ابن فاضل، کالم نگار سمندر کے کنارے کھڑ ے ہیں

ہمیں کس قسم کی مصنوعات کا بائیکاٹ کرنا چاہئے؟

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

ابن فاضل۔۔۔۔۔۔۔
ہر دوسرے چوتھے روز ایک لمبی سی فہرست کہیں نہ کہیں سے آئی ہوتی ہے کہ فلاں غیر ملکی کمپنیوں کی فلاں مصنوعات کا بائیکاٹ کردیں کہ فلاں کمپنی کا منافع فلاں ملک کو جاتا ہے اور فلاں کمپنی کا منافع وہ ملک مسلمانوں کے خلاف استعمال کرتا ہے۔ کس ملک کی کس کمپنی کی کن کن مصنوعات کا بائیکاٹ کرنا چاہیے، اور کیوں تھوڑا تجزیہ کرتے ہیں۔

زرمبادلہ کے ذخائر آج کل کے دور میں ملکوں کی معیشت کی شہہ رگ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ہر ملک کو کسی بھی طرح کی بیرونی ادائیگی، چاہے وہ کسی بھی مد میں ہو، جیسے قرض کی ادائیگی، درآمدات کے بل،حتی کہ دوسرے ممالک کے مصیبت زدہ لوگوں کی امداد ہو یا جرمانے وغیرہ کی ادائیگی سب زرمبادلہ کی شکل میں کرنا ہوتی ہے۔ یعنی اگر کسی ملک کے پاس زرمبادلہ کے ذخائر ختم ہوجائیں تو دنیا کا کوئی ملک اور کوئی کمپنی اس ملک کو کوئی سامان بھی فروخت نہی کرے گا۔

زرمبادلہ حاصل کرنے کے بنیادی چار زرائع ہیں:

برآمدات: جو مصنوعات یا خدمات دوسرے ممالک کو فروخت کی جاتی ہیں ان کے عوض جو رقوم حاصل ہوتی وہ زرمبادلہ کہلاتی ہیں۔

ترسیلات زر : بیرون ممالک میں کام کرنے والے پاکستانی جب وہاں سے بنکوں کے زریعہ رقوم پاکستان بھجواتے ہیں وہ زرمبادلہ ہوتی ہیں۔

غیر ملکی سیاحت:دوسرے ممالک سے جو سیاح آتے ہیں وہ ڈالر لے کر آتے ہیں اور ملکی کرنسی سے تبدیل کرواتے ہیں. یہ بھی زرمبادلہ ہی ہے۔

غیرملکی سرمایہ کاری: دوسرے ممالک کے سرمایہ کار جب ہمارے ملک میں فیکٹری لگاتے یا کاروبار کرتے ہیں تو وہ بھی سرمایہ زرمبادلہ کی صورت میں لے کر آتے ہیں.

یہ چاروں ذرائع اتنے سودمند ہیں کہ ہر ملک کی خواہش ہوتی ہے کہ ان کے پاس چاروں کی بہتات ہو لیکن ان سب میں بھی غیرملکی سرمایہ کاری کی اہمیت شاید سب سے زیادہ ہے کیونکہ ایک تو غیرملکی سرمایہ کاری نوے فیصد صنعت کے شعبے میں کی جاتی ہے جس کے زر مبادلہ کے علاوہ بھی بہت سے فوائد ہیں۔

مثال کے طور پر سب سے بڑا فائدہ مقامی لوگوں کوروزگار مہیا ہوتا ہے۔ دوسرے نمبر پر کوئی بھی غیرملکی سرمایہ کار عموماً اس صنعت میں سرمایہ کاری نہیں کرتا جس کی ملک میں پہلے سے بہتات ہو۔ مثلاً کوئی بھی غیرملکی کمپنی کبھی بھی پاکستان میں پنکھے نہیں بنائے گی۔ وہ صرف ایسے میدان میں سرمایہ کاری کریں گے جو اشیاء قلیل تعداد میں بن رہی ہوں یا بالکل نہ بن رہی ہوں بلکہ کچھ یا تمام درآمد ہورہی ہوں۔ ایسی صورت میں ان کی درآمد میں کمی واقع ہوتی اور زرمبادلہ کی بچت ہوتی ہے۔

اور تیسرا اور سب سے اہم فائدہ یہ کہ جب بھی کوئی غیرملکی کمپنی نئی صنعت لگائے گی اس کام کی نئی ٹیکنالوجی بھی ساتھ لائے گی۔ ہم جو اکثر سنتے ہیں کہ بھارت ہم سے ٹیکنالوجی میں بہت آگے چلا گیا اس کی سب سے بڑی وجہ بیرونی سرمایہ کاری کے ساتھ آنے والی نئی ٹیکنالوجی ہے۔

ہمارے ملک میں اس کی سب سے دلچسپ مثال کے ایف سی ہے۔ جب تک کے ایف سی پاکستان میں نہیں تھا کسی نے جلد کے ساتھ پکا چکن دیکھا بھی نہیں تھا۔ جیسے ہی کے ایف سی آیا مقامی لوگوں نے وہ بنانا سیکھا اور ہر گلی اور ہر بازار میں ویسا چکن بننا شروع ہوگیا۔

چونکہ یہ بیرونی سرمایہ کاری ملکوں کے لیے اس قدر فوائد کی حامل ہوتی ہے اسی وجہ سے دنیا بھر کی حکومتیں ہر وقت اس کوشش میں لگی رہتی ہیں کہ ان کے ہاں غیرملکی سرمایہ کاری ہو۔ نئی صنعتیں لگیں اور اس کام کیلئے بسا اوقات غیر ملکی کمپنیوں کوٹیکسوں میں چھوٹ اور دیگر بہت سی سہولیات کی ترغیبات بھی دی جاتی ہیں جو ملکی سرمایہ کاروں کو حاصل نہیں ہوتیں۔

اب سوچیں اس قدرمنتوں اور مشقتوں سے حاصل انتہائی سود مند سرمایہ کاری کی بدولت اگر کوئی کمپنی پاکستان میں اپنی مصنوعات بنانے کا آغاز کرتی ہے اور مہربان بائیکاٹ بائیکاٹ شروع ہو جائیں تو کیسا رہے گا. اگر واقعی ہی ہم پاکستان میں بننے والی غیرملکی اشیاء کا بائیکاٹ کرنا شروع ہوجائیں تو کیا کوئی اور غیرملکی کمپنی یہاں سرمایہ کاری کرے گی.

اس لیے گزارش ہے کہ ہر بات اور ہر فیصلہ حکمت پر مبنی ہونا چاہیے. ہاں! بائیکاٹ ضرور کریں۔ ان غیرملکی اشیاء کا جو درآمد ہوکر پاکستان آتی ہیں جس کے عوض ہمارا قیمتی زرمبادلہ ضائع ہوتا ہے۔ ان کا بائیکاٹ ضرور کریں.

گویا ہر چیز جو میڈ ان پاکستان ہے چاہے اس کا بنانے والا پاکستانی ہے یا غیر ملکی ہماری سر آنکھوں پر اور ہر وہ چیز جو میڈ ان پاکستان نہیں چاہے سعودی عرب اور ترکی سے آئے، ناپسندیدہ۔

اور اس ناپسندیدہ کی فہرست میں سب سے اوپر ہیں چائے اور خوردنی تیل. چالیس ارب کی چائے اور تیس ارب کا تیل ہر سال درآمد کرکے کھاتے ہیں. ہے ہمت اور جذبہ تو کریں بائیکاٹ.

اور آخری بات کون سی پاکستانی کمپنی ہے جو اپنی کمائی میں سے حکومت پاکستان کو حصہ دیتی ہے کہ کشمیریوں پر ظلم کا پہاڑ توڑنے والے بھارت سے لڑو۔ محنت مشقت سے کمائی گئی دولت پر پورا ٹیکس کوئی نہیں دینا چاہتا چہ جائے کہ وہ کما کر اسرائیل کودے گا کہ فلسطینی عوام پرظلم کرو، غیر حقیقی ہی نہیں مضحکہ خیز بات ہے. معاملات کا درست تجزیہ کرنے کی صلاحیت حاصل کریں یہ بہت ضروری ہے، ورنہ کوئی بھی جذباتی نعرے لگا کر ہمیں الو بناتا رہے گا۔


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں