذرائع کےمطابق پاکستان میں 2019 میں تقریباً چودہ ہزار ڈینگی کے مریض رپورٹ ہو چُکے ہیں، جن میں سندھ سے 120 مریض ڈینگی کا شکار ہوئے، اور 11 اس بیماری سے موت کے مُنہ میں چلے گئے۔ لیکن حیرت انگیز بات یہ ہےکہ اس عرصے کے دوران کاروکاری جیسی مُہلک رسم سے 58 خواتین اور 20 مرد اپنی جان کی بازی ہار گئے۔

کاروکاری کیا ہے؟
بدکاری کے شبہے میں عورت اور مرد کاایک ساتھ قتل کارو کاری کہلاتا ہے۔ قتل کی یہ دوہری غیر قانونی،غیر اسلامی،غیرانسانی واردات غیرت کے نام پر کی جاتی ہے۔ یہ قبیح اور گھنائونا فعل پاکستان کے صوبوں سندھ اور بلوچستان میں بہت عام ہے۔ ان کی پرانی اور دقیانوسی رسوم کے مطابق اپنے خاندان کی مشتبہ طور پر گمراہ عورت اور اس کے شریک جرم کا قتل کرنا جائز تھا اور قاتل سزا سےنہ صرف یہ کہ صاف بچ جاتا ہے بلکہ قابل عزت گرداناجاتاہے۔

سندھ میں اس طرح کے قتل کو ”کاروکاری“ کہاجاتاہے۔ پنجاب میں یہ ”کالا کالی“ کہلاتا ہے۔ خیبر پختونخوا میں ”طورطورہ“ جبکہ بلوچستان میں ”سیاہ کاری“ کہا جاتا ہے۔ سب سے زیادہ کاروکاری اور غیرت کے نام پر قتل کے واقعات بلوچستان کی سرحد کے قریب سندھ کے دیہی علاقوں میں ریکارڈ کئےجاتے ہیں۔

روزنامہ ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق سرکاری اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ جنوری سے جون 2019 تک سندھ کے مختلف حصوں میں کچھ 78 لوگ قتل ہوئے جبکہ کاروکاری کے نام پر 65 کیسز رجسٹرڈ ہوئے، تاہم ان میں سے 90 فیصد کیسز مختلف وجوہات کے باعث زیرالتوا ہیں، اس کے علاوہ زیادہ تر کیسز میں پولیس کی تحقیقات کسی نتیجہ پر نہیں پہنچ سکی۔

عورت کی مظلومیت کی یہ داستاں کوئی دو چار برس کی بات نہیں۔ یہ اس وقت کی بات ہے جب برصغیر پاک و ہند میں انگریزوں کی آمد کے بعد چھوٹے چھوٹے دیہاتی قبائل مضبوط ہونا شروع ہوئے تھے۔آج بھی یہاں کاوڈیرا اپنی سیاسی حیثیت منوانے کے لیے کاروکاری جیسےواقعات کو فروغ دیتا ہے کیونکہ پوزیشن، طاقت اور سیاست اس کی قوت میں اضافہ کرتے ہیں۔

قرآن سے شادی کی ایک معاشی وجہ بھی ہے کیونکہ ان وڈیرہ شاہی نظام میں یہ سوچ عام ہے کہ لڑکی اگرخاندان سے باہر شادی ہوکر جائے گی تو اس سے ملکیت تقسیم ہو جائے گی۔ اسی وجہ سےقرآن سے شادی کردی جاتی ہے۔

اقوام متحدہ کے ادارہ برائے منشیات و جرم کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق دنیا بھر میں ہر روز شریکِ حیات یا خاندان کے افرادکی طرف سے اوسطاً 137 خواتین کو قتل کر دیا جاتا ہے۔ کہتے ہیں کہ عورت کے لیے قتل ہونے کی سب سے ممکنہ جگہ اس کا گھر ہے۔ رپورٹ کے مطابق 2017 میں قتل ہونے والی 87000 خواتین میں سے نصف سے زائد کی موت ان کے عزیزوں کے ہاتھوں ہوئی۔

اسلام نے مرد کی طرح عورت کوبھی عزت، تکریم، وقار اور بنیادی حقوق کی ضمانت دیتے ہوئے ایک ایسی تہذیب کی بنیاد رکھی ہے۔ جہاں ہر فرد معاشرے کا ایک اہم رکن ہوتا ہے۔ اسلامی معاشرے میں خواتین اسلام کے عطا کردہ حقوق کی برکات ہی کی بدولت ہر طرح کی سماجی، معاشرتی، معاشی، تعلیمی، روحانی، مذہبی، ثقافتی، علاقائی، سیاسی، انتظامی اور بین الاقوامی میدانوں میں بھی ہرجگہ فعال کردار ادا کرتے ہوئے معاشرے کو اِرتقاء کی اَعلیٰ منازل کی طرف گامزن کرنے کا باعث بنتی ہیں۔

لیکن یہ سرمایہ دارانہ، وڈیرہ شاہی نظام آج بھی پاکستان میں دین اسلام سے دوری کے سبب اپنے اسلاف کے غلط کاموں کو نسل در نسل آگے کرتے ہوئے اقتدار کے اعلیٰ مناصب پر براجمان ہے۔آج بھی اپنی امارت، اسٹیٹس اور طاقت کے زعم میں مبتلا کھربوں کی جائیدادیں بناتے اور غریب کا خون تک نچوڑ لینے والے یہ امیر اور جدی پشتی ریئس اپنی اور دوسری معصوم دیہاتی عورتوں اور مردوں سے زندگی چھین لینے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتے۔

جب ان معصوم اور لاچار عورتوں کے نام پر بڑے بڑے سیمینار،کانفرنسیں اور ورکشاپ کا انعقاد ہوتاہے تو میرا دل یہ ضرور سوچتاہے کہ ان تمام افعال سے آج کی لاچار اور مظلومیت کی چکی میں پسی ہوئی عورت کی زندگی میں کیا فرق پڑرہا ہے۔

کیا مردوں کو نیچا دکھانے اور صرف مردوں کو اپنا دشمن سمجھنے والی یہ عورت جانتی ہے کہ آج بھی اندرون سندھ اور بلوچستان کے بعض علاقوں میں عورت کے ساتھ ساتھ مرد کو بھی شبہے کے الزام میں ماردیاجاتاہے۔

کبھی ان ناعاقبت اندیش افراد نے یہ سوچاہے کہ جب روز قیامت ان سرمایہ داروں ،وڈیروں اور اپنی سیٹ سنبھالتے ان سیاست دانوں سے ان تمام خون ناحق کا حساب مانگا جائے گا تو یہ کیا جواب دیں گے؟؟؟


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں