مدثرمحمودسالار، کالم نگار

ہماری سائن بورڈ کتھا

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

مدثر محمود سالار:
سائن بورڈز ہماری زندگی کا حصہ ہیں اور ہر شخص ہی واقف ہے کہ سائن بورڈز کیا ہیں اور کس مقصد کے لیے ہیں۔ مابدولت تھوڑے الگ ٹائپ کے کچھ زیادہ ہی گہری نظر اور مشاہدہ رکھنے والے مسافر ہیں۔

میں جب شہروں یا دیہاتوں کا سائن بورڈ دیکھتا ہوں تو بعض نام ایسے ہوتے ہیں جو مجھے سیکنڈز میں کچھ ایسا یاد کروادیتے ہیں جو کسی شہر سے منسوب شخص، واقعہ یا چیز کی نشاندہی کرتے ہیں۔ آج چند ایسے سائن بورڈز کا ذکر کرنے لگا ہوں جو دیکھتے ہی ایک خاص کیفیت طاری ہوئی یا کچھ خاص یاد آگیا۔

سیالکوٹ بس اڈے سے نکل کر کینٹ کی طرف جائیں تو ایک سنگِ میل پہ لکھا ہے: جموں پچاس کلومیٹر۔
پہلی بار یہ سنگِ میل دیکھ کر شہاب نامہ میں مذکور جموں کے احوال یاد آگئے۔
اب بھی روزانہ ہزاروں لوگ وہ سنگِ میل دیکھتے ہیں مگر مجھے عام سا لگنے کے بجائے جموں شہر خاص لگا اور جموں کے حوالے سے شہاب نامہ کے علاوہ دیگر کتب و رسائل میں پڑھا ہوا چیدہ چیدہ یاد آنے لگا۔

تلہ گنگ میں ایک سنگِ میل ہے جس پر لکھا ہے میانوالی ایک سو کلومیٹر۔
یہ نشان بھی جب جب دیکھا سرور سا طاری ہوا کہ بس اب صرف ایک سو کلومیٹر ہی دور ہوں گھر سے۔ اس سنگِ میل پہ ایک سو کا عدد میرے لیے حوصلہ افزا اور پرکشش سا ہے۔

چند سال پہلے تلہ گنگ سے خوشاب جاتے ہوئے تلہ گنگ کے مضافات میں ویگن رکی تو ایک بورڈ پڑھ کر سیکنڈز میں یاد آگیا کہ یہ گائوں کس کا ہے۔ ’’کوٹ سارنگ‘‘ گائوں کا بورڈ پڑھ کر یاد آیا کہ یہ تو محترم ستیہ پال آنند جی صاحب کا آبائی گائوں ہے۔

وہاں جتنی دیر ویگن رکی میں تصور میں وہی منظر لاتا رہا جو ستیہ پال صاحب ، گلزار صاحب ، غازی احمد مرحوم وغیرہ نے اپنے آبائی گائوں کا نقشہ کھینچا ہے اپنی تحریروں میں۔ وہیں پہلی بار اسی کوٹ سارنگ والے بورڈ نے مجھے احساس دلایا کہ گائوں تو ہمیشہ کے لیے میرا بھی مجھ سے چھوٹ گیا ہے۔

فلوریڈا سے نیویارک آیا تو جب پہلی بار کنگسٹن کا نام سنا تو پہلا تاثر بہت دلچسپ پڑا۔ جی تو مجھے دو جی بی کی یوایس بی یاد آئی جس پہ پہلی بار کنگسٹن لکھا دیکھا تھا۔

کنگسٹن میں ہی براڈوے سٹریٹ کا بورڈ دیکھ کر مجھے براڈوے سویٹ واہ کینٹ یاد آگئی ، پہلی بار براڈوے لفظ سے آشنائی اسی سویٹ شاپ کے ڈبے پہ لکھے براڈوے سویٹس سے ہوئی۔

یاد آیا پہلی بار جھنگ سے گزرا تھا تو بھی قدرت اللہ شہاب کا جھنگ کے بارے احوال یاد آیا تھا۔

چند ماہ پہلے ایک طویل سفر پہ کئی ریاستوں سے گزر ہوا تو سب سے پہلے پنسلوینیا کی ریاست آئی اور اس کا ویلکم بورڈ دیکھ کر میں نے ساتھ موجود دوست کو کہا کہ آپ کو معلوم ہے پنسلوینیا میں فتح اللہ گولن رہتے تھے۔ اب پتا نہیں یہیں ہیں یا نہیں۔ پنسلوینیا کا بورڈ دیکھ کر فتح اللہ گولن یاد آنا بھی عجیب سا معلوم ہوتا ہے نا۔

شکاگو کا لفظ پہلی بار تب پڑھا تھا جب کالاباغ میں نمک کی کانیں دیکھنے گئے اور وہاں کانوں کے آس پاس وال چاکنگ پہ شکاگو کے مزدوروں کو خراجِ تحسین پیش کیا گیا تھا۔ پہلی بار یہ لفظ بولنے میں عجیب سا بھی لگا مگر اس وقت وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ کبھی خاص طور پہ شکاگو کی سیر کرنے جائوں گا۔ جب پہلی بار میری شکاگو سے دبئی کی فلائٹ تھی تو شکاگو ایرپورٹ پہ وہی نمک کی کانوں والا منظر اور شکاگو لفظ یاد آیا تھا۔

نیویارک سٹی سے کنگسٹن پہلی بار آتے ہوئے ایک بورڈ پر بفیلو لکھا ہوا تھا اور بفیلو کا فاصلہ اور دیگر شہروں کا فاصلہ لکھا ہوا تھا۔
اب پہلی بار بفیلو کا لفظ دیکھ کر مجھے فوراً یاد آیا کہ سید ابوالاعلی مودودی رح کا انتقال بفیلو کے کسی ہسپتال میں ہوا تھا۔

سنگِ میل یا سائن بورڈ دیکھ کر فورا ایسی کسی نسبت کا یاد آنا بھی دلچسپ بات ہے۔
شکاگو میں ایک جگہ کا نام ڈیون سٹریٹ ہے جسے دیسی کمیونٹی نے تھوڑا کانٹ چھانٹ کرکے دیوان سٹریٹ کا نام دے دیا ہے۔ اس سٹریٹ کے نام سے دیوان سنگھ مفتون یاد آگئے۔ ان کے نام کا حصہ دیوان اور یہاں گلی کا نام دیوان۔

یہ تھی ہماری سائن بورڈ کتھا۔
اگر آپ کا بھی ایسا تجربہ ہوا ہو تو بتائیں۔


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں