چیری اور اس کا جوس

کشمیر کو جانیے ( حصہ چہارم )

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

سید امجد حسین بخاری :

کشمیر کو جانیے ( حصہ اول )

کشمیر کو جانیے ( حصہ دوم )

کشمیر کو جانیے ( حصہ سوم )

کشمیراور پکوان کا چولی دامن کا ساتھ ہے، لذیذ پکوان کشمیری چولہوں کے مرہون منت ہیں ، کشمیر میں چولہے موسم اور آب و ہوا کے اعتبار سے مختلف ہوتے ہیں۔ بڑے گھروں میں جہاں جوائنٹ فیملی سسٹم ہے ، وہاں چولہے بڑے ہوتے ہیں جبکہ فیملی کے اعتبار سے چولہے کا سائز بھی بدلتا رہتا ہے۔

کشمیر میں چولہے عموماً تین بنیادی حصوں پر مشتمل ہوتے ہیں ،
پہلا حصہ ڈولن یا چولہے کا منہ کہلاتا ہے ،
دوسرا حصہ چولہے کے سراغ یا گگ ہوتے ہیں ،
جبکہ آخری حصہ دھواں نکالنے والا پائپ یا اونگڑ کہلاتا ہے ۔

کشمیر میں چولہے برفانی موسم میں گھروں کو گرم کرنے کیلئےاستعمال ہوتا ہے ، جبکہ گرمیوں میں عموماً چولہا صحن میں بنایا جاتا ہے تاکہ گھر کے اندر دھواں نہ پھیلے ، چولہے میں لکڑیاں جلائی جاتی ہیں ، جب کہ چولہے کا ایک سوراخ ہمیشہ گرم پانی کیلئے مختص ہوتا ہے یعنی جب تک چولہا جلتا رہتا ہے، پانی گرم ہوتا رہتا ہے ، یہی پانی ہاتھ منہ دھونے ، وضو کرنے ، کھانا بنانے الغرض ہر مقصد کیلئے استعمال ہوتا ہے ۔

کشمیری چولہوں کی سب سے خاص بات ان کے ساتھ موجود انگیٹھی ہے ، جس کو خوبصورت ڈیزائن کے ساتھ سجایا جاتا ہے۔اسی انگیٹھی کے ذریعے دھواں بھی باہر نکلتا ہے۔

کشمیر میں چولہا خاندان کو جوڑنے کا باعث بھی بنتا ہے ، گھر کے چھوٹے بڑے سب چولہے کے گرد بیٹھتے ہیں ، کھانا کھاتے ہیں ، لوک داستانوں کا تذکرہ ہوتا ہے، تاریخ پر بحث ہوتی ہے اور سب سے اہم بات گھر کے چولہے کے زیادہ قریب بیٹھنے والے لڑکے یا لڑکی کی فوری شادی بھی کروا دی جاتی ہے،

گرمیوں میں چولہے سے دور بیٹھنے میں عافیت سمجھی جاتی ہے کیونکہ گرمیوں میں زیادہ تر گیلی لکڑی کا استعمال کیا جاتا ہے ، گھر کے اندر موجود چولہوں کے باعث دھواں پھیل جاتا ہے ۔ تو جناب جب بھی کشمیر آئیں تو چولہے کے پاس ضرور بیٹھیں۔

کئی دوست چولہے اور شادی کے تعلق کو سمجھ نہیں پائے ۔ متعدد بچے ساون میں بھی چولہے کے ساتھ لگ کر بیٹھے ہوتے ہیں۔

اس وقت کشمیر میں اوپن ائیر کچن کا رواج عام ہوتا ہے ،اس لئے گھروں کے اندر چولہوں کے سامنے بیٹھنے سے گریز کریں ، ورنہ دھویں کے باعث نزلہ ، زکام اور آنکھوں کا مرض لاحق ہوسکتا ہے ۔ ایک تصویر میں کشمیر کے ان بچوں کا علاج بتایا گیا ہے جو شادی کی جلدی میں ہیں اور چولہے کے پاس بیٹھے ہوئے ہیں ۔

دوسری تصاویر میں چولہے کے پاس بیٹھنے والی لڑکیوں کو چولہے سے دور بھگانے کیلئے تجاویز ہیں ، ساون میں مٹی زیادہ چکنی ہوتی ہے ، لڑکیوں سے تاخشے ، آلے ، انگیٹھیاں بنوائیں ، خوبصورت کشیدہ کاری کروائیں، ستمبر میں‌ سکول اور کالجز کھل جائیں گے ، تب تک بیٹیوں کو ہنر مند بنا لیں۔ تو کیجئے بسم اللہ۔

کشمیر اور چیری کی فصل
چیری کشمیر میں وادی جہلم اور جنوبی کشمیر کے چند اضلاع میں پائی جاتی ہے ۔ آزاد کشمیر میں وادی جہلم اور لیپہ ویلی کے علاقے، فاروڈ کہوٹہ کے گاؤں جبی سیداں ، سولی خاص میں چیری کے درخت موجود ہیں ، لیکن یہاں چیری کے پھل کھانے کی بجائے اس کی ٹہنیوں کی چھڑیاں بچوں کی پٹائی کے کام آتی ہیں ۔ جبکہ مقبوضہ کشمیر میں کشتواڑ، سری نگر ، اسلام آباد، اوڑی، پلوامہ سمیت دیگر علاقوں میں چیری کے باغات موجود ہیں ، جہاں سے کشمیری کسان سالانہ 15 سے 20 ہزار میٹرک ٹن چیری انڈین منڈیوں میں فروخت کرتے ہیں ۔

کشمیر میں چیری کی متعدد اقسام پائی جاتی ہیں جبکہ چند علاقوں میں چیری کو گلاس پھل کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ ضلع حویلی میں پھل فروخت کرنے کا رجحان نہیں ہے، اسی لئے دیگر پھلوں کی درخت چیری کا پھل بھی ضائع ہوجاتا ہے جبکہ وادی لیپہ اور جہلم میں چیری کا جوس شوق سے پایا جاتا ہے۔

چیری کا سیزن اپریل کے آخری ہفتے سے شروع ہوتا ہے جبکہ یہ پھل جولائی کے اختتام تک ختم ہوجاتا ہے ۔ اب جب بھی کبھی کشمیر جائیں تو لیپہ کی چیری ضرور کھائیں ، تاہم کوہالہ ،دھیرکوٹ روڈ کے کنارے بھی آپ کو چیری کے چند درخت نظر آئیں گے ، لیکن یاد رکھیے گا دھیرکوٹ میں درختوں کے سائے میں بیٹھے ہر مرد و زن کو شک کی نظر سے دیکھا جاتا ہے ،

کوشش کریں کہ دھیرکوٹ میں مخلوط اجتماعات سے گریز کریں گے ، اتنی پابندیوں کے باوجود آزاد کشمیر میں سب سے زیادہ زندہ دل دھیرکوٹ کے لوگ ہیں ، کیونکہ ہر سال اپنے سیب کے باغات سے تحائف بھجوانا یہاں کے لوگوں کا خاصا ہے۔

شہتوت اور انجیر کشمیر کے پہاڑی علاقوں کے اہم پھل ہیں ، وادی جہلم ، نیلم ، ضلع حویلی کے علاوہ مقبوضہ کشمیر کے اضلاع اسلام آباد، بانڈی پورہ، کپوڑا اور شوپیاں میں شہتوت کا درخت ریشم سازی کے کام آتا ہے، انہیں علاقوں میں انجیر کے درخت بھی پائے جاتے ہیں ، تاہم اب انجیر اور شہتوت کےدرخت معدومی کا شکار ہیں ،

کپوڑا اور اسلام آباد کے علاوہ وادی کشمیر کے کسی بھی علاقے میں انجیر کے پھل کا کمرشل استعمال نہیں کیا جاتا ، بلکہ چند علاقوں میں تو اس پھل کو ہاتھ تک نہیں لگایا جاتا ،ساون کے ان دنوں میں انجیر کے پھل کے کو ہاتھ لگانا ممنوع ہے ، کیونکہ مسلسل بارشوں کے باعث انجیر کے پھل میں کیڑے پڑ جاتے ہیں ،

ویسے آپس کی بات ہے انجیر کے ریشوں اور کیڑوں میں فرق صرف ماہر لوگ ہی تلاش کر سکتے ہیں ۔ انجیر کے درخت سے نکلنے والا دودھ بچپن میں ٹیپ ریکارڈر کی کیسٹ کی ٹوٹی تاریں جوڑنے کے کام آتا تھا ، اسی طرح شہتوت کے درخت کی باریک ٹہنیوں سے بنی چھڑیوں سے اساتذہ نے وہ پٹائی کی ہے کہ اس درد کی شدت آج بھی برقرار رہی ہے۔ (جاری ہے )


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں